میرا بنگالی دوست



میرا ایک بنگالی دوست ہے، جو مجھے صرف اسلیے نہیں اچھا لگتا کہ وہ اچھا لکھاری ہے، وفادار ہے، باخلاق اور مہذب ہے، بلکہ اسلیے اچھا لگتا ہے، کیونکہ انکے کیساتھ وہ ظلم ہوا ہے، جو انسانی تاریخ میں کسی کیساتھ شاید ہو۔ وہ اکثر میرے ساتھ بہت ارگومنٹس کرتا ہے اور میں ہر دفعہ ہار جاتا ہوں۔ اسکا اور میرا ماننا ہے، کہ سقوط ڈھاکہ کیساتھ دو قومی نظریے کا بھی سقوط ہوگیا ہے۔ پھر بھی اگر کویی بندہ دو قومی نظریے کا ورد گردانتا ہے، تو وہ یا تحریک انصاف سے ہوگا اور یا اسے سکول سے واقفیت نہیں ہویی ہوگی۔ سقوط ڈھاکہ سے یاد آیا کہ جس بنگالیوں کو جنرل ایوب خان نے کہاتھا، کہ “بنگالیوں میں گھٹیا اور پست نسلوں کی تمام تر خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں”۔ اور اس طرز فکر کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ بنگالیوں پر کسی قسم کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی حتیٰ کہ انہیں اپنے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار بھی نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ 1947ء سے 1969ء تک کسی بنگالی کو مشرقی پاکستان کا چیف سیکرٹری نہیں لگایا گیا۔

پچھلے ہفتے بنگالی دوست سے بات ہورہی تھی، بول رہا تھا، کہ بنگلہ ہمارا باشا ہے، بنگلہ ہمارا گرو ہے، بنگلہ ہی ہمارا آشا ہے۔ بنگلہ زبان دنیا کی سب سے زیادہ آرٹسٹ زبان مانی جاتی ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ جواب دیا، کہ پوری دنیا میں بولی جانی والی زبانوں میں بنگلہ زبان ساتویں نمبر پہ بولی جاتی ہے، اور بھارت میں دوسری نمبر پہ ہے۔ کل ملا کر پوری دنیا میں 210 ملین لوگ بنگلہ زبان کو اپنی مادری زبان مانتےہیں۔ بنگلہ بنگلہ دیش کی قومی زبان ہے، اور بھارت کے ویسٹ بنگال کی سرکاری زبان ہے۔ بات یہاں نہیں رکھی، بول رہا تھا، کہ 21 فروری 1952 کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبا؍ نے بنگالی زبان کا مغربی پاکستان میں بنگالی زبان کو سمان دلانے کیلیے ایک تحریک شروع کیا۔ اس تحریک میں بہت سارے طلبا؍ کی موت بھی واقع ہوگیی تھی۔ اس تحریک کی وجہ سے اقوام متحدہ کے برانچ یونیسکو نے انٹرنشیل لینگویج ڈے منانے کا اعلان کیا تھا۔ بول رہا تھا، کہ بنگلہ زبان دینا کی وہ واحد زبان ہے، جو کسی ملک کی آزادی کا کارن بنا ہے۔ بنگلہ پوری دنیا میں اپنی ادب اور لٹرییچر کیلیے مانا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں، بھارت، بنگلہ دیش، چاینہ، فلپاین، پاکستان، جاپان، تھایی لینڈ، جرمنی، امریکہ، برطانیہ بنگالی ریڈیو سٹیشن چلتے ہیں، اور بنگلہ اخبار پڑھی جاتی ہے۔ یہاں تک تو اس نے مجھے چپ کر کے رکھا تھا، اور میں سن رہا تھا۔

بنگالیوں نے پوری دنیا میں اپنا نام کمایا ہے، رابندرناتھ ٹیگور ایشیاء کا وہ پہلا، شاعر،لکھاری، موسیقی کمپوزر تھا، جسے نوبل انعام ملا تھا، اور اسکے بعد ارمرت سنگھ کو بھی نوبل انعام ملا تھا۔ ستیہ جیت رے آسکر پانے والے بھارت کے پہلے فلم میکر تھے، جنہیں لایف ٹایم آسکر ایوارڈ ملا تھا۔ اب جب وہ یہ ساری باتیں بتا رہا تھا، تو میں خاموشی سے سن رہا تھا۔ پھر بولنے لگا، کہ یہ نہیں بلکہ بنگالی تعلیم کے میدان میں بہت آگے ہوتے ہیں، چندری مُکھی بھاسو جو کہ بھارت کی پہلی خاتون گریجویٹ تھی، اور جوزف بھوس جو کہ بھارت کے ایسے تعلیم یافتہ بنگالی تھے جسے یونیورسٹی آف ایڈن برگ نے ڈاکٹر آف لیٹرز کا ایوارڈ دیا تھا۔ بنگالی اداکاروں کی لسٹ تو بہت لمبی ہے، کشور کمار، اشوک کمار، شرمیلا ٹھیگور، جیا بچن، رانی مکھر جی، کاجل، شسمیتا سین، بپاشا بھاسو وغیرہ وغیرہ۔ دوست کی ان باتوں سے میں بلکل متفق تھا۔ آگے چل کر دوست بول رہا تھا، کہ بہت سارے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ بنگالی بزنس نہیں کرتے، بہت سارے ایسے بنگالی ہیں، جنہوں نے تجارت میں اپنا لوہا منوایا ہیں، جیسا کہ وکی چکھر وتی جو کہ سویڈن میں سے سب بڑے ہوٹلز کا مالک ہے، سدھارت بھاسو جو کہ بگز انرجی کمپنی کا فاونڈرہے۔ اروندھتی بٹیا چاری جو کہ سٹیٹ بینک آف انڈیا کے پہلے خاتون ڈایریکٹر رہی۔ کمار بٹیاچارے جو باربک مینوفیکچرنگ گروپ کے ڈایریکٹر ہے۔ امر بھوس، بھوس کارپوریشن کا فاونڈر ہے۔ اشوک شیکر گانگولی ہندوستانی یونی لیور کے چیرمین ہے، بھاسکر فرمانک جو مایکرو سافٹ انڈیا کے چیرمین ہے۔ نیرج رایے جو کہ ہنگامہ ڈیجیٹل کا فاونڈر ہے، کرونل رایے جو کہ “این ڈی ٹی وی ” کا فاونڈر ہے۔ رمن رایے جنکو انڈین بی پی او کا واحد جنھک مانا جاتا ہے، کواٹرو کا فاونڈر ہے۔ شوبرتو رایے جو سہارا انڈین ٹی وی کا فاونڈر ہے۔ اب دوست نے فلم میکرز کیطرف توجہ دلایی، بول رہا تھا، بھارت کے سب سے بہترین فلم میکرز بنگال سے آتے ہیں، ستھے جی تھرے، ریتھک گٹھک، ویشی کیش مکھرجی، دیباکر، انوراگ بھاسو وغیرہ وغیرہ سب بنگال سے آتے ہیں۔ نتھیش چندر لاہیری، ایشیاء کے پہلے وکیل تھے جو راوٹری انٹرنیشنل کے پریذنٹ چنے گیے تھے۔ پی سی سرکار، اور پی سی سرکار جونیر دنیا کے ماہان جادوگرز میں مانے جاتے ہیں۔ یہاں آکر جب دوست نے جادو کی بات کی، تو میرے ذہن میں جھٹ سے خاتون اول آگیی۔

موسیقی میں تو بنگالیوں نے تہلکہ مچایا ہوا ہے، آر ڈی بھرمن، ایس ڈی بھرمن، کشور کمار، کمار سانو، شان، شریا گوشال، اریجیتھ سنگھ، بھپی لہری اور پھر دوست آہستہ کھیل کیطرف لے گیے، بول رہا تھا، کہ مونوتش رایے بنگلہ دیش کے پہلے باڈی بلڈر تھے، جسکو مسٹر یونیورس کا ایوارڈ ملا تھا، پریش لال رایے، جسکو انڈین باکسنگ کا باپ بولا جاتا ہے۔ سودیح ساہا، جو کہ پہلی بار گیکو رومن ریسلنگ ٹیکنیکس بھارت لیکر آیے تھے اور کرکٹ کا بادشاہ گانگولی کو کون نہیں جانتا۔ چھونی گوسوامی بھارت کے سب سے بڑے فٹ بال کھلاڑی جنہیں ۱۹۹۲ میں دنیا کا سب سے بڑا سپورٹ ایواردڈ ملا تھا۔ بولا چوہدری سویمنگ میں ایک نام رکھتی ہے۔

جب دوست یہ سارے باتیں بتا رہا تھا، تو میرے ناقص العقل انسان کے ذہن میں صرف اور صرف اپنی سترسالہ تاریخ دوڑ رہی تھی اور اسی سوچ میں تھا، کہ میں اسے کونسی فہرست سے متعمد اسناد دوں، پھر اچانک ذہن میں یہ آیا اور بول دیا، کہ ہمارے پاس خاتون اول ہے، جو تعویذ لکھتی ہے، بلی اور کتوں کی زبان بھی سمجھتی ہے۔ وہ ہنسا اور سگریٹ سلگا کر بولا۔ بالو باشے۔

سوچ رہا تھا، کہ بنگلہ دیش میں غربت ہے، آبادی زیادہ ہے، تعلیم کم ہے، زیادہ تر بنگالی مشرق وسطی میں نچھلے درجے کی نوکریاں کرتے ہیں، پھر ذہن میں آیا میں کونسا “امریکہ” کا باشندہ ہوں۔ یہ سارے مسایل تو ہمارے ہاں بدرجہ اتم پایے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).