ظفراللہ خان کو بتانا تھا۔۔۔  


ظفر اللہ خان کا فون تھا۔ فون اٹھاتے ہی، مانو، ژالہ باری شروع ہو گئی۔ ظفرکبھی دوست ہوا کرتا تھا۔ اب بھائی ہے۔ وہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ چھوٹا یا بڑا۔ عمومی حالت میں تو میں ہی بڑا رہتا ہوں اور اس کی محبت سمیٹتا رہتا ہوں لیکن کبھی کبھی جب اسے ناصح بننا ہو تو اچانک وہ بڑا ہو جاتا ہے۔ ڈانٹتا ہے، گھرکتا ہے۔ کان کھینچنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ پھر دھیما پڑ جاتا ہے۔ کبھی روٹھنے کی اداکاری کرتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی بات کسی طرح میرے سر میں ڈال دے اور مجھے اس پر قائل بھی کر لے۔ اسے میرا ضدی پن کہہ لیجیے کہ اکثر اس کے درست موقف پر بھی میں اڑیل پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بحث میں الجھ جاتا ہوں۔ پھر گھمسان کی گولہ باری ہوتی ہے لیکن اچانک بیچ میں کوئی چٹکلہ مجھ سے سرزد ہوجاتا ہے اور کبھی کوئی شگوفہ اس کی زبان سے ارزاں ہو جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ایک مشترکہ قہقہے پر بات سمٹ جاتی ہے۔ تلخی کی کوئی دراڑ ابھی رشتے کی دیوار میں ہے نہیں اور لگتا نہیں کہ کبھی ہو گی بھی۔ محبت سے اٹھائی گئی عمارت کی بس یہی خوبی ہوتی ہے۔

آج بھی حضرت ناصح یہ سمجھانے پر بضد تھے کہ مجھے لوگوں کو مشتعل کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بات درست تھی پر جیسا کہ روایت رہی ہے، میں ماننے سے مکر گیا۔ اسی بہانے کچھ دلیلیں اس کی سننے کو مل گئیں، کچھ باتیں میری اس نے سن لیں۔

ہم بحیثیت مجموعی زود رنج لوگ ہیں۔ یوں تو روٹھنے کے لیے کوئی بھی بہانہ کافی ہے پر فی زمانہ سیاست اور مذہب پر ہم ایسے کلے گاڑ کر کھڑے ہیں کہ جہاں خلاف طبع کوئی بات سنی، فورا لٹھ اٹھا لیتے ہیں۔ مزہ یہ ہے کہ کئی دفعہ بات کا تعلق دور دور تک کسی عصبیت سے نہیں ہوتا پر گھما پھرا کر، توڑ مروڑ کر اسے اپنی مرضی کا رنگ دے دیا جاتا ہے اور پھر جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، لٹھ بازی شروع کر دی جاتی ہے۔

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور سیاسی عصبیت کے کاسہ سر میں دماغ عنقا ہوتا ہے۔ ایک جانب دیکھیے تو سب ہرا ہرا دکھتا ہے، دوسری جانب دیکھیے تو بس شکستہ سے شکستہ تر ہوتے ہوئے کھنڈر۔ تاویلات کا سارا خرچ ایک سمت ہوتا ہے اور الزامات کی توپ کے نیچے پہیے نہیں لگائے جاتے تو اس کے مڑنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔

ہمارے بہت سے دوستوں نے راہ چن لی ہے اور اس پر اپنا اپنا صنم بیچ راستے میں گاڑ دیا ہے۔ صبح اس کی آرتی اتارتے ہیں، دوپہر کو اس کے بھجن گاتے ہیں اور رات کو اس کے چرنوں میں وشرام کرتے ہیں۔ اس راہ کے دوسری سمت ایک ستون اٹھا دیا گیا ہے۔ اس پر ایک اور شبیہہ ہے  جس پر ہمہ وقت سنگ باری جاری رہتی ہے۔ دائیں جانب ثواب کمایا جاتا ہے، بائیں سمت گناہ کم کیے جاتے ہیں۔ صنم اور ستون وہی رہتے ہیں پر ایک دوست سے دوسرے دوست تک ان کی جگہ بدل جاتی ہے۔ تیرے بھی صنم خانے، میرے بھی صنم خانے۔ بقول امر جلیل، پتھر پر کنکر مارنے جائز ٹھہرے تو پھر اس کی پوجا پر کاہے کا اعتراض۔ تو ہم بھی معترض نہیں ہوتے۔ ہاں جب ایک دوست دوسرے پر نکتہ چیں ہوتا ہے تو کبھی کبھی اسے سمجھانے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ بھیا بت کی شکل مختلف ہونے سے بت پرستی جائز نہیں ہوتی۔ ایسے موقعے پر ظفر اللہ خان نازل ہو جاتے ہیں کہ لوگوں کو سمجھانے کا ٹھیکہ کیا آپ کو تفویض ہوا ہے۔ چپ کر کے تماشہ دیکھیے۔ ہم کیا بتائیں کہ ایک سا تماشا کوئی کب تک دیکھے اس لیے کبھی کبھی تالاب میں  کنکر پھینک دینا چاہیے.

عقیدے اور ایمان کا معاملہ اور دل چسپ ہو جاتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک بات ذاتی دائرے میں رہے، ہم اسے ذاتی معاملہ ہی سمجھتے ہیں پر یاروں پر سماج سدھار کا بھوت طاری ہے اور انہیں لگتا ہے کہ یہ سدھار ان کے عقیدے کی پٹاری سے ہی برآمد ہونا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ ہماری ثقافت میں پٹاری سے ہم نے ایک ہی شے برآمد ہوتی دیکھی ہے جس سے سدھار کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ نکتہ سمجھنے کا یہ ہے کہ جب ایک بات عوام کے لیے رکھ دی جاتی ہے تو اس پر طنز کا دفتر بھی کھل سکتا ہے، مذاق کا طور بھی بن سکتا ہے اور نقد تو ہوتا ہی ہے۔ جب تک اخلاقیات کا دامن ہاتھ میں ہے تب تک بات ہو سکتی ہے، کرنی چاہیے اور کرتے رہنی چاہیے۔

المیہ یہ ہے کہ جد درجے ناقابل اعتبار تاریخ، مضحکہ خیز روایات، شخصی عقیدتوں، معجزات، کرامات اور منطقی مغالطوں پر ذرا سا بھی سوال کر دیا جائے تو ایک گروہ فورا آپ کو رہنما بنا لے گا اور دوسرا گردن زدنی ٹھہرا دے گا۔ بیچ کی کوئی راہ نہیں ہے۔ اسے میری کرامت سمجھیے کہ ایک دن مجھے ناصبی ٹھہرایا جاتا ہے اور اگلے روز لوگ پوچھنے چلے آتے ہیں کہ صاحب آپ شیعہ تو نہیں۔ کچھ میرے احمدی ہونے پر یقین کیے بیٹھے ہیں تو کچھ پکا ملحد قرار دینے میں ایک آنچ کی کسر بھی روا نہیں رکھتے۔ اسی بیچ کبھی نبی کی ذات کے حوالے سے ایک مضمون لکھ بیٹھوں تو لوگ اس کی مثالیں دے کر بتاتے ہیں کہ یہ دیکھیے یہ تو کسی ولی کی تحریر ہے۔ ہر کسی کو دعوی ہے کہ وہ میرا دماغ پڑھ سکتا ہے۔ میرے دل کے اندر اتر کر دیکھ سکتا ہے۔ رہا میں تو مجھے تو کوئی دعوی نہیں ہے۔ نہ پارسائی کا نہ کفر کا۔ اسی میں خوش ہو لیتے ہیں کہ برسر الزام ہی سہی، شناسا نام تو لیتے ہیں۔ ظفر اللہ خان کو یہ بھی گوارا نہیں۔ بہانہ یہ کرتے ہیں کہ ہماری جان انہیں عزیز ہے اس لیے ہماری زبان حلقہ زنجیر میں رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہر کچھ روز بعد ہمیں بٹھا کر ڈراتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ڈر بھی جاتے ہیں پر یادداشت کمزور ہے۔ کچھ دن  بعد پھر بھول جاتے ہیں کہ کس بات پر ڈرنا تھا، کس پر چپ رہنا تھا اور کس پر آنکھیں موند لینی تھیں۔

ظفراللہ خان کو بس یہ بتانا تھا کہ ان سے تنگ آ کر ہم نے مفتی صدر الدین آزردہ کا یہ شعر ڈھونڈا ہے۔ سن لیجیے۔ شاید آپ ہی نصیحت پا جاویں

ناصح یہاں یہ فکر ہے سینہ بھی چاک ہو

ہے فکر بخیہ تجھ کو گریباں کے چاک میں

٭٭٭   ٭٭٭

(بھائی حاشر، میں موقع کا گواہ تو نہیں ہوں لیکن، از رہ حب مشترک، عرض ہے کہ ظفراللہ خان کی بات میں وزن ہے۔ ہم دوستوں کی وہ عمر گزر گئی جب دلیل اور مباحث سے جستجو تسکین پاتی تھی، فکر کو راہ سوجھتی تھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ زمانہ بھی  بہت بدل چکا۔ ہم ایک پسماندہ، غریب، کمزور اور مشتعل معاشرے میں زندہ ہیں۔ آپ کو تفکر اور تحریر کے ہنر پر ملکہ ہے۔ جو تھوڑا بہت ممکن ہے اسی کے ریاض میں توانائی صرف ہو تو بہتر ہے۔ آپ سوال ضرور اٹھائیے لیکن کچھ مباحث چوراہے کے انبوہ سے مناسبت نہیں رکھتے۔ میں دکھ سے اپنا تاثر عرض کرتا ہوں کہ کچھ تعجب نہیں کہ مستقبل میں صاحبان علم ہمارے حالات پر غور کریں تو معلوم ہو کہ ہم اجتماعی اختلال ذہنی کا شکار ہو چکے تھے جہاں منصب اور رتبے سے قطع نظر، ایک اجتماعی ہیجان نے دلیل، توازن اور حس انصاف پر گرہ لگا رکھی تھی۔ منقسم اور محتاج معاشروں میں ایسا ہونا کچھ فوق العادت نہیں۔

مفتی صدر الدین آزردہ غالب کے دوست تھے، اسی سے اندازہ کر لیجئے کہ رواداری اور وسعت ظرف کا کیا عالم تھا۔ ایک شعر آزردہ کا مجھ سے بھی سن لیں۔ واللہ اس میں Coffee Planet کی طرف کوئی اشارہ نہیں۔

کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی

کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے)

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad