الیکشن جیتنے کے لیےبی جے پی کو بابری مسجد کی ضرورت


بابری مسجد

بابری مسجد چھ دسمبر 1992 میں بی جے پی کی زیر قیادت ہندو انتہا پسندوں کے ایک ہجوم نے منہدم کر دیا تھا

انڈیا کا سپریم کورٹ ایودھیا کی منہدم بابری مسجد کے تنازعے کی جلد ہی حتمی سماعت شروع کرنے والا ہے ۔ مندر۔ مسجد تنازعے کے ہندو فریق اور ملک میں برسر اقتدار ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اس مقدمے کا جلد از جلد فیصلہ چاہتی ہے ۔ اس کے بر عکس حزب اختلاف کی جماعت کانگریس اور مسلم فریق اس مقدمے کی سماعت میں مزید تاخیر کے متمنی ہیں۔

آئندہ سات آٹھ مہینے میں ملک میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں ۔حکومت خود اپنی کارکردگی کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہے ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں جس طرح کی انتخابی فصا بن رہی ہے اس میں ایک بار پھر عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کیے جانے کا قوی امکان ہے۔

بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعہ گزشتہ 35 برس سے جذباتی مذہبی سیاست کا محور رہا ہے ۔ ایودھیا کی پانچ سو برس پرانی مسجد کو بی جے پی کی زیر قیادت ایک طویل تحریک کے بعد ہندو انتہا پسندوں کے ایک ہجوم نے چھ دسمبر 1992 کو منہدم کر دیا تھا ۔ بعض ہندو تنظیموں اور افراد کا یہ دعوی ہے کہ یہ مسجد ایک مندر توڑ کر بنائی گئی تھی اور یہ کہ وہ مندر اس مقام پر بنا تھا جس جگہ ہندوؤں کے بھگوان شری رام چندر کی پیدائش ہوئی تھی ۔

امیت شاہ، یوگی آدتیاناتھ

بی جے پی مندر مسجد کے تنازعے سے اپنی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوئے اقتدار تک پہنچی

بابری مسجد ایودھیا کی سب سے بڑی اور اہم مسجد تھی ۔ 1949 تک اس میں باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھی جاتی تھی ۔ لیکن دسمبرمیں اس میں مورتی رکھے جانے کے واقعے کے بعد مقامی انتظامیہ نے وہاں سے مورتی ہٹانے کے بجائے مسجد پر تالا لگا دیا ۔ 1986 میں ایک مقامی عدالت نے اس کا تالا کھولنے اور اور مندر کی بنیاد رکھنے کی اجازت دے دی ۔ 1949 سے یہ مقدمہ مختلف مراحل سے گرتا ہوا اب سپریم کورٹ پہنچا ہے ۔

مندر مسجد کے اس تنازعے میں عدالت عظمی کو صرف یہ طے کرنا ہے کہ آیا بابری مسجد جس زمین پر بنی تھی وہ زمین جائز طور پر مسجد کی تھی یا نہیں یا یہ مسجد کسی مندر کی زمین غصب کر کے بنائی گئی تھی؟ اس مقدمے کا فیصلہ انتہائی دلچسپ ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ ملک کا غالبآ سب سے پرانا مقدمہ ہے اور اس کے اصل مدعی انتقال کر چکے ہیں ۔ اس مقدمے میں خود بھگوان رام کو بھی ایک فریق یا زندہ وجود تسلیم کیا گیا ہے۔

اس مقدمے کے فیصلے میں عدالت اس پہلو کو بھی مدنظر رکھے گی کہ کہ آیا ایک مسجد اسلام میں عبادت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے یا نہیں ۔ سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ آئندہ چند ہفتوں میں روز مرہ کی بنیاد پرشروع ہو گا اوربہت سے ماہرین گا خیال ہے کہ شاید انتخابات سے پہلے اس کا کوئی فیصلہ آ جائے ۔

یوگی آدتیاناتھ

ملک کے ایک سرکردہ ہندو سادھو نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ ملک میں مذہبی بھائی چارے کے لیے مسجد کے حق سے دستبردار ہو جائیں

بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیربی جے پی کا ایک کلیدی ایجنڈہ رہا ہے ۔ مندر میں مورتی رکھنے سے لے کر مسجد کو تباہ کیے جانے اور مندر کی تعمبر کے لیے پتھرکے ستونون، مورتیوں اور چھتوں تک کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ اب صرف فیصلے کا انتظار ہے ۔ چند ہفتے پہلے ملک کے ایک سرکردہ ہندو سادھو نے متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر عدالت عظمی نے مسجد کے حق میں فیصلہ کیا تو ملک میں آگ لگ جائے گی اور یہ فیصلہ ہندو تنظمیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا ۔انہوں نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ ملک میں امن و آشتی اور مزہبی بھائی چارے کے لیے عدالت سے باہر سمجھوتہ کرتے ہوئے مسجد کے حق سے دستبردار ہو جائیں ۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جہاں تک مسجد کے حق سے دستبردار ہونے کا سوال ہے تو شاید یہ فیصلہ مسلمانوں کو بہت پہلے کر لینا چاہيئے تھا ۔ لیکن اس مرحلے پر جب ملک کی عدالت عظمی انصاف کا عمل مکمل کرنے والی ہے کسی یکطرفہ سمجھوتے کا عمل انصاف کے تقاضے کے منافی ہو گا ۔

مندر مسجد کے تنازعے نے بی جے پی کو بہت کچھ دیا ہے ۔ بی جے پی مندر کی سیاست سے ہی آگے بڑھ سکی اور بالآخراقتدار تک پہنچی ۔ سیاست کی دھندلی فضا میں بی جے کو ایک بار پھر بابری مسجد کے سہارے کی ضرورت ہے ۔ نماز پڑھنے کے لیے مسلمانوں کو مسجد کی ضرورت ہے یا نہیں یہ توعدالت عظمی بتائے گی لیکن انتخاب جیتنے کے لیے مسلمانوں سے زیادہ بی جے پی کو بابری مسجد کی ضرورت ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp