سیاحت کا عالمی دن اور پاکستان


سیاحت کا عالمی دن اس سال 27 ستمبر کو پوری دنیا میں منا یا گیا۔ پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے مختلف شہروں میں واقع اپنے دفاتر، ہوٹل، اور ریسٹ ہاؤسز میں اس دن کو منانے کے انتظامات کیئے۔ اس دن کو منانے کا مقصد بین الاقوامی سطح پر سیاحت، اس کی معاشرتی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے عالمی سیاحت اس دن کو منانے کا اہتمام کرتی ہے۔ یہ تنظیم عالمی سیاحت پر، سالانہ رپورٹ بھی مرتب کرتی ہے، جس میں عالمی سطح پر مختلف ممالک میں سیاحت اور اس سے متعلقہ سرگرمیوں اور سیاحت کے معیار و سہولتوں پر اعدادوشما اور اعشاریے ہوتے ہیں۔ ادارے کی حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ سال 2017 کا احاطہ کرتی ہے۔ جس کے مطابق گزشتہ سال 1.32 ارب لوگوں نے مختلف ممالک کی سیاحت کی اور اس سیاحت کے نتیجے میں میزبان ملکوں کو 1.34کھرب امریکی ڈالر بطور آمدن حاصل ہوئے۔

سب سے زیادہ سیاح یورپ میں گئے جو کہ کل تعداد کا 51% تھے، اس کے بعد ایشیا اور پیسفیک، امریکہ، افریقہ اور مشرق وسطی کے ممالک شامل ہیں، جہاں سیاحوں کی تعداد بالترتیب، کل تعداد کا24% 5%، 16%، اور 4% رہی۔ یوں سیاحوں کی طرف سے خرچ کی جانیوالی رقوم میں سب سے زیادہ حصہ بھی براعظم یورپ کے حصے میں آیا، جو کہ 39% تھا، باقی براعظموں نے سیاحت سے ہونیوالی آمدن کا بالترتیب 29%، 24%، 3%، اور 5% حصہ سمیٹا۔

رپورٹ کے مطابق پچھلے سال فرانس میں سب سے زیادہ سیاح گئے، جن کی تعدادآٹھ کروڑ انہتر لاکھ تھی، اسپین میں جانیوالے سیاحوں کی تعدادآٹھ کروڑاٹھارہ لاکھ تھی۔ امریکہ نے سات کروڑ انہتر لاکھ سیاحوں کو خوش آمدید کہا۔ جبکہ چین میں سیاحت کی غرض سے جانیوالوں کی تعداد چھ کروڑ سات لاکھ تھی۔ اٹلی کو پانچ کروڑ تراسی لاکھ سیاحوں نے رونق بخشی۔ میکسیکو، برطانیہ، ترکی، جرمنی اور تھائی لینڈ ان ممالک میں شامل تھے جہاں گزشتہ سال ایک اوسط کے مطابق ساڑھے تین کروڑ سیاحوں نے اپنے قدم رکھے۔ اگر آمدنی کے حساب سے دیکھا جائے تو سیاحوں نے امریکہ میں سب سے زیادہ یعنی 211 ارب امریکی ڈالر خرچکیے ۔ اسپین، فرانس، تھائی لینڈ کو سیاحت سے ہونے والی آمدنی ایک اوسط کے مطابق 66 ارب امریکی ڈالر کے قریب رہی۔ برطانیہ، اٹلی، جرمنی اور چین نے سیاحت سے 40 ارب امریکی ڈالر کی آمدنی حاصل کی۔

اقوام متحدہ کی تنظیم برائے عالمی سیاحت اور عالمی سفر اور سیاحت کونسل کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال آنیوالے بین الاقوامی سیاحوں کی کل تعداد نو لاکھ ستر ہزار تھی جو کہ اس سے پیشتر گزرے سالوں میں آنیوالے سیاحوں کی تعداد سے کہیں بہتر تھی۔ ظاہر ہے، ملک کی سلامتی اور سیکورٹی حالات میں بہتری نے سیاحوں کو اطمینان بخشا اور لاکھوں لوگوں نے ملک کے طول وعرض کو سیاحت کی غرض سے دیکھا۔ ان سیاحوں نے پاکستان میں قریب اکتیس کروڑ ستر لاکھ امریکی ڈالر خرچکیے ۔ وطن عزیز کی سفر اور سیاحت سے کل حاصل ہونیوالی آمدن، قومی آمدنی کا 2۔ 8% رہی۔ سیاحت کے لحاظ سے دنیا کے دس بہترین ملکوں میں جانیوالے سیاحوں کی تعداد اور ان ملکوں کو حاصل ہونیوالی آمدن کا موازنہ اگر پاکستان میں آنیوالے سیاحوں کی تعدا د اور آمدن سے کیا جائے تو موخرالذکر آٹے میں نمک کے برابرہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں، کہ یہ ملک خوبصورتی، موسموں اور ثقافت کے لئے اپنی مثال آپ ہے، جہاں سیاحت کو فروغ دے کر اس تعداد اور آ مدن کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔

وطن عزیز کو قدرت نے ان تمام نعمتوں سے نواز رکھا ہے، جو ایک سیاح کی آنکھ اور روح کے لئے سکون، راحت اور دلکشی کا باعث ہوسکتی ہیں۔ یہاں موجود مغلیہ طرز تعمیر کی عمارتیں(لاہور، ملتان، پشاور، بہاولپور وغیرہ )، قدیم تہذیبوں کے آثار(موہنجو دوڑو، تخت بھائی، ٹیکسلا، ٹھٹھہ)“ عجائب گھر، بدھ مت اور سکھوں کی متبرک عمارتیں(ننکانہ، حسن ابدال)، لمبی ساحلی پٹیاں(گوادر، گڈانی اور ملحقہ علاقے) اور چولستان کے صحرا سیاحوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں۔ اس جنت نظیر میں ایک سو سے زائد ایسی پہاڑی چوٹیاں ہیں جن کی بلندی 7000 میٹر سے بلند ہے۔ دینا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 پاکستان کے شمال میں واقع ہیں اور ان کی بلندی 8000 میٹر سے زیادہ ہے۔ ہر سال پوری دنیا سے ان پہا ڑوں کو سر کرنے کو ہ پیما یہاں آتے ہیں۔ یہاں لاتعداد مرغزار، بلند میدان ( شندور، دیوسائی) او دنیا کے بڑے گلیشئیر ہیں۔ خوبصورت ترین قراقرم شاہراہ، دنیا کے عجوبوں میں سے ایک ہے۔

ناران، کاغان، گلگت اور بلتستان اس زمین پر جنت کے ٹکڑے ہیں۔ ان ٹکڑوں میں د رجنوں وادیاں، ان گنت جھرنے اور آبشاریں ہیں۔ آزاد کشمیر کی خوبصورت وادیاں، آبشاریں قدرت کا الگ شاہکار ہیں۔ ملک میں جنوب سے شمال تک سو کے قریب جھیلیں ہیں۔ کچھ جھیلیں سطح سمندر سے تین سے چار ہزار فٹ کی بلندی پر ہیں۔ منچھر جھیل ایشیا کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔ الغرض وہ تمام لوازمات جو سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں، یہاں موجود ہیں۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستان، اس شعبے سے کس قدر فا ئدہ اٹھا پاتی ہے۔ اور کس طرح اس شعبے کو سیاحوں کے لئے مزید پر کشش بناسکتی ہے کہ یہ ملک بین الاقوامی و قومی سیاحوں کے لئے ترجیح بن جائے۔ اور یہ تب ممکن ہے جب ان علاقوں کی خوبصورتی کو صاحبان اقتدار اس طرح سمجھیں جیسا اطالوی کوہ پیما میسنر نے سمجھا او رپاکستان کے شمالی علاقہ جات ( گلگت اور بلتستان) کے بارے میں کہا تھا کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ان علاقوں کو محفوظ شدہ قرار دے دیتا، تاکہ آج سے سینکڑوں برس کے بعد جب یہ دنیا آلودگی کی لپیٹ میں ہوگی اور تب اگر کوئی بچہ اپنے باپ سے پوچھے کہ جب اللہ نے یہ دنیا تخلیق کی تھی تو کیسی تھی؟ تو وہ باپ اس بچے کی انگلی تھامے اور اسے ان علاقوں میں لے آئے اور کہے، بیٹا!، تب یہ دنیا ایسی تھی۔

وطن عزیز میں مختلف ادوار حکومت میں، حکومتوں کا سیاحت او ر اس سے منسلک صنعتوں کی نمو اور بہتری کے لئے کام کرنے کی نیت اور د لچسی کا اندازہ اس سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری سطح پر سیاحت کی پہلی پالیسی کا اجراء 1990 میں ہوا، اس کے بعد 2010 میں ایک نئی پالیسی کی ضرورت کو محسوص کیا گیا، مگر چونکہ احساس سطحی اور ترجیحات اور تھیں، لہذہ یہ پالیسی جاری نہ کی جاسکی۔ رہی سہی کسر اٹھارہویں ترمیم نے پوری کردی، جس کی رو سے، صوبوں کو خود مختاری دی گئی تھی۔ چونکہ وفاق کی سطح پر اس شعبے میں کو ئی سنجیدہ کوشش پہلے نہ ہوئی تھی، سو، صوبوں نے بھی اس روش کو قائم رکھا اور کوئی خاطر خواہ پالیسی متعارف نہ ہوسکی۔ صرف خیبر پختونخواہ نے 2015 میں ایک پالیسی متعارف کرائی اور اس پر عمل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی اور نتیجے کے طور پر پچھلے چند سالوں میں ملکی اور غیر ملکی سیاحت میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ شنید ہے کہ پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن، وفاقی سطح کی ایک سیاحتی پالیسی پر کام کر رہی ہے جس کا اعلان جلد ہو گا۔ لیکن بات تو تب ہے، کہ یہ پالیسی نہ صرف یہ کہ دور حاضر کی تما م جملہ ضرورریات سے ہم آہنگ ہوبلکہ سیاحت کو ایک باقاعدہ ایمرجنسی کے طور پر لے اور متعلقہ اقدامات بھی کرے۔

ملک کو اب یک ایسی نئی سیاحتی پالیسی کی ضرورت ہے، جو، ان تما م عوامل اور عناصر کا احاطہ کرے جن پر عمل کرتے ہوئے سیاحت کے لئے مشہور ممالک نے سیاحت کو اپنی معیشیت کا اہم حصہ بنا لیا، اور دنیا کے قابل اعتبا ر ادارے انھی عوامل کا جائزہ لے کر کسی ملک کو ایک سیاح دوست ملک کے طور پرتسلیم کرتے اور درجہ بندی کرتیہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم نے سفر اور سیاحت کے مسابقتی موازنہ پر ایک رپورٹ مرتب کی ہے، جس کے مطابق پاکستان کا سیا حت کے لئے سہولتوں کی فراہمی اور معیارسیاحت میں درجہ 124 ہے جبکہ اس رپورٹ میں 136 ممالک کا موازنہ ہے۔ جن عناصر کو سامنے رکھ کر یہ رپورٹ مرتب ہوئی ہے ان عناصر میں، قدرتی ذرائع جیسے پہاڑ، عالمی ورثہ میں شامل عمارات، مقامات اور سرسبز قدرتی علاقے، فطرتی مناظر، موزوں کاروباری ماحول، امن اور سیکورٹی کے حالات، صحت عامہ کی سہولتیں، ہیومن ریسورس کی موجودگی، ٹریننگ اور خواندگی، انفارمیشن ٹیکنالوجی بشمول انٹرنیٹ کی سہولتیں، حکومتی سطح پر سیاحت کی ترجیح اور بنیادی انفراسٹرکچر کی فراہمی، ویزہ کی با آسانی دستیابی اور باہمی عالمی معاہدے، کھیلوں کے سٹیڈیم، بین الاقوامی تنظیموں کے ملک میں اجلاس و دفاتر، عام اشیائے خوردونوش اور دیگر( ہوائی جہازاور ریلوے کی ٹکٹ وغیرہ ) کی سستے داموں فراہمی، ماحولیاتی صفائی اور اس کی حفاظت کے اقدامات، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں، سڑکوں کا عالمی معیار کے مطابق ہونا، سیاحوں کے لئے ہوٹل، اے ٹی ایم مشین، زمینی سفری ذرائع کا ہونا، شامل ہیں۔ اور اگر غور کیا جائے تو انھی عناصر کو بہتر بنا کر ملک کی سیاحت کو بازوئے معیشت بنا یا جاسکتا ہے اور غیر ملکی امداد و قرضوں پر انحصار کم ہو سکتا ہے۔

