متنازعہ علاقے کے محب وطن پہاڑ اور تطہیر فاطمہ کی فریاد


سپریم کورٹ آف پاکستان میں رواں ماہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا مقدمہ زیر سماعت رہا۔ جس میں ایک بائیس سالہ لڑکی اپنی دستاویزی شناخت سے والد کا نام ہٹانے پر بضد تھیں۔ عدالت میں دائر اپنی درخواست میں انہوں نے اپنا پیدائشی نام ’تطہیر فاطمہ‘ بھی تبدیل کر کے ’تطہیر بنت پاکستان‘ لکھ دیا تھا جسے دیکھ کر ججز سمیت عدالت میں موجود لوگ بھی حیرت میں مبتلا تھے۔ درخواست گزار لڑکی کا موقف یہ تھا کہ ان کے والدین کی سال 1998 میں علیحدگی ہوگئی تھی اور تب سے اب تک ان کی اپنے والد سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔

عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران تطہیر کے والد شاہد ایوب بھی موجود تھے۔ جن کا موقف یہ تھا کہ ان کی سال 2002 میں تطہیر سے ملاقات ہوئی اور نادرا کے ریکارڈ میں اسے اپنے خاندان میں شمار کرنے کی کوشش کی لیکن نادرا کی جانب سے یہ سہولت فراہم نہ ہوسکی۔ جبکہ تطہیر اس بات پر بضد رہی کہ وہ شاہد ایوب کو اپنا باپ ہی تسلیم نہیں کرتی، وہ جس نے کبھی اس کا نام تک نہیں لیا، کبھی ملاقات نہیں کی اور یہاں تک کہ اپنے خاندان کے شجرے میں اس کا نام تک درج نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس وجہ سے لوگوں کی باتوں اور سماجی رویوں سے ذلت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ چنانچہ انہیں مسئلے کے حل کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے سماعت کے دوران تطہیر اور ان کے مبینہ والد شاہد ایوب سے متعدد سوالات پوچھے۔ تاہم آخر میں یہ ریمارکس دیتے ہوئے کیس کو اگلی سماعت تک ملتوی کر دیا کہ کسی فرد کے دستاویزات سے والد کا نام ہٹانے کی نہ اسلامی قوانین میں کوئی گنجائش موجود ہے نہ ملکی قانون اس اقدام کی اجازت دیتا ہے۔ یوں معاشرتی ظلم و ستم کی ستائی تطہیر اشکبار آنکھوں میں اپنی فائل لیے واپس لوٹ گئیں۔

اس مقدمے کے چند روز بعد سپریم کورٹ میں ہی ایک اور مقدمہ سماعت کے لئے مقرر تھا۔ جو کہ ملک کے شمال میں واقع سات دہائیوں سے آئین کے سایہ سے محروم خطہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین سے متعلق تھا۔ یہ کیس گلگت بلتستان بار کونسل اور معروف قوم پرست رہنما ڈاکٹر عباس استوری کی جانب سے عدالت ہذا میں دائر کردہ متفرق مقدمات پر مشتمل تھا۔

کیس کی سماعت کے لئے عدالت کی جانب سے سنیئر قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا گیا تھا۔ سماعت کی ابتداء میں اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس اس کیس سے متعلق کچھ دستاویزات موجود ہیں لیکن وہ اوپن کورٹ میں نہیں رکھے جاسکتے۔ اگر اجازت ہو تو وہ انہیں چیف جسٹس کے چیمبر میں دیکھا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہماری کوشش ہے گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی وہی حقوق دیے جائیں جو یہاں یعنی پاکستان کے لوگوں کو حاصل ہیں۔ انہوں نے مذید کہا کہ گلگت بلتستان کے ہر پہاڑ اور پتھر پر پاکستان کا نام لکھا ہوا ہے۔ وہاں کے لوگوں کے دلوں میں اس ملک کے لئے دیگر پاکستانیوں سے زیادہ محبت ہے۔ ان لوگوں نے پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لئے جنگیں لڑی ہیں۔ ملک کے لئے ان کی خدمات کو کسی طور پر بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی حب الوطنی پر اگر کسی کو شک ہے تو ان کے ساتھ گلگت بلتستان چلیں تو اندازہ ہوگا۔ تاہم انہوں نے یہ کہتے ہوئے کیس کی سماعت نو اکتوبر تک ملتوی کر دی کہ وہ اس معاملے کی خود پیروی کریں گے چاہے اس کے لئے دوسرے مقدمات کو التوا میں ڈالنا کیوں نہ پڑے۔

متذکرہ بالا مقدمات کے تقابلی جائزے کا مقصد یہ تھا کہ دونوں میں ایک بات مشترک تھی اور وہ شناخت کا معاملہ تھا۔ پہلے مقدمے میں انفرای شناخت جبکہ دوسرے مقدمے میں اجتماعی شناخت دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ تطہیر فاطمہ کو ماں کا پیار تو میسر تھا مگر باپ کے سایہ سے محروم تھی جبکہ گلگت بلتستان کے عوام کو دونوں جانب سے محرومیوں کا سامنا تھا۔ چونکہ چیف جسٹس صاحب نے تطہیر کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے خود فر ما یا تھا کہ پاکستان ہماری ماں بھی ہے اور باپ بھی لہذ ا اوپر کے جملے میں دونوں کا لفظ اس تناظر میں استعمال کیا۔ حالانکہ ہم تو دھرتی کو صرف ماں ہی سمجھ لیتے تھے مگر اب معلوم ہوا کہ اس کی حیثیت ماں باپ دونوں کی ہے۔

تطہیر کو بائیس سال کی عمر میں ولدیتی شناخت کا احساس ہوا جبکہ گلگت بلتستان کے عوام گزشتہ سات دہائیو ں سے دونوں والدین کی شناخت سے محروم ہیں۔ یہا ں کے باسی وقت کے ساتھ ساتھ اس شناخت کو بڑی شدت سے محسوس تو کرتے ہیں مگر اس مقصد کے حصول کے لئے ان کا کہیں پر بھی بس نہیں چلتا۔ چنانچہ یہ لوگ اس اہم فیصلے کے لئے پاکستانی حکمرانوں اور اداروں کی طرف ہی آس لگائیں ہوئے ہیں۔ مگر حکمرانوں کی جانب سے یہاں کے عوام کو ان محرومیوں کا صلہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ سمیت تمام مشترکہ مفادات کے اداروں میں عدم نمائندگی، دیامر بھاشا ڈیم کی رائلٹی کی تقسیم میں ہٹ دھرمی، سرحدی تنازعات کے حل میں عدم دلچسپی، سی پیک کے تحت منظور شدہ منصوبوں سے بے دخلی، صوبائی معاملات میں بے جا دخل اندازی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور غیر قانونی ٹیکسوں کے نٖفاذ کی صورت میں وقتاً فوقتاً ملتا رہا۔

اس کے باوجود خطے کے عوام نے ان محرومیوں کے خلاف کبھی چوں تک نہیں کیا۔ بلکہ ہر مشکل گھڑی میں دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اپنی بہادری اور شجاعت مندی سے ناقابل فراموش داستانیں رقم کیں۔ بات صرف جنگی محازوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے کی حد تک نہیں بلکہ امن کے دنوں میں بھی یہاں کے باسیوں نے وہ کارنامے سر انجام دیے جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی شان و شوکت کا باعث بنے۔

چیف جسٹس صاحب کا مشاہدہ بالکل بجا ہے کہ گلگت بلتستان کے پہاڑوں اور پتھروں پر بھی پاکستان کا نام لکھا ہوا ہے اور حقیقتاً ایسا ہی ہے۔ یہاں کے پہاڑ اور پتھر صرف پاکستان نہیں بلکہ پاکستانی سیاستدانوں اور وفاقی پارٹی کے ناموں اور نعروں سے بھی خوب رنگے ہوئے ہیں۔ اعتبار نہیں تو خنجراب سے لے کر حولیاں تک شاہراہ قراقرم کے ارد گرد سینیٹر طلحہ محمود کے نام کی چاکنگ اس کی زندہ مثال ہے۔ ابھی تو یہ صرف شروعات ہے، آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا۔ کیونکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی سابق وفاقی حکومت کی مہربانی سے نافذ کردہ گلگت بلتستان آرڈر2018 کے تحت تو خطے کی تمام غیر آباد زمینیں حکومتی ملکیت ظاہر کی گئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ خطے کے پہاڑوں میں چھپے قیمتی ذخائر کی تلاش کے لئے مائنگ لیز بھی غیر مقامی کمپنیوں کو دیے جانے سے پہاڑوں اور پتھروں پر چاکنگ تو بنتی ہی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک سے اس قدر والہانہ محبت کے باوجود ملکی حکمران خود ہی گلگت بلتستا ن کو متنازعہ قرار دیتے رہے ہیں۔ چاہے وہ عمران خان ہو یا بلاول بھٹو، میاں نواز شریف ہو یا آصف زرداری، پرویز رشید ہو یا اعتزاز احسن حتیٰ کہ دفتر خارجہ نے بھی متعدد موقعوں پر گلگت بلتستان کو متنازعہ قرار دے کر یہاں کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ جبکہ یہ بات اگر گلگت بلتستان کے کسی فرد کی زبانی سننے کو مل جائے تو اس کے خلاف فورتھ شیڈول اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے پابند سلاسل کیا جاتارہا۔ حالانکہ بنیادی و آئینی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کوئی جرم ہے نہ غداری۔

بات تو حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ اور مسئلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے۔ کشمیر کے مسئلے کے حل تک اس خطے کا کوئی مستقل حل تلاش کرنا ممکن نہیں مگر متنازعہ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ طاقت کے زور پر عوامی آوازیں دبائی جائیں۔ متنازعہ تو مقبوضہ کشمیر بھی ہے مگر وہاں کے عوام کو حاصل شدہ حقوق یہاں کی نسبت کئی گنا بہتر ہیں۔ لہذا وقت اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ گلگت بلتستان کی سترسالہ محرومیوں اور ملک کے لئے یہاں کے عوام کی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسئلے کا کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جو کسی ایک سیاسی جماعت کی بجائے پوری قوم کے مفاد میں ہو۔ وگرنہ کل کو تطہیر فاطمہ کی طرح یہاں بچے بھی اپنے والدین کی شناخت کی خاطر اعلیٰ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے اور حکمرانوں کے گریبان پکڑنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).