کھڑومی آبشار۔ وادی سون


وادی سون میں دنیا کی نظروں سے اوجھل ایک ایسی جھیل ہے جو گرین لاگون کی مانند ہے جس کے پانی اتنے کرسٹل کلیئر ہیں کہ پانی میں تیرتی مچھلیاں تک دیکھی جا سکتی ہیں۔ جس کے پانی کئی بلند آبشاریں بناتے ہیں چند ہی لوگ اس تک پہنچ پاتے ہیں اور وہ کسی کو بھی اس کا صحیح پتا نہیں بتاتے۔ اور یہ بلند پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ آبادی سے بہت دور، اس کی خوب صورتی تصویر میں دیکھ کر صرف اچھی ہے نہیں کہا جاسکتا بلکہ دیکھنے والے اس کی تصویروں میں کھو جاتے ہیں اس کو ایک خوابناک منظر تصور کرتے ہیں۔
میں نے یہ طے کرنے میں سات سال لگا دیے کہ ایسی کوئی جگہ ہے بھی یا نہیں۔ اور کیا مجھے وہاں جانا چاہیے یا نہیں۔ کیا میں اس رستے سے گزر پاوں گا جہاں صرف ایک پاؤں رکھنے کی جگہ ہے اور اگر نیچے دیکھو تو میلوں گہرائی اپنی طرف بلاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

پھر میں نے سوچا کہ مجھے وہاں جانا چاہیے آخر کب تک اس کی خوب صورتی کے قصے دوسروں سے سنتا رہوں گا۔ میں نے اپنے دوستوں سے اس کا ذکر کیا۔ ہائیکنگ گروپ کی اپنی کور ٹیم سے مشورہ کیا۔ ان کی اجازت کے بعد اس پلان کو اناونس کر دیا۔

اور پھر دوستوں کی ایک بڑی تعداد نے ٹریک پر آنے کی حامی بھرلی۔ فیصل آباد سے چوہدری محمد ایوب ایک بڑی ٹیم کے ساتھ آئے۔ سب کے جانے پہچانے ممتاز ناظر نوشہرہ ورکاں گوجرانوالہ سے چلے۔ احسن بلال صاحب ایک دن کے لئے اپنے بینک کو خدا حافظ کہ کر اپنے بھتیجے کو لئے راولپنڈی سے آئے۔ مرتضیٰ احتشام، آصف منیر، نبیل، دانش بٹ، عدنان احسن، علی بھائی، نیاز، عثمان، رمیض، حمزہ اور بہت سے مزید دوست اس ٹریک میں شامل ہوئے یہ سب ٹوٹل 35 ممبر تھے۔ ان سب کا بہت شکریہ۔

ہفتہ 22 ستمبر کی صبح ہم سب پیل چوک اکٹھے ہوئے۔ اور ایک قافلے کی شکل میں چانبل گاؤں کے قریب اپنے سٹارٹنگ پوائنٹ کی طرف چلے۔ یہ ایک کچا پتھریلا رستہ تھا جو خراب سے خراب ہوتا جا رہا تھا بالآخر ہم نے ایک کھلی جگہ پر اپنی گاڑی روک دی پیچھے پیچھے سبھی نے اپنی گاڑیاں روکیں یہاں سے پیدل جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سبھی نے اپنے اپنے بیگ نکالے۔ جوگر پہنے۔ ایک عام شہری سے ایک ہائیکر کا روپ دھارا۔ پانی کی بوتلیں۔ نمکو، لیز کے پیکٹ بیگوں میں بھرے گئے۔ ممتاز ناظر اپنی گاڑی کی ڈگی سیبوں سے بھر کر لائے تھے وہ سب ممبرز میں سیب تقسیم کرنے لگے۔ موسم بہت خوشگوار تھا دور تک پھیلی وادی چانبل ایک دلکش منظر پیش کر رہی تھی ہم کچھ ہی دیر میں اپنے سٹارٹنگ پوائنٹ تک پہنچ گئے۔

رستہ جیسا سنا تھا اس سے زیادہ خطرناک پایا۔ ایک پہاڑ کے اندر بنی طویل سرنگ کے اندر سے ہو کر جب ہم دوسری طرف نکلے تو رنگ ڈھنگ ہی الگ دکھائی دیے۔ دور تک گہری سبز وادی پھیلی ہوئی تھی۔ علاقہ پوٹھوہار کے علاقوں کی مانند کٹا پھٹا ہے۔ دور تک کوئلے کی مائنز پھیلی ہوئی ہیں اونچے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ ایک تنگ سا رستہ گولائی بناتا ہوا نیچے کو اتر رہا تھا۔ ہم اسی رستے پر چلے کئی جگہوں پر یہ رستہ بہت تنگ ہو جاتا ہے۔ وادی سون کی بھربھری مٹی بارش کی وجہ سے بہہ جاتی ہے اور پہاڑوں کی بلندی پر بنے رستے بھی ساتھ ہی لے جاتی ہے۔ ذرا سا پانی اس بھربھری مٹی کو پھسلواں بنا دیتا ہے۔ تھوڑا آگے چلے تو رستہ ندارد تھا۔ ایک مقامی وہاں کھڑا تھا اس نے بتایا کہ یہ رستہ جائے گا اور ہم ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ رستہ کہاں ہے اور رستہ بالکل بھی نہیں تھا۔ ایک دیوار تھی جس کے ابھرے ہوئے پتھروں کو پکڑ کر نیچے اترا جا سکتا تھا۔ اس ٹریک پر ہم رسوں کی مدد سے 90 کے زاویئے سے نیچے اترے۔

تھوڑا آگے چلے تو اوپر سے آتا پانی رستے کو گیلا کر رہا تھا یہاں سے ہم نے مزید نیچے اترنا تھا مگر پھسلن اتنی تھی کہ ہم آرام سے چل نہیں سکتے تھے چنانچہ ہم درختوں کی شاخوں سے لٹک کر نیچے آئے۔ نیچے گہرائی میں دیکھے بغیر پہاڑ کا سہارا لئے نیچے اترے۔ لیکن جب ہم اس گرین لاگون تک پہنچے تو ساری تھکاوٹ بھول گئے۔ ساتھیوں نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ کئی نے تو لباس اتارنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ خاموش آبشار اور گہرے سبز رنگ کی جھیل ٹریکرز کی آوازوں سے گونجنے لگی۔ جنگل میں منگل ہو گیا۔ علی بھائی اپنے بھاری بھرکم وجود کے ساتھ پوری جھیل میں تیرتے رہے۔

ہم نے بھی پانی میں چھلانگ لگا دی۔ گہرے سبز پانیوں میں ڈبکیاں لگانے کا اپنا ہی لطف تھا۔ سبھی بہت خوش تھے۔ فیصل آباد سے آئے نونہال تو زیادہ ہی خوش ہوئے۔ یہ ان کا پہلا ٹریک تھا۔ کافی دیر یہیں گزارنے کے بعد ہم نیچے کی طرف چلے مگر یہاں بہت بڑی بڑی چٹانوں نے ہمارا رستہ روکا ہوا تھا۔ کچھ دیر تک تو چٹانوں کو پھلانگتے ہوئے چلے مگر جلد ہی ایک دیوار کی مانند چٹان نے ہمارا رستہ روک لیا۔ کچھ باہمت نوجوان تو اس چٹان سے بھی نیچے اتر گئے۔ یہاں پر یہ واٹر فال مزید نیچے کو چلتی ہے اور ایک چھوٹی آبشار بناتی ہے

کچھ دیر بات چیت کے بعد طے ہوا کہ نصف ٹیم نیچے مزید ہائیکنگ اور ایکسپلورنگ کرے گی جبکہ دیگر آہستہ آہستہ واپسی کا سفر اختیار کریں گے اور جن رستوں سے ہم درختوں سے لٹک لٹک کر نیچے اترے تھے خود سوچیں کہ واپس کیسے آئے ہوں گے۔ دوپہر ہو چکی تھی دھوپ اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ کہیں رکتے کہیں چلتے ہم واپس اپنے سٹارٹنگ پوائنٹ تک پہنچے۔ سب کو بھوک لگی ہوئی تھی۔ اور پھر بار بی کیو کی خوشبو بھی ہر طرف پھیلی۔

ہماری ٹیم ابھی نیچے ہی تھی۔ انہوں نے کئی گھنٹے تک کھڑومی واٹر فالز کو ایکسپلور کیا اس کے نئے نئے زاویے تلاش کیے۔ ان کی تصویریں اور وڈیو بنائیں۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ہر چند سو میٹر کے بعد پھر ایک گہری فال آتی ہے جس کے ساتھ ساتھ مشرق کی طرف جا کر ہموار جگہ سے نیچے اترنا پڑتا ہے۔ یہاں پانی بلندی سے گرتے ہیں اور بہت دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں ایسی کئی آبشاریں ہیں لیکن ان تک پہنچنا بہت مشکل ہے ہماری ٹیم کےملک محمد علی اعوان، عدنان احسن، نبیل اعوان، نیاز، عثمان، رمیض، آصف، حمزہ، مرتضیٰ احتشام، دانش بٹ، ذوالفقار احمد، سرفراز، ثاقب فاروق بٹ، اور کئی مزید ساتھیوں نے کھڑومی کی کئی فالز کو دریافت کیا۔ اور ان کی تصاویر کو بہت پسند کیا گیا۔

کھڑومی فالز کی طرف جانے کا رستہ کافی دشوار ہے۔ فالز کے نیچے بنی جھیلوں کی گہرائی بہت زیادہ ہے۔ نئے آنے والے سیاحوں کو مکمل احتیاطی تدابیر اور گائیڈ کے ساتھ ہی یہاں آنا چاہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).