سرکاری افسر اور وزیر: خر سواری و خر برداری


بہت برس ہوئے، انگریزوں کے زمانہ میں انڈین سول سروس کے ایک ممبر سر جیمس فٹز پیٹرک پولٹیکل ڈیپارٹمنٹ سے ملحق تھے۔ یہ پہلے سنٹرل انڈیا کی ریاستوں میں پولٹیکل ایجنٹ رہے۔ ان کے مرحوم خان بہادر قاضی سر عزیز الدین احمد وزیر اعظم دیتا کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔

اس زمانہ میں ریاست بہاولپور اور گورنمنٹ ہند کے درمیان ایک معاہدہ تھا، جس کے مطابق گورنمنٹ آف انڈیا اپنے افسروں میں سے تین نام پیش کرتی، اور ان تین میں سے نواب بہاولپور ایک افسر بطور فنانس منسٹر منتخب کر لیتے۔ اور تین اصحاب کے نام نواب بہاولپور پیش کرتے۔ ان تینوں میں سے ایک شخص بطور وزیراعظم بہاولپور پولٹیکل ڈیپارٹمنٹ منتخب کر لیتا، کیونکہ ریاست بہاولپور نہروں کے سلسلہ میں گورنمنٹ ہند کی دس کروڑ روپیہ کی مقروض تھی۔

گورنمنٹ ہند کے پولٹیکل ڈیپارٹمنٹ نے بہاولپور کے فنانس منسٹر کے عہدہ کے لئے تین نام انگریزوں کے پیش کیے۔ ان تین میں ایک نام سر جیمس فٹز پیٹرک کا تھا۔ یہ نام جب نواب صاحب کے پاس پہنچے، تو ان کو خیال ہوا، کہ سر جیمس فٹز پیٹرک کو منتخب کر لیں۔ اور قاضی سر عزیز الدین کی معرفت سر جیمس سے بات چیت کی جائے، تاکہ یہ بعد میں نواب صاحب کے ساتھ تعاون کی سپرٹ قائم رکھیں۔

نواب صاحب کو یہ علم تھا، کہ راقم الحروف کے اور قاضی صاحب کے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ نواب صاحب نے اپنے فارن منسٹر میجر مولوی شمس الدین اور ایک دوسرے صاحب کو میرے پاس بھیجا، تاکہ میں ان کا قاضی صاحب سے تعارف کرا دوں، اور ان کو تمام حالات سمجھا دیے جائیں۔ میجر صاحب اور ان کے ہمراہی کو ساتھ لے کر دیتا گیا، اور ان کا تعارف کرا کر اسی روز واپس آگیا۔

قاضی صاحب تمام حالات سننے کے بعد تو گاؤں (سنٹرل انڈیا، جہا ں سر جیمس پولٹیکل ایجنٹ تھے) گئے۔ آپ نے سر جیمس سے تمام حالات بیان کیے، تو سر جیمس نے باتوں میں پوچھا، کہ نواب صاحب بہاولپور  نے کیونکر ان کے پاس آدمی بھیجے؟ تو قاضی صاحب نے بتایا، کہ دیوان سنگھ اور نواب صاحب کے تعلقات ہیں، اور دیوان سنگھ میرا ( یعنی قاضی صاحب ) کا دوست ہے۔ ان تعلقات کے باعث بہاولپور کے دونوں وزراء ان کے پاس دیتا آئے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا، کہ میرا سر جیمس فٹز پیٹرک سے تعارف ہوا۔ گو وہ اس سے پہلے مجھے بطور ایڈیٹر ” ریاست“ جانتے تھے، مگر نہ تو میں کبھی آپ سے ملا، اور نہ ا ن کو یہ علم تھا، کہ میرے قاضی صاحب سے مراسم ہیں۔

سر جیمس فٹز پیٹرک بہاولپور میں فنانس منسٹر مقرر ہو گئے۔ ان کی تقرری کے چند ماہ بعد چیمبر آف پرنسس کے اجلاس کے سلسلہ میں سر جیمس اور قاضی صاحب دونوں دہلی آئے۔ یہ دونوں ایک ہفتہ کے قریب دہلی میں مقیم رہے، اور دونوں کا سیسل ہوٹل میں قیا م تھا۔ قاضی صاحب جب کبھی دہلی آتے، تو میں صبح پانچ بجے اور شام کو چار بجے ان کو ملنے ضرور جاتا، اور شام کو یہ میری کار میں سیر کے لئے بھی اکثر جاتے۔ یہ سلسلہ ہر روز جاری رہتا، جتنے دن بھی قاضی صاہب رہتے۔ ان دونوں ایک روز میں شام کو قاضی صاحب سے ملنے گیا، تو قاضی صاحب کے کمرے میں سر جیمس بیٹھے تھے۔

میں نے جب قاضی صاحب کو اپنے آنے کی اطلاح کرائی، تو آپ نے مجھے بھی اند ر ہی بلا لیا، اور میر ا سر جیمس سے تعارف کرایا۔ سر جیمس نے رسمی طور پر خندہ پیشانی سے ہاتھ ملایا، اور کہا کہ میرے ملنے سے ان کو بہت خوشی ہوئی۔ تھوڑی دیر تک ہم تینوں بیٹھے رہے، اور اس کے بعد سر جیمس اپنے کمرے میں چلےکیے۔ سر جیمس نے جاتے ہوئے مجھے کہا، کہ میں اگر کبھی بہاولپور آؤں، تو آپ سے ضرور ملوں۔ میں نے وعدہ کر لیا۔ مگر واقعہ یہ ہے، کہ ان کی بہاولپور کی ملازمت کے زمانہ میں مجھے ایک بار بہاولپور جانے کا اتفاق ہوا، مگر میں سر جیمس سے نہ مل سکا۔

اس واقعہ کے غالباً دو برس بعد سر جیمس فٹز پیٹر ک ریاست ہائے پنجاب کے ایجنٹ گورنر جنرل مقرر ہو گئے۔ ان کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں تھا۔ وہاں ان کی رہائش اور ان کا دفتر میاں میر والی نہر کے پار کئی ایکڑ زمین پر تھا۔ کیونکہ ان کی پوزیشن ایک گورنر کے برابر تھی، جن کے ماتحت پنجاب اور سندھ کی تیرہ ریاستوں کے نواب اور مہاراجے تھے، اور یہ جو چاہتے ان ریاستوں میں کراتے تھے۔

ان کے ایجنٹ گورنر جنر ل ریاست ہائے پنجاب مقرر ہونے کے بعد ان سے پھر ایک بار قاضی صاحب کے ساتھ ہی دہلی میں ملنے کا اتفاق ہوا۔ جب کہ آپ علی پور روڈ کے نابھ ہاؤس میں مع اپنی بیوی یعنی لیڈی فٹز پیٹرک کے مقیم تھے، اور چیمبر آف پرنس کے اجلاس کے سلسلہ میں آئے تھے۔ اس موقع پر ان سے ملا، تو انہوں نے شکایت کی، کہ میں بہاولپور گیا اور ان سے نہ ملا اُنہوں نے تاگید کی، کہ میں آئند ہ جب کبھی لاہور جاؤں، تو ان سے ضرور ملوں۔

لیڈی فٹز پیٹرک سے جب تعارف ہوا اور باتیں، تو معلوم ہوا، کہ یہ خاتون جو غیر معمولی طور پر رحمدل اور نیک ہیں، ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں۔ یہ کتوں، بلیوں اور دوسرے جانوروں سے بہت محبت کرتی ہیں۔ انہوں نے طوطے بھی پال رکھے ہیں۔ یہ سری کرشن کی پر ستار ہیں، اور گیتا کے ترجمے پڑھا کرتی ہیں۔ چنانچہ اس ملاقات میں لیڈی فٹز پیٹر ک نے بھی تاکید کی، کہ میں جب بھی لاہور آؤں، تو ان سے ضرور ملوں۔

تبادلہ آبادی سے پہلے میں ہر ماہ ایک روز کے لئے لاہور جایا کرتا تھا، تاکہ دوستوں سے ملاقات ہو جائے، اور کسی بڑی فرم سے اشتہار کا کنٹریکٹ بھی کر لیا جائے۔ میں وہاں بر گنزہ ہوٹل میں قیام کرتا، جو ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے۔ میں کب ایک روز لاہور گیا، تو دس بجے کے قریب میں نے سر جیمس کو ٹیلیفون کیا، میں ابھی آتا ہوں، تو انہوں نے کہا، بہت اچھا۔

میں نے اسٹیشن سے ٹیکسی منگوائی، اور ایجنٹ گورنر جنرل کی کوٹھی پہنچا، جو بہت شاندار عمارت تھی۔ بڑے دروازہ کے قریب ہی سیکرٹری کا دفتر تھا۔ ایجنٹ گورنر جنرل کا سیکرٹری بھی انڈین سول سروس کا ایک جونیئر ممبر ہوا کرتا۔ میں نے اس سیکرٹری کو اپنا وزٹینگ کارڈ بھیجا، تو اس نے مجھے اپنے کمر ہ میں بلا لیا، اور میرے اور اس کے درمیان یہ بات چیت ہوئی:۔

سیکرٹری:۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟
میں:۔ میں سر جیمس فٹز پیٹر ک سے ملنا چاہتا ہوں۔

سیکرٹری :۔ کیا آپ کے پاس ملاقات کی منظوری کا کوئی خط پہنچا ہے؟
میں:۔ نہیں۔ میں نے نہ تو کوئی خط لکھا اور نہ منظوری کا کوئی جواب میرے پاس پہنچا۔

سیکرٹری:۔ بغیر منظوری کے آپ ایجنٹ گورنر جنرل سے ملاقات نہیں کر سکتے۔ آپ ملاقات کے لئے درخواست بھیجئے۔ اگر ملاقات کی منظوری آپ کے پاس پہنچے، تو پھر ملاقات کے لئے آئیے۔
میں:۔ میں نے سر جیمس کو ٹیلیفون کیا تھا، اور انہوں نے ٹیلیفون پر مجھے کہا، کہ میں ان سے مل جاؤں۔

میرا یہ جواب سن کر سیکرٹری نے مجھے مشتبہ نگاہوں سے دیکھا۔ گویا کہ میں اسے دھوکہ دے رہا ہوں، اور جھوٹ بول رہا ہوں۔ کیونکہ ملاقاتیں عام طور پر درخواست کے آنے پر منظور یا نا منظور کی جاتی ہیں، اس نے کچھ پس و پیش کرتے ہوئے سر جیمس کے کمرے میں ٹیلیفون کیا، اور کہا، کہ ایک شخص دیوان سنگھ ایڈیٹر ” ریاست“ آیا ہے اور وہ کہتا ہے آپ نے ٹیلیفون پر ملاقات کی منظوری دی ہے۔ سر جیمس نے جواب دیا، ہاں! میں ملوں گا۔ چوہدار کے ساتھ ان کو میرے کمرے میں بھیج دو۔

میں چوہدار کے ساتھ سر جیمس کے کمرے میں گیا، جو کچھ فاصلہ پر بڑی بلڈنگ میں تھا۔ میں کمرہ کے اندر گیا، تو سر جیمس بہت تپاک اور بے تکلفی کے ساتھ ملے۔ لیڈی فٹز پیٹرک بھی وہاں بیٹھی تھیں۔ لیڈی فٹز پیٹرک سے میں نے پوچھا، کہ آپ کی فیملی ( کتے، بلیاں او ر طوطوں ) کا کیا حال ہے؟ میرا یہ بے تکلف کا سوال سن کر میاں بیوی دونوں ہنس پڑے۔

نصف گھنٹہ کے قریب میری ان سے باتیں ہوئیں، اور باتیں یہی والیان ریاست کے مظالم اور قاضی صاحب وغیرہ کی خیریت۔ نصف گھنٹہ کے بعد میں واپس آگیا۔ اور اس کے بعد میں جب کبھی لاہور جاتا، تو ٹیلیفون کر کے سر جیمس سے اکثر ملتا، اور سر جیمس بھی میرے بہت بے تکلف دوست بن گئے۔

مزید پڑھنے کے لیے “اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon