ایک نڈر صحافی کی دل خراش داستان


دل نے تو کئی بار چاہا کہ یہ داستان لکھوں لیکن موقع ملا اور نہ ہی اس رول ماڈل ہستی کی طرف سے اس چیز کی کبھی اجازت۔ وہ ہمیشہ مجھے کہتے ہیں آپ میرے چھوٹے بھائی ہیں مگر اس چیز کی اجازت ابھی نہیں دے سکتا۔ بقول ان کے میں ابھی اس قابل ہی نہیں کہ مجھ خاکسار بارے کچھ لکھا جائے۔ آج میرا دل انتہائی قرب میں ہے لیکن پھر خوشی بھی ہے کے مجھے آج وہ سب کچھ لکھنے کا موقع مل گیا جسے لکھنے کے لئے برسوں سے بے تاب تھا۔ یہ ایک ایسے نوجوان صحافی کی داستان ہے جس نے کبھی بھی لالچ اور خوشامد کو اپنے قریب نہیں بھٹکنے دیا۔ گھر کا فرد ہونے کی حثیت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ وہ کس طرح کے حالات میں کس انداز سے رہ رہے ہیں مگر کمال فن یہ کہ اپنی بے بسی کے آنسو دوسروں کے سامنے کبھی نہیں بہائے۔ جب بھی افسردہ ہوتے ہیں احقر کے پاس تشریف لاکر ساری تکلیفوں کا دل کھول کر ذکر کرتے ہیں اور مسکرا کر کہتے ہیں رجب بھائی آپ گواہ رہنا میں جو کچھ بھی کررہا ہوں یہ سب کچھ اپنے ملک و قوم سمیت اپنے علاقہ کی پسماندگی زدہ عوام کے لئے کررہا ہوں۔ یعنی وہ نہیں چاہتے کہ کسی کے حقوق سلب ہوں یا کسی طاقتور طبقہ کی جانب سے کسی بھی غریب پر کوئی ظلم و ستم ہو۔

والد صاحب ایک مزدور ہیں۔ نہ ہی کوئی اپنی کھیتی باڑی کی زمین اور نہ ہی مستقل روزگار لیکن والدین نے اس انتہائی مشکل حالات میں انہیں تعلیم دلوائی۔ یہ گاٶں کے واحد بچے تھے جو ناصرف خود بلکہ کچھ عرصہ بعد ان کی بہنیں بھی اسکول جانا شروع ہوگئی۔ ملک رمضان اسراء بتاتے ہیں جب ہم (بھائی) پڑھ رہے تھے تو میرے دل میں ہمیشہ خلش رہتی کہ میری بہنیں بھی پڑھیں لیکن نا ہی والدین اور نہ ہی معاشرہ اس چیز کی اجازت دیتا تھا کہ وہ اپنی بہنوں کو دور کے اسکول میں داخلہ دلوا سکیں کیوں کہ آبائی گاٶں میں اسکول تو تھا مگر ایک ویران بلڈنگ۔

لیکن جب ملالہ یوسفزئی پر حملہ ہوا تو موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سوچا کہ کیوں نہ اس بچی کی کہانی والدین کو دکھا کر انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ کیا ہماری بہنوں کو اسکول نہیں جانا چاہیے؟ لیکن پھر معاشرتی رکاوٹیں سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی مگر ہمت پکڑی اور ٹیلی ویژن کو بیٹھک سے اٹھا کر گھر کے کمرے میں لے آئے جس سے فرسودہ نظریات کے اس معاشرے میں کھلبلی مچ گئی اور پڑیسیوں سمیت رشتہ دار طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔

خیر اول گھر کے بڑے خفاء ہوئے مگر پھر انہیں اس بات پر آمادہ کرنے کے لئے کے کسی بھی طرح گھر کے اندر ٹیلی ویژن رکھنے دی جائے کے لئے کہا گیا کہ آپ کو جنگلی جانور اور دنیاء کے خوبصورت نظارے دیکھانے کے لئے یہ ٹی وی لایا ہوں اس بات پر خوشی پھیل گئی دادا سمیت جو پہلے برا سمجھتے تھے کہنے لگے ٹھیک ہے جلدی چلاٶ اور دکھاٶ خیر مختصر یہ کہ اجازت مل گئی اور پھر شروع ہوئی اصل کہانی۔

اس دوران باہر لوگ لعن طعن بھی کرتے تھے مگر اس طرف سب کی توجہ ہٹادی گئی کہ جو کوئی بھی کچھ کہتا ہے انہیں کہنے دیں۔ ان دنوں ملالہ پر حملہ کی خبریں تمام چینل دکھا رہے تھے تاہم انہوں نے جب یہ خبر سب گھر والوں کو بار بار دیکھائی اور پھر سمجھایا کہ دیکھیں ایک چھوٹی بچی بندوقوں کے خوف سے بھی اسکول جانے سے نہ رکی مگر ہم یہاں باتوں کو لے کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ مسلسل کئی دن تک گھر میں اسی بچی کی کہانی سناتے رہے پھر آخر والدین نے حامی بھری اور تقریبا 25 کلومیٹر دور تحصیل کے اسکول میں داخلہ کروایا۔ ناصرف یہ سلسلہ اپنے گھر تک محدود رہا بلکہ آج ان کی انتھک محنت اور کوششوں کے نتیجے میں سو سے زائد بچیاں گاٶں کے اسکول جارہی ہیں۔ پھر یہ الگ کہانی ہے کہ اس دوران اس نڈر صحافی کو کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

2013ء سے قبل علاقائی وڈیروں کی جانب سے جب غریب اور بے بس لوگوں پر ظلم ستم بڑھا جس میں ناجائز قتل، لڑائی جھگڑے، ووٹ نہ دینے کی سزا اور ونی جیسی فرسودہ روایات شامل ہیں کی طرح مختلف بیہودہ حرکات کے خلاف ایک 16 سالہ نوجوان نے نجی محفلوں اور فیس بک پر آواز بلند کی تو ان با اثر شخصیات کی طرف سے ناتھمنے والا دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا لیکن وہ چٹان کی طرح ان کے سامنے سینہ سپر رہے۔ رکنے کے بجائے ان ظالموں کے خلاف مزید طاقت کے ساتھ بولنے لگے۔ بے زبانوں کی زبان بننے کے جرم میں ایک سازش کے تحت ان کے گھر پر کتے بٹھا کر چوری کا الزام لگا دیا گیا اور با اثر سیاسی وڈیروں نے سبق سکھانے کے لئے ان کے خلاف جھوٹا کیس بنوادیا حتی کہ پولیس اور وڈیروں نے ملکر سرعام گلیوں میں ان کے بوڑھے والد کو دھکے دیے اپنے پاٶں پر پگڑیاں رکھوائی جبکہ تھانہ پروآ میں مذکورہ صحافی پر پولیس سے تشدد کرواتے رہے (تشدد اس قدر کیا گیا تھا کہ نوجوان صحافی کئی ماہ تک چارپائی پر پڑا رہا اور گھر میں دیسی علاج کیا گیا نا کہ اسپتال)۔ چونکہ اس سے قبل پولیس کے تشدد سے ایک شخص جاں بحق ہو گیا تھا اور یہی ڈر تھا جس کے نتیجہ میں سادہ لوح والدین کو مزید ڈرا دھماکا کر ایک جرگہ کے تحت لاکھوں روپے لئے گئے جو اس غریب خاندان نے گھر کا سازوسامان بیچ اور قرض لے کر ادا کیے اور اپنی جان چھڑائی ناصرف یہ بلکہ بعد ازاں طاقتور وڈیرہ کی بیٹھک پر لے جاکر معافیاں بھی منگوائی گئی۔

کئی سال خاموشی ہوگئی ملک رمضان اسراء کئی ماہ تک بیمار رہے مگر پھر جب کچھ عرصہ بعد مکمل صحت یاب ہوئے تو دوبارہ ان کے ناجائز قبضوں سمیت کالے کرتوتوں کے خلاف بولنا شروع ہوگئے پھر ایک مرتبہ ان کے قریبی رشتہ داروں کے خلاف وہی پرانی سازش گھڑی گئی تاکہ بعد ان کو بھی اس میں پھنسادیا جائے مگر اس بار صورت حال بدل چکی تھی۔ پولیس کی ملی بھگت اور دباٶ کے باوجود وہ اس غریب خاندان پر جرگے کا زبردستی فیصلہ مسلط نہ کرسکے بالآخر وڈیروں اپنا دب دبا قائم رکھنے کے لئے کچھ افراد سے بے گناہ طلاقیں لیں گئی اور پھر کہیں جا کر وہ بھی بڑی مشکل سے رقم (چٹی) دینے سے جان چھوٹی۔ مگر پھر بھی ان کی طرف سے مختلف سازشوں کا سلسلہ نہ تھم سکا اور مختلف ذرائع سے دباؤ ڈالا جاتا رہا لیکن اس سب کے باوجود وہ طاقتور حضرات ایک غریب صحافی کی آواز آج تک نہ دبا سکے۔ ٹیلی فونک دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا متعلقہ تھانہ میں درخواست بھی دی گئی مگر آج تک ان لوگوں کی نشاندہی نہ ہوسکی! با اثر وڈیروں کی طرف سے کئی ماہ قبل جب ڈی آئی خان میں ایک شخص کو معاشقے کے الزام میں جوتیوں کا ہار پہنا کر معافی منگوائی گئی تو یہ خبر ملک رمضان اسراء نے بریک کردی جس کے بعد خطرات کا سلسلہ مزید بڑھ گیا اور کئی روز تک گھر سے بے گھر چھپ کر رہنا پڑا لیکن انہوں نے اپنی سرزمین نہیں چھوڑی۔

ملک رمضان اسراء وہ نوجوان صحافی ہیں جو آج تک بغیر کسی تنخواہ کے پر خطر علاقے میں اپنا کام بطور فری لانس صحافی جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ صحافت ان کا عشق ہے۔ یہ انتہائی خودار انسان ہیں معروف و مشہور شخصیات صحافیوں اور سیاستدانوں سے ان کے انتہائی قریبی تعلقات کے باوجود بھی اپنی غربت کا ذکر کبھی نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی کسی کے آگے انتہائی خراب حالات کے باوجود ہاتھ پھیلائے کیونکہ آپ لالچ، مطلب اور مقصد سے دور تعلقات پر یقین رکھتے ہیں۔ سچی کھری صحافت کرنے کے عادی جبکہ جھوٹ سے شدید نفرت کرتے ہیں ایک ہیومن بینگ انسان، فرض شناس شخصیت ایک مخلص دوست اور انتہائی شفیق بھائی ہیں۔

کچھ عرصہ قبل رات کے اندھیرے میں نامعلوم بزدل افراد نے میرے اس بھائی اور بے خوف صحافی کے گھر پر حملہ کیا وہ دروازہ کھلوا کر اندر گھسنا چاہتے تھے مگر ملک صاحب کی ہوشیاری کہ دروازہ مضبوطی سے بند کردیا۔ یہ سلسلہ کوئی ایک گھںنٹے تک چلتا رہا مگر قریبی رشتہ داروں اور گھر والوں کے شور غل سے نامعلوم افراد رات کے اندھیرے اور سنسان علاقے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے۔ ملک رمضان اسراء خاندان سمیت ساری رات ذہنی اذیت میں رہے جبکہ اس وقت سے خوف کے باعث گھر میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ متعلقہ تھانے پر بنام ایس ایچ او نامعلوم افراد کے خلاف درخواست دینے کے باوجود نئے پاکستان کی غیر سیاسی پولیس نے ابھی تک موقع پر جانا تو دور فون کرکے یہ تک نہ کیا کہ آپ کے ساتھ کیا واقع ہوا ہے۔

ملک رمضان اسراء پر حملے سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک بن چکا ہے، صحافی کے پاس نہ کوئی اسلحہ ہوتا ہے اور نہ کوئی ذاتی لشکر جو اسے ہر دیدہ اور نادیدہ خطرے سے بچانے کے لیے سینہ سپر ہو۔ اگر صحافیوں کی آوازوں کو دھمکیوں، سازشوں، ڈنڈوں اور گولیوں سے ہی بند کروانا ہے تو پھر ملک میں آزادی اظہار رائے کی باتوں کا ڈھونگ نہیں رچانا چاہیے اور یہ بھی نہیں بولنا چاہیے کے صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے اوراس ستون کی مضبوطی ہی ریاست کی مضبوطی ہے انسانی حقوق اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی قومی و بین الاقوامی تنظمیوں اور حکومتی عہدیداروں کو ملک رمضان اسراء جیسے حق گو صحافیوں اور ان کی فیملیوں کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے اور معاشرے کو ایسے ناسوروں سے پاک کرنا چاہیے جو صحافت کو گھر کی لونڈی بنا کر مظلوم رعایا کو اپنی فرعونیت کی چکی میں پیسنا چاہتے ہیں جبکہ قانون نافض کرنے والے اداروں پر فرض ہے کے وہ صحافیوں سمیت ریاست کے ہر ہر فردکی جان و مال و عزت کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).