قندیل بلوچ، ملا اور غیرت۔۔۔


کل سے کئی بار لکھنے کی کوشش کی چند لفظ لکھے مٹا دیے ایسا کئی بار ہوا۔

کیوں!
اس لئے کہ ہمت ہی نہیں ہو پارہی تھی کہ کچھ لکھوں اور لکھوں بھی تو کیا لکھوں۔ کیسے لفظ استعمال کروں اس لڑکی کے قابل کوئی لفظ لگا ہی نہیں۔ قندیل کا قتل اور قندیل کے ساتھ ہونے والا سلوک ہمارے سماج کا عورت کے ساتھ کیا جانے والا سلوک ہے۔

ہر عورت آئینے میں خود کو قندیل کے چہرے کے ساتھ محسوس کرے اور پھر بتائے کہ وہ کیا محسوس کرتی ہے۔ کیا بغاوت اس کے اندر جنم نہیں لیتی۔ اور کیوں نہ لے جب گھر میں فاقے ہوں، بوڑھے ماں باپ دوائی سے بیٹھے ہوں بہن بھائی چھوٹے ہوں یا بچے دودھ کے لئے روتے ہوں۔ لیکن باہر نکلتے ہی آپ کا واسطہ مختلف طرح کے درندوں سے پڑ جائے۔

فرق بس یہ ہو کہ کوئی بڑا درندہ ہے اور کوئی چھوٹا۔ کوئی ظاہر ہو گیا تو کسی نے چھپ کے وار کیا۔ تو پھر ہر فوزیہ ہر صائمہ یا ہر نوشی، قندیل بلوچ بننے کا تیار ہو جائے گی۔ اسے یہ نظر نہیں آئے گا کہ اس کےکیے ہوئے کسی کام سے اسے گناہ مل رہا ہے کہ ثواب۔ مگر پیٹ کی آگ بجھ جاتی ہے تو کیونکر کوئی اس بارے سوچے۔ ویسے بھی بھوک عقیدہ نہیں روٹی مانگتی ہے۔

اس بہن، ماں یا بیٹی کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ جن کی بھوک مٹانے کو وہ اپنا خون جلا رہی ہے۔ وہ اسی کی کمائی کھا کے ایک دن غیرت مند بن کے اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ اور غیرت کی بھی خوب کہی، گوشت کی بوٹیاں توڑتے، عید شبرات پہ نئے کپڑے پہنتے، کہیں گھومنے پھرنے جاتے یا جیب خرچ وصولتے تو غیرت مارفین کے ٹیکے لگا کے سو جاتی ہے۔ مگر ہاں یہ تب جاگتی ہے جب وہ معاشرہ جس نے بھوکے پیٹ کبھی آپ کو پوچھا تک نہیں آپ کو روٹی کھاتے دیکھ کے آپ پہ چڑھ دوڑتا ہے۔

روٹی کا ذریعہ آمدن پوچھنے پہ کمر کس لی جاتی ہے۔ چونکہ کمانے والی لڑکی ہے تو لٹھ لے کر اس کے پیچھے چڑھ دوڑو۔ ایک چہرہ ملاء کا بھی ہے۔ جو فتوے دینے کے لئے تو شیر ہے مگر کسی غریب کے لئے اس کے پاس کوئی گنجائش نہیں۔ کیونکہ اسے غریب اللہ نے پیدا کیا ہے تو اس میں بے چارے مولوی کا کیا قصور۔ ہاں مگر مسجد کے غلے کا بھرا رہنا ضروری ہے۔ چندہ اللہ کے لئے مگر پیٹ ملاء کا بھرتا ہے۔

ایسے ملاوں کا عبرتناک چہرہ دکھانے کا قصور قندیل کی جان لے گیا۔ ایسی نام نہاد غیرت، گھٹیا سماج اور دوغلے ملاوں کے فتووں کو ان کی چالوں کو اور عزت کے ٹھیکیداروں کو میں نہیں مانتی۔ قندیل میں شرمندہ ہوں۔ ہر وہ شخص شرمندہ ہونا چاہئیے۔ جس میں رتی بھر بھی احساس باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).