کراچی کے تعلیمی ادارے اتنی بدتر حالت میں کیوں ہیں؟


شہر کراچی کے ڈسٹرکٹ ویسٹ کے سرکاری تعلیمی ادارے فنڈ کی کمی کے باعث بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ کچھ تعلیمی ادارے بند تو کچھ میں اساتذہ ہی موجود نہیں۔ پینے کو صاف پانی میسر نہیں۔ کلاسز میں دیمک نے چوکھٹ، دروازے، کھڑکیاں، ڈیکس ٹیبل تقریباً تمام ہی لکڑی کی بنی ہوئی چیزوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ دیمک لگنے کی وجہ سے کلاسز میں ڈیکسز، کرسیاں اور ڈائس سب ہی خستہ حال ہیں۔ پانی کے حصول میں کالج کو شدید مشکلات درپیش ہیں۔ تعلیمی اداروں کا سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ کا نہ ہونا ہے۔ عرصہ دراز سے آرٹس فیکلٹی میں ٹیچرز کی شدید قلت ہے۔ جس کے باعث اس شعبے میں داخلہ لینے والے طلبہ کئی مضامین کی تعلیم سے محروم ہیں۔

اس کے علاوہ لازمی مضامین (کمپلسری سبجیکٹ) کے بھی اساتذہ دس سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود تعینات نہیں کیے گئے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کہ ہمیں فنڈ کی کمی ہے۔ جس کے باعث اساتذہ کو ہم کانٹریکٹ بیس پر ہائر نہیں کرسکتے۔ جبکہ حکومت کی جانب سے بھی پابندی لگادی گئی ہے۔

حکومت نے سرکاری کالجز میں یہ حکم دیا ہے کہ طلبہ کی جتنی زیادہ تعداد ہو گی اتنے ہم آپ کو فنڈز دیں گے۔ (swf) کے تحت گورنمنٹ فی بچہ انتظامیہ کو آرٹس میں داخلہ لینے والے فی طالب 850 روپے اور سائنس میں داخلہ لینے والے فی کس 750 دے رہی ہے۔ فنڈ اتنا کم ہے کہ جس سے کالج کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں۔

اسکول و کالج کو جاری کیے جانے والے فنڈ میں پانی، صفائی، غیر نصابی سرگرمیاں، لیب کا سامان، کالج کی تزین و آرائش، پانی، ڈیکس، ڈائس، بجلی، گیس وغیرہ مختلف کام سرانجام دینے کے لیے جو فنڈ جاری کیا جاتا ہے۔ وہ انتہائی کم ہے۔ گرلز اسکول و کالجز میں نائب قاصد اور دیگر آفس اسٹاف کے لیے خواتین کی تعیناتی سرے سے ہی نہیں۔

گزشتہ سال اس کالج میں داخلہ لینے والی طالبات کی تعداد پانچ سو قریب تھی۔ اس سال تقریباً چار سو سے زائد طلبہ نے داخلے کے لیے درخواستیں جمع کی ہیں۔ مزید داخلے جاری ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ڈسٹرکٹ ویسٹ کے کسی سرکاری تعلیمی ادارے کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ جس کی وجہ سے طالبات گھر سے پانی لانے پر مجبور ہیں۔ پورے ڈسٹرکٹ ویسٹ کے کسی کالج میں بھی انگلش کے استاد کی تقرری نہیں کی گئی جس کے باعث طلبہ اس مضمون کی تعلیم سے محروم ہیں۔

کالجز واسکولوں کے میں اطراف میں لگی ہوئی باونڈری وال کی دیواریں اتنی چھوٹی ہیں کہ کوئی بھی غیر متعلقہ شخص اس دیوار کو پھلانگ کر اندر آسکتا ہے۔ جو کہ تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی پر سوالیہ نشان ہے۔ جس کے باعث چوری کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

کالج و اسکول پرنسپل و بشمول انتظامیہ متعلقہ اداروں کو درخواستیں لکھ لکھ کر تھک چکی مگر ان کے مسائل دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ مسائل حل کرنے میں متعلقہ شعبہ جات ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

دیمک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعلقہ ادارے (verse) کو بھی درخواستیں لکھی گئی ہیں۔ مگر تاحال یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ بیشتر تعلیمی اداروں کے چوکیدار کو اتنی دور تعینات کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے فرائض سر انجام نہیں دیتے۔ ایسے میں رات گئے سرکاری تعلیمی اداروں میں ڈکیتی کی واردات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔

میری متعلقہ حکام سے اور وزیر تعلیم سندھ سے گزارش ہے کہ تعلیمی اداروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مضبوط و مربوط لائحہ عمل طے کیا جائے۔ تاکہ یہ مسائل حل ہوسکے ورنہ ہمارا تعلیمی نظام بد سے بدتر ہوتا چلا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).