صحافی بھی ہوئے غدار…


صحافت کے لئے ضیا الحق کے بعد گزشتہ پانچ سال بد ترین دور تھا اور اس میں، صحافت پر نت نئے انہونے طریقوں سے حملے کے گئے۔ کچھ حملے اندر سے یعنی صحافی نما کالی بھیڑوں سے جو ہر میڈیا ہاؤس میں پائی جاتی ہیں کی طرف سے کیے گیے۔ جبکہ کچھ قانون کے رکھوالوں سے یا وہ جو ہر قسم کے قوانین سے بالاتر ہوتے ہیں انہوں نے خود مختلف طریقوں سے حملے کیے۔

حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ  نے، جو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی سماعت کر رہا تھا، ڈان اخبار کے اسسٹنٹ ایڈیٹر سیرل المائیڈہ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم عدالت نے تین بار نوٹس جاری ہونے کے باوجود عدالت میں سیرل المائڈہ کے عدلت میں پیش نہ ہونے پر جاری کیا۔ میرے خیال میں اگر انکا بیان اگر وکیل کے ذریعے جمع ہو چکا تو اسے ہی کافی جانا چاہیے تھا۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف کی گئی ہے، جب کہ گرفتاری کے وارنٹ ایک صحافی یا اخباری رپورٹر جو صرف ایک پیغام رساں کا کام کرتا ہے (اپنے دفتر کے لیے) جو اپنے ذریعوں سے معلومات حاصل کر کے یا پھر انٹرویو کر کے اپنے اخبار کا پیٹ بھرتا ہے جو اسکے فرائض میں شامل ہے۔ رپورٹر کا کام صرف اپنی رپورٹ ایڈیٹر کو دینا ہوتی ہے، ایڈیٹر جب اس کو قابل اشاعت سمجھتا ہے تو خبر شایع ہو جاتی ہے ورنہ نہیں۔

اطلاعات کے مطابق یہی کام سیرل المائڈہ نے بھی کیا۔ پہلی بار جب دو ہزار سولہ میں ایک میٹنگ کی تفصیلات انہیں ملیں وہ خبر بنا کر ڈان اخبار میں چھپیں۔ آج ڈان لیکس کے نام سے جانی جاتی ہے اور خبر کی اشاعت کے بعد جو کچھ ہوا دنیا بھر میں اس پر بحث ہوئی، بحث ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ یہ خبر بہت سے تحقیقی مقالوں کا حصہ بھی بنے گی کیوں اس کی وجہ سے میڈیا نے بدترین دور دیکھا اور اخبارات، ٹی وی چینلز پر سینسر شپ لگی، بلکہ پاکستان کا میڈیا دو حصوں میں بٹ گیا، ایک ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ، تو دوسرا نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہو گیا، ان میں ہمارے وہ سینیر صحافی بھی شامل ہیں جنہوں نے ہمیشہ ضیاءالحق کے دور کو بعد ترین دور کہا، ان میں وہ دوست بھی شامل ہیں جنہوں نے ضیا دور میں سختیاں برداشت کیں، ہمارے وہ دوست بھی شامل ہیں جنہوں نے کراچی یونیورسٹی میں جب ضیاءالحق کا دور تھا تو بھٹو کا نام لینا جرم قرار پایا تھا، پر انہوں نے وہاں ضیا کے خلاف جدوجہد کی، ماریں کھائیں، مارشل لا کے تحت مقدمے بھگتے، آج وہ آزادی صحافت کے لئے نواز شریف کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔

پھر اس سال مئی کے مہینے میں سیرل المائڈہ نے نواز شریف کا ایک انٹرویو کیا جس میں نواز شریف نے کہا کہ ” نظام حکومت، دو یا تین متوازی حکومتوں کے ساتھ نہیں چلایا جا سکتا” ان کا اشارہ جس طرف تھا وہ سب سمجھتے ہیں، گو کہ وہ خود انہیں قوتوں کے کندھوں پر بیٹھ کر کئی بار اقتدار تک پہنچے۔

سیرل سے میری ایک بار ملاقات ہوئی، جس میں ، میں نے انہیں بااصول اور قاعدے قانون کا پابند شخص پایا۔ میں جب دو ہزار چودہ میں پی ٹی وی کے انگریزی چینل کے معاملات دیکھ رہا تھا تو ہمیں انگریزی پرگراموں کے لئے تجزیہ نگاروں کی شدید کمی کا سامنہ کرنا پڑتا تھا، عائشہ صدیقہ کے گھر ایک تقریب میں انہیں ٹی وی شو میں کبھی کبھی تجزیہ نگار کے طور پر آنے کی دعوت دی تو انھوں نے کہا کہ ہم پرنٹ میڈیم کے لوگ ہیں، بس وہیں لکھنا لکھانا مناسب سمجھتے ہیں۔

سیرل المائڈہ کا تعلق گوا سے کراچی آکر بس جانے والے ایک کرسچن خاندان سے ہے، جو کہ انتہائی امن پسند اور انتہائی پڑھی لکھی کمیوننٹی سمجھی جاتی ہے۔ انکی سب سے بڑی تعداد کراچی صدر میں لکی اسٹار کے ارد گرد رہتی ہے۔ انکی خواتین بڑی بڑی غیرملکی کارپوریشن اور دفاتر کے انتظامات کو احسن طریقے سے چلانے میں ماہر سمجھی جاتی ہیں۔

معاملہ صرف سیرل المائڈہ پر ختم نہیں ہوا، بہت سے کالم نویسوں کے کالم نہ چھپ سکے، بہت سوں کی خبریں چھپنے سے روک دی گیں، بہت کو نوکری سے فارغ کیا گیا، اور بہت سے فارغ ہونے والے ہیں. یہ صرف ان کی کارستانی نہیں بلکہ نواز حکومت نے بھی اپنے خلاف لکھنے والی صحافیوں کو پریشر میں رکھا اور نوکریوں سے نکلوایا۔

نئی حکومت جو تبدیلی کا نعرہ لیکر آئی  ہے اور اس کا بظاہر تمام تر فوکس کرپشن اور کرپٹ عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا لگ رہا ہے، ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ جن ممالک میں میڈیا اور آزادی اظہار رائے کو یقینی بنایا جاتا ہے، وہاں کرپشن کم ہوتی ہے، کیوں کہ سرکاری مشینری کو میڈیا سے خوف رہتا ہے اور میڈیا واچ ڈاگ کے طور پر کام کر رہا ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو بھی سمجھنا ہوگا کہ میڈیا کو کنٹرول کر کے وہ ملک کی بہتری کے بجانے ملک کے مسائل کو مزید گمبھیر کریں گے۔

میڈیا ہاوسز کو بھی اپنا رویہ درست کرنا ہوگا۔ انہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے اپنے اندر سے کالی بھیڑوں اور کرپٹ عناصر، جو کرتا دھرتاؤں کے قریب ہو کر ذاتی مفاد حاصل کرتے ہیں، جبکہ انہیں ان عناصر سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا جو فضا سے پیرا شوٹ کے ذریعہ صحافت کے شعبہ میں گرا دیے گئے اور صحافت کو بدنام کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).