سیاحت جہاں کسی بھی ملک کی بلاواسطہ آمدنی کا باعث بنتی ہے، بلکہ اس سے جڑی دوسری صنعتییں بھی نمو پاتی ہیں اور لوگوں کے لئے روزگارکا بندوبست علیحدہ ہوتا ہے۔ سیاحت سے حاصل ہونیوالی آمدن اس ملک کو کئی احسن اقدامات کرنے کے لئے بھی مجبور کرتیہے، جن کو ذہن میں رکھتے ہوئے کو ئی سیاح کسی ملک میں جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ریاست کو اپنی ثقافت کومحفوظ کرنے کی فکررہتی ہے کہ سیاح کسی ملک کے فن تعمیر، کھانے، رواج، فنون لطیفہ اور لباس میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ چونکہ ایک صاف ستھرا ملک سیاح کے لئے دلکشی کا باعث ہوتا ہے لہذہ، ریاست ماحولیاتی آلودگی سے پاک رہنے کے لئے کئی جتن کرتی ہے۔ چونکہ ماضی میں حکومت کی ایسی کوئی نیت نہ تھی سو ملک میں موجود لاتعداد سیاحتی مقام گندگی سے اٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک پائیدار امن والا معاشرہ سیاح کو بے فکری فراہم کرتا ہے چنانچہ ملکی سطح پر سیکورٹی ایک ترجیح بن کر سامنے آتی ہے جس میں نہ صرف یہ کہ اس ملک کے اپنے شہری امن وآشتی سے رہتے ہیں بلکہ غیر ملکی سیاح بھی ایسے ملک کو امن پسند سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی طرح ذرائع نقل و حمل کی تعمیرو مرمت حکومتوں کی ترجیح میں شامل ہوتی ہے کہ سیاحوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مشکل نہ ہو۔ سرکاری اداروں میں، بالخصوص وہ جو سیاحت سے منسلک ہیں ان کے ویزہ فراہم کرنے کے طریقوں کو سادہ اور سہل بنایا جاتا ہے۔ نئی حکومت بادی انظر میں سیاحت کی اہمیت سے آشنا نظر آتی ہے جس کا ثبوت تحریک انصاف کا خیبر پختونخواہ میں سیاحت کی پالیسی بنانا اور اس پر عملدرآمد کرانے سے ملتا ہے۔ مگر جب تک اس موضوع کو وفاقی سطح پر اہمیت دے کر ایک قومی سیاحتی پالیسی مرتب نہیں ہوتی اس وقت تک، اس شعبے کیبہتری کی امید قائم نہیں کی جاسکتی۔ مزید یہ کہ اگر کو ئی پالیسی بنا بھی لی جائے اور اس میں سیاحت کے لئے تسلیم شدہ اور اہم عناصرکی بتندریج بہتری کے لئے کو ئی لائحہ عمل مرتب نہیں ہوتا اور بات زبانی جمع خرچ تک رہتی ہے تو سیاحت سے، پاکستان جیسے ملک کی، قومی آمدنی بڑھانے کا منصوبہ محض دیوانے کا خواب ہی رہ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).