اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے


بادشاہ سلامت نے ایک نئی شاہراہ تعمیر کروائی جس کے اردگرد سایۂ دار درختوں کی قطاریں لگوائیں۔ کچھ فاصلہ پر کنویں کھدوائے اور پانی کا انتظام بھی کیا۔ مسافروں کے لیے سرائیں بھی تعمیر ہوئیں جہاں سوار اور سواری دم لے سکے۔ بادشاہ سلامت نے اس شاہراہ کے افتتاح کے لئے ایک دوڑ یا چہل قدمی کا اعلان کیا اور کہا کہ اس دوڑ میں تمام شہری حصہ لیں اور اِس کے اختتام پر شاہراہ کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کریں۔ جس کا نقطۂ نظر بادشاہ کو پسند آئے گا اُسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔

سب نے بڑے جوش و خروش سے دوڑ میں حصہ لیا۔ مرد و زن، بچے بوڑھے غرض ہر عمر رنگ نسل کے لوگ نئی شاہراہ کے افتتاح میں شریک ہوئے اور انعام کے منتظر بھی۔ شاہراہ کے دوسرے سِرے پر بادشاہ دوڑ کے شرکاء کے تاثرات پُوچھتا رہا۔ کسی نے شاہراہ کی تھوڑی کسی نے زیادہ تعریف کی۔ انعام کے لالچ میں کسی نے شاہراہ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ کم و بیش اک بات سب نے ہی کی کہ شاہراہ پر ایک جگہ کوڑا کرکٹ کا ڈھیر پڑا ہے جو بڑا بدا دکھائی دیتا ہے۔ کسی نے صفائی ستھرائی کرنے والوں کو سخت سست کہا کہ حضور کی اتنی محنت سے بنوائی ہوئی شاہراہ کی صفائی کا مناسب انتظام نہیں۔

کسی نے سڑک بنانے والوں مزدوروں کو بے نقط سنائیں کہ جاتے ہوئے کوڑے کا ڈھیر لگا گئے۔ کچھ نے لب کشائی کی اگر کوڑے کے ڈھیر کو اٹھوایا جائے تو راہ چلنے والوں کے لیے آسانی ہو۔ کسی نے کہا جہاں پناہ نے شاہراہ تو بہت خوب بنوائی ہے لیکن اس پہ خاکروب نہیں ہیں۔ کچھ نے عرض کیا شاہراہ کے کچھ فاصلے پر چند کوڑے دان رکھنا مناسب ہوگا۔ شام ہونے کو آئی سب لوگ اپنی اپنی بولی بول کر چل دیے تو بادشاہ سلامت بھی اٹھنے لگا۔ ایک داروغہ نے خبر دی کہ دوڑ میں حصہ لینے والوں میں سے ایک بوڑھا شخص جو شاہراہ میں صبح سویرے داخل ہوا تھا ابھی آنا باقی ہے۔

بادشاہ متفکر ہوا جانے اب تک وہ شخص کیوں نہیں آیا پیشتر اس کے بادشاہ کوئی حکم صادر کرتا ڈھلی عمر کا ایک شخص دھُول میں لت پت تھکا ہارا ہاتھ میں ایک تھیلا پکڑے حاضر ہوا اور ہانپتے کانپتے ہوئے بادشاہ سلامت سے عرض کرنے لگا۔ جہاں پناہ! میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو انتظار کرنا پڑا دراصل راستے میں کچھ کوڑا کرکٹ پڑا تھا میں نے سوچا اِس کی وجہ سے گزرنے والے لوگوں کو تکلیف ہوگی لہٰذا اُسے ہٹانے میں کافی وقت لگ گیا۔ لیکن حضور! کوڑے کے نیچے سے یہ تھیلا ملا ہے اس میں شاید کچھ سکّے ہیں۔ ہو سکتا ہے سڑک بنانے والے مزدوروں میں سے کسی کے ہوں انہیں دے دیجئے گا۔ وہ شخص اپنی بات ختم کر کے چلنے لگا تو بادشاہ نے کہا بڑے میاں! یہ تھیلا اب آپ کا ہے کیونکہ یہ میں نے ہی وہاں رکھوایا تھا اور یہ آپ کا انعام ہے۔ پھر بادشاہ دوسرے حاضرین کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے بولا بہترین شخص وہ ہوتا ہےجو گلے شکوے کرنے کی بجائے اپنے عمل سے کچھ کر کے دکھائے۔

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

چند سالوں بعد بادشاہ سلامت کو اک نئی شاہراہ تعمیر کرنے کا شوق چرایا۔ یہ شاہراہ پہلے سے بھی بڑھ کر بنائی گئی۔ سایہ دار درختوں کی قطاریں، سرائیں اور شاہراہ کے اختتام پہ بنائے گئے بازار، اس شاہراہ کے حسن کو دوبالا کرتے۔ شاہراہ کی تعمیر مکمل ہوئی تو بادشاہ سلامت کی طرف سے شاہی ضیافت کا اہتمام کیا گیا ساتھ میں شاہراہ کے افتتاح کا نقارہ بج گیا۔ پھر سے عوام و خواص انعام و کرام کے منتظر جوق در جوق رسم افتتاح میں شریک۔ لیکن اس دفعہ عوام نے دیکھا شاہراہ پہ کچھ جگہوں پر کوڑے، ریت، مٹی، خشک پتے اور پتھروں کے ڈھیر پڑے ہیں۔ عوام نے انعام کے لالچ میں صبح سے لے کر شام تک شاہراہ کا ہر کونا کھدرا صاف کرکے رکھ دیا کہ شاید کسی جگہ گوہر مقصود حاصل ہو۔

مجنوں صفتم دربدرو خانہ بہ خانہ۔ لیکن کہیں کوئی سکہ درہم، دھیلا ملنا تھا نہ ملا۔ وہ لوگ بھی صفائی کرنے میں لگے ہوئے جنہوں نے کبھی تنکا تک نہیں توڑا۔ شام ڈھلے سبھی سرکار دربار میں حاضر ہوئے اور سب نے جہاں پناہ کے حسن کی داد دی ساتھ ساتھ اپنی صفائی بھی پیش کی اور شاہراہ کو صاف کرنے کا حال احوال بھی سنایا۔ سب نگاہیں منتظر دیکھیے حضور کی نظر انتخاب کس کو انعام و اکرام سے نوازتی ہے۔ اک دوسرے سے پوچھا کیے کسی کو کچھ حاصل ہوا۔ لیکن سبھی اس حمام میں اک جیسے تھے بادشاہ سلامت نے سب شرکاء کو محفل کے اختتام پر سخت سست سنا کر محفل برخاست کردی۔
المختصر جو قومیں اپنا فرض نہیں نبھاتی حالات کی ستم ظریفی ان کو مشقت و ذلت اٹھانے پہ مجبور کر دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).