اندھیری دنیا کو روشن کرنے والی باہمت بلائنڈ خواتین کرکٹرز


پاکستان میں مردوں کے بعد اب خواتین کی انٹرنیشنل بلائنڈ کرکٹ کا بھی باقاعدہ آغاز ہونے والا ہے اور آئندہ سال 26 جنوری سے چار فروری تک نیپال کی خواتین بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے خلاف سیریز کی میزبانی کرے گی۔

پاکستان دنیا کا چوتھا ملک ہے جہاں خواتین کی بلائنڈ کرکٹ منظم انداز میں کھیلی جارہی ہے۔ دیگر تین ممالک انگلینڈ، ویسٹ انڈیز اور نیپال ہیں۔

پاکستان میں خواتین کی بلائنڈ کرکٹ شروع کرنے کا سہرا اس کے روح رواں پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کے چیئرمین سید سلطان شاہ کے سر جاتا ہے جو مردوں کی بلائنڈ کرکٹ کو بھی بڑے منظم انداز میں چلارہے ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان مردوں کی بلائنڈ کرکٹ ٹیم پانچوں بلائنڈ ورلڈ کپ کے فائنل کھیل چکی ہے جن میں سے دو بار وہ عالمی چیمپیئن بنی جبکہ اب تک کھیلے گئے دو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں وہ رنر اپ رہی ہے۔

سید سلطان شاہ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بلائنڈ ویمنز کرکٹ کا خیال انہیں 1986 میں اس وقت آیا تھا جب وہ کراچی کے آئیڈاریو سکول فار دی بلائنڈ میں زیرتعلیم تھے۔

’سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن تھے اور میں نے لڑکیوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اعلان کیا کہ اگر مجھے ووٹ دیں گی تو میں لڑکیوں کی ٹیم بناؤں گا۔ میں جیت گیا اور وہاں میں نے چھوٹے پیمانے پر ٹیم شروع کی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہماری تمام تر توجہ مردوں کی بلائنڈ کرکٹ پر مرکوز ہوگئی۔ تاہم میرے دل میں یہ بات ہر وقت رہی کہ جس طرح مرد بلائنڈ کرکٹرز کو کھیلنے کے مواقع موجود ہیں اور اس کرکٹ نے ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا تو اسی طرح خواتین بلائنڈ کرکٹرز کو بھی ان کی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع ملنے چاہئیں۔‘

سید سلطان شاہ کہتے ہیں کہ بلائنڈ خواتین کھلاڑیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا آسان نہ تھا۔

’ہمارے معاشرے میں والدین عام لڑکیوں کو بھی کھیلوں کے لیے گھر سے باہر بھیجنے پر آسانی سے اجازت نہیں دیتے اور انہیں کئی طرح کے تحفظات رہتے ہیں۔ ایسے میں بلائنڈ لڑکیوں کے والدین سے مل کر ان کے تحفظات دور کیے گئے اور انہیں صاف ستھرا اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت زیادہ مثبت رد عمل سامنے آیا اور بڑی تعداد میں بچیوں نے ہم سے رابطہ کیا۔‘

سید سلطان شاہ کا کہنا ہے کہ کرکٹ کھیلنے والی بلائنڈ کرکٹرز کسی ایک شہر سے نہیں بلکہ پورے ملک سے تعلق رکھتی ہیں۔

’کراچی سے اٹک تک تقریباً 150 لڑکیوں نے رجسٹریشن کرائی۔ اس سلسلے میں 65 لڑکیاں منتخب کی گئیں۔ ٹریننگ کا پہلا مرحلہ ایبٹ آباد میں ہوا جس میں 35 لڑکیاں شریک تھیں۔ دوسرا مرحلہ لاہور میں ہوا جس میں 30 لڑکیوں نے حصہ لیا اور ان میں سے 25 لڑکیوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان میں سے 15 رکنی ٹیم منتخب کی جائے گی جو نیپال کے خلاف کھیلے گی۔‘

سید سلطان شاہ کا کہنا ہے کہ انہیں کئی لڑکیاں بہت زیادہ باصلاحیت نظر آئی ہیں جنہوں نے اپنے ٹیلنٹ سے بہت متاثر کیا ہے۔ زیادہ تر بچیاں طالبات ہیں۔ کچھ ایسی بچیاں بھی ہیں جو متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن انہیں کرکٹ کا شوق ہے۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ بلائنڈ خواتین کو کرکٹ کا شوق کیسے ہوا ہے تو سید سلطان شاہ نے کہا ’نابینا افراد کا سب سے من پسند شوق ریڈیو سننا ہوتا ہے چونکہ کرکٹ ہمارے ملک میں بہت مقبول ہیں لہٰذا وہ بہت شوق سے کرکٹ کمنٹری سنتے ہیں۔ بلائنڈ خواتین کو بھی کرکٹ کمنٹری سن کر اس کھیل کا شوق ہوا ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ زیرو سے شروع کیا ہے کیونکہ ان لڑکیوں نے پہلے کبھی کرکٹ نہیں کھیلی تھی۔‘

سید سلطان شاہ چار سال تک ورلڈ بلائنڈ کرکٹ کونسل کے صدر رہ چکے ہیں۔ اس حوالے سے وہ بلائنڈ کرکٹ کو دنیا بھر میں متحرک رکھنے میں کافی کام کرچکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ مردوں کی طرح اب خواتین بلائنڈ کرکٹ کو بھی دنیا بھر میں فروغ دیا جائے۔ وہ نیپال کے خلاف سیریز کے بعد انگلینڈ کی خواتین بلائنڈ ٹیم کے ساتھ سیریز کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

سید سلطان شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے سالانہ ایک کروڑ 56 لاکھ روپے گرانٹ ملتی ہے لیکن چونکہ اخراجات زیادہ ہیں لہٰذا یہ دیگر سپانسرشپ سے پورا کیا جاتا ہے۔

خواتین بلائنڈ کرکٹ کی ٹریننگ کے دوسرے مرحلے کو آسٹریلوی حکومت کی مالی سرپرستی حاصل رہی۔ لاہور میں ہونے والے ٹریننگ کے مرحلے کے اختتام پر کھیلے گئے نمائشی میچ کے موقع پر پاکستان میں آسٹریلوی ہائی کمشنر مارگریٹ ایڈمسن بھی بلائنڈ کرکٹرز کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp