مشکل اردو میں انشا پردازی


ہمیں ایک دوست نے انتہائی صائب مشورہ دیا تھا کہ عوام الناس کے پڑھنے کے لئے لکھ رہے ہو تو عوام الناس کی زبان میں ہی لکھنا، دہائیوں قبل کی اردو زبان کے مشکل اور بھاری بھرکم الفاظ لکھ کر عوام الناس کو گمراہ و بددل کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ آسان اور آج کل کی مروجہ اردو زبان میں ہی مضامین لکھے جائیں تاکہ پڑھنے میں دقت نہ ہو، مگر پھر بھی کبھی کبھار دو چار الفاظ ایسے آ جاتے ہیں جو دوستوں کو قدرے مشکل لگتے ہیں۔

سوشل میڈیا میں مشکل اردو لکھنے کے حوالے سے ایک صاحب مشہور ہیں کہ ان کو پڑھتے ایسا لگتا ہے کہ فارسی و عربی زبانوں کے دقیق الفاظ و تراکیب کے جائز و ناجائز ملاپ سے تخلیق شدہ کوئی تیسری جنس پڑھ رہے ہیں۔ کچھ اور بھی ایسے صاحبان ہیں جو مشکل اردو میں لکھ کر ہماری اردو کی صلاحیتوں کی کم مائیگی کا احساس وقتاً فوقتاً دلاتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے بھی سوچا کہ اپنی مشکل اردو کے تخیل کے بہاؤ کا دھارا زبردستی کی مشکل اردو لکھنے والوں کی فہرست کے نچلے درجوں کی طرف پھیر دیں کہ ہم سے شکم میں شکوہ دبا کر رکھا نہیں جاتا۔

مشکل اردو میں لکھنا اردو ادب کے تہذیبی خزینے کے اس رویے سے متعلق ہے جس میں انشاپردازی کا تخلیقی عمل ادبی جمود کا شکار ہوتا ہے جس کا بظاہر نتیجہ اس مشکل تحریر کی صورت سامنے آتا ہے جس کو پڑھ کر لغت تو ڈھونڈنی پڑتی ہے مگر مقصدیت کہیں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ بھاری بھرکم الفاظ میں لکھی گئی تحریر اس فربہ شخص کی مانند ہے جس کے ڈیل و ڈول کی وجہ سے اسے رسہ کشی میں سب سے آخر میں رسہ باندھ کر کھڑا کر دیا جاتا ہے اور اس کے جسمی پھیلاؤ کو ہی جیت کے لئے آلہ کار سمجھ لیا جاتا ہے جب کہ تحریر کے اسلوب کی انفرادیت، جملوں کی مربوطی اور خیالات کی ندرت جیسی اہم ترین ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

مشکل اردو لکھنے میں مصنف کی اپنی ذکاوت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، اس کا نقطئہ ارتکاز صرف اپنی خود پسندی میں شوخی مارنا ہوتا ہے اور بھان متی نے کنبہ جوڑا کے مصداق اِدھر اُدھر سے الفاظ لے کر اور انہیں جملوں میں پرو کر اپنی خیالی ژرف بیانی کی طرف توجہ کا متمنی ہوتا ہے اسی لئے اس کے جملوں کے اصل معانی و مفاہیم اس کی زبان کی جعلی تعلی کے پیچھے کہیں کھو جاتے ہیں۔

جو لوگ زبان کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں اور اس کی ادبی ماہیت کو سمجھتے ہیں انہیں یقیناً احساس ہوگا کہ آج کل کے چائنا کے ادباء مشکل الفاظ سے اپنی تحریر کو شگفتہ کرنے کی بجائے پھس پھسا کر لیتے ہیں اور وہ نکتہ آفرینی، شوخئ تحریر اور برجستگی جو سادے الفاظ کے استعمال سے آ جاتی ہے وہ اس سے محروم رہ جاتے ہیں جیسے ہماری تہی دامنی سے فرشتے بےوضو پھرتے ہیں۔ مشکل الفاظ کی اس بدہضمی کے شکار خواتین و حضرات کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھے نہیں کھڑے ہوتے بلکہ زنجیروں میں جکڑے قید نظر آتے ہیں کہ جن کے سیاق و سباق میں بیگار پر لائے گئے فقرات بددلی سے چوکیداری کر رہے ہوتے ہیں۔

فصاحت و بلاغت صرف مشکل الفاظ کو اپنے مضمون میں رکھ کر اس کے آگے پیچھے جملے بُننے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو اس لطیف احساس کی آئینہ دار ہے جو پڑھنے والے کو نہ صرف تحریر میں پنہاں رموز تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہے بلکہ ظاہری طور پر بھی زباں کی روانی اور موزونیت کا حظ اٹھواتی ہے۔ ایسے حضرات صرف مشکل الفاظ کے استعمال کو ہی فصاحت کی دلیل سمجھتے ہیں مگر وہ اس حقیقت سے صرف نظر کر دیتے ہیں کہ صحنِ چمن میں بھینسا باندھ دینے سے بھینسے کی افادیت پر تو سوال نہیں اٹھتا مگر چمن کی رعنائی ضرور ماند پڑ جاتی ہے۔

ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ چھوٹے بچے بہت بھاری بھرکم سکول بیگ کندھوں پر لادے سکول جا رہے ہوتے ہیں، یہی حال ان مضامین کا ہے جہاں سیدھے سادے فقرات میں اچانک وزنی فارسی اور عربی کے الفاظ اور تراکیب در آتی ہیں اور پڑھنے والا معصوم بچوں کی طرح نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے طور پر اس بوجھ کو کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے۔ دقیق الفاظ کے استعمال سے اس بات کا تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کا رٹا خوب ہے اور انہوں نے جو پڑھا ہے اس میں سے مشکل الفاظ ازبر کر لئے ہیں تاکہ سند رہیں اور بوقتِ ضرورت کام آئیں مگر قاری الفاظ کے اس گورکھ دھندے سے بدمزہ ہو جاتا ہے جیسے جوان و خوبصورت بیوہ اپنے ارد گرد منڈلانے والے مرحوم شوہر کے ‘سگِ’ دوستوں سے پریشان ہو جاتی ہے۔

ہمارا ماننا تو یہ ہے کہ اردو عبارت میں لطف و انبساط کے حسین پہلو بھاری بھرکم الفاظ سے نہیں بلکہ اسلوب کی سادگی اور لکھنے والے کے اخلاص سے ہیں۔ آزاد کی طرح اردو میں عربی و فارسی لکھنے سے بہتر ہے کہ روزمرہ کی اردو میں شگفتہ نگاری کی جائے کہ قارئین کا بھی یہی تقاضا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).