الحمرا کے افسانے


الطاف فاطمہ

دوڑا ہوا والدہ کے پاس پہنچا کہ اس کی بولی میرے نام چھڑوائی جائے۔ مشکل یہ تھی والد صاحب (پرانا سامان خریدنے کا شوق رکھنے کے باوجود) ایسا سامان کبھی نہیں خریدتے تھے، جو ان کے کسی عزیزیا واقف کارکومجبوراً فروخت کرنا پڑ جاتا ہو۔ میری خود ان سے کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔ والدہ کو وکیل بنایا۔ انھوں نے وکالت کا حق ادا کر دیا لیکن مقدمہ نہ جیت سکیں۔ ایک دیوار پر بیٹھ کرمیں نے نیلامی کا منظر دیکھا۔ الماری کی باری آئی اور بالاآخر چار روپے ایک، چار روپے دو، چار روپے تین، بلکہ، چار روپے (کھٹ) تین کی آوازسنتے ہی میں نے خود کودیوارسے نیچے گرا دیا (یہ گویا خودکشی فرمائی تھی۔)

نیرمسعود کوعمارتوں کے محراب سے خاص دل چسپی ہے، جس کے بارے میں بتاتے ہیں ”محراب سے گویا مجھ کو کچھ ذاتی طور پرعجیب سی کیفیت ہے کہ مجھ کو بڑی خیال انگیزمعلوم ہوتی ہے۔ علامت میں اس کو نہیں کہوں گا کیونکہ علامت ولامت نہیں ہے وہ کسی چیز کی، لیکن اس میں ایک بڑی کیفیت ہے۔ ہرمحراب میں کئی داستانیں پوشیدہ ہیں۔ کچھ اس کا سبب غالباً یہ بھی ہے کہ واشنگٹن ارونگ کے الحمرا والے افسانے مجھ کو بہت پسند تھے اوراس میں محراب کا ذکر بار بار آتا ہے۔ یوں بھی محراب کی یہ صفت بھی ہے کہ پوری عمارت مٹ جائے گی، محراب اپنی ساخت کی وجہ سے باقی رہ جاتی ہے۔ “

الطاف فاطمہ نے بھی بچپن میں دارالاشاعت پنجاب کی کتابوں کوخوب پڑھا۔ ان سے ایک ملاقات میں ہم نے ”الحمرا کے افسانے“ کا ذکر کیا تو بتایا کہ یہ کتاب انھوں نے غلام عباس کے ترجمے کی صورت میں نہیں بلکہ براہ راست انگریزی میں پڑھی۔ وجہ اس کی یہ بنی کہ ان کے ماموں زاد بھائی اور معروف افسانہ نگار رفیق حسین کے بیٹے شاہد حامد جو پاک فوج میں اعلیٰ عہدوں پر رہے، تقسیم سے قبل سینڈھرسٹ پڑھنے گئے تو واپسی پر الطاف فاطمہ کے لیے واشنگٹن ارونگ کی کتاب لائے۔ یہ ان کتابوں میں سے ہے، جس کی یاد ہمیشہ ذہن میں جاگزیں رہی۔ سرزمین اندلس سے محبت عمر بھر ان کے ساتھ رہی۔ مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ ”اندلس میں اجنبی“ پڑھنے کے بعد ان کوخط میں لکھا ”مستنصر میں نے بچپن میں ارونگ کی”Tales of the Alhambra” پڑھیں اور پھر لڑکپن میں قاضی ولی محمد کا سفرنامہ اندلس پڑھا۔ اس وقت سے بہت پہلے میری والدہ نے مسدس حالی کے اشعار کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے والے تمام بند زبانی یاد کرائے تھے۔ اس سب کا یہ اثرتھا کہ میں اپنے بچپن میں بہت بارخواب دیکھتی تھی کہ غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈروں میں بھٹکتی پھرتی ہوں۔۔۔ کچھ اتنا واضح نظر بھی نہیں آتا تھا۔ مگر جیسے روح بھٹک بھٹک کرادھر ہی کوجاتی تھی۔ پھر میں نے طالب علم کی حیثیت مسجد قرطبہ پڑھی۔ استاد کی حیثیت سے پڑھاتی رہی۔ اور بے تابی بڑھی۔ میری روح اب بھی اکثر وادی الکبیر اور غرناطہ کے اطراف میں سرگرداں ہو جاتی ہے۔ “

شاعر اور نقاد جیلانی کامران کو غلام عباس کی نثراس قدر اچھی لگی کہ وہ یہ رائے قائم کرنے پرمجبورہوئے ”الحمرا کے افسانے جس زبان میں لکھے گئے ہیں، وہ بہت حد تک منفرد ہے اور واشنگٹن ارونگ کی زبان سے کئی گنا بہتر ہیں۔ “ جید ادیب شمس الرحمن فاروقی نے بھی اس کتاب کو بچپن میں پڑھا اور پسند کیا۔ گذشتہ برس شائع ہونے والے اپنے ناولٹ ”قبض زماں“ کے پیش لفظ میں ارونگ کا حوالہ آیا تو انھوں نے بتایا کہ ”واشنگٹن ارونگ کا نام میری عمرکے اردو خوانوں کو اس کی کتاب Tales of the Alhambra کی وجہ سے یاد ہو گا۔ غلام عباس نے اس کا ترجمہ”الحمرا کے افسانے“کے نام سے کیا تھا۔ “

ممتاز ادیب محمد سلیم الرحمن بھی اس کتاب کے بچپن میں قاری رہے، انھوں نے اب دوبارہ یہ کتاب پڑھ کر اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کئے۔

الحمرا کے افسانے“نامی کتاب میں نے غالباً 1940ء یا 1941ء میں پڑھی تھی۔ اردومیں اس طرح کے قصے کہانیاں کہاں پڑھنے کو ملتے تھے۔ میں حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ ایسا لگا جیسے الف لیلہ کی کہانیوں کو کسی نے نئے اندازمیں لکھ دیا ہے۔ بوڑھے نجومی اور ابن ہابوس کا قصہ مدتوں یاد رہا۔ لیکن سب سے زیادہ ترس سحرزدہ سپاہی پر آیا جسے ہر سو سال بعد تین دن کے لیے رہائی ملتی تھی اور جو انتظارکرتا تھا کہ کوئی اسے طلسمی قید سے چھٹکارا دلائے۔ اتنا ہی زیادہ غصہ اس پادری پرآیا جس کے ندیدے پن کی وجہ سے سحرزدہ سپاہی آزاد ہوتے ہوتے رہ گیا۔

اس وقت مجھے لگتا تھا کہ دنیا کا سب سے اچھا مصنف یہی ہے جس نے ”الحمرا کے افسانے“لکھے ہیں۔ اب 75 برس بعد اس کتاب کو دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا تومایوسی نہیں ہوئی۔ ان افسانوں کی کشش آج بھی قائم ہے۔ “ اورآخرمیں چلتے چلتے یہ بتا دیں کہ “Tales of the Alhambra” کا ترجمہ معروف نقاد وقارعظیم نے بھی کیا جو ”قصص الحمرا“ کے نام سے چھپا۔ عمدہ ترجمہ ہے۔ نیرمسعود نے ایک خط میں اس کتاب کے سردارعلی علوی کے قلم سے ہونے والے ترجمے کی بھی تعریف کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments