بدلتے موسم


بھادوں کے مہینے کے بعد گرمی کا زور ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اسوج کے کچھ ہی دن گزرتے ہیں تو یہ تبدیلی سب سے پہلے رات کو نظر آتی ہے۔ تقریباٌ ایک پہر رات گزرنے پر پنکھے کی ہوا کے نیچے جسم کسمساتا ہے اور چادر اوڑھنے کو جی کرتا ہے۔ حبس اور پسینے سے بھر پور راتوں کے عذاب کے بعد ٹھنڈی ہوا کا یہ لمس ایک نہایت فرحت بخش احساس ہے جیسے کسی طویل قید سے نجات ملئی ہو۔ رات بھیگتی ہے تو صبح شبنم کے قطروں سے گھاس کو موتیوں کی لڑیاں پہنا دیتی ہے۔ صبح کا سورج نرم پڑ جاتا ہے اور سبزہ زار تازگی کا سامان لیے سحر خیزوں کا اسقبال کرتے ہیں۔ اوائل خزاں کی صبحیں پرندوں کی تازہ دم چہچہاہٹ سے بھرپور ہوتی ہیں۔ برسات کی موسلا دھار بارشوں سے گھونسلے یا تو گر جاتے ہیں یا ٹوٹ جاتے ہیں۔ اب نئے گھونسلے بنانے کا موسم ہے۔ مہمان پرندوں کی آمد کا وقت بھی قریب ہے۔ جیسے جیسے شمال میں برفیں اتریں گی وہاں سے رنگ برنگی چڑیاں اور بگلے پنجاب کے میدانوں کا رخ اختیار کریں گے

دن کے اوقات میں دھوپ بہر حال اپنا زور دکھا رہی ہوتی ہے لیکن اس کی کاٹ مدھم ہے اور بے بسی عیاں ہے ویسے ہی جیسے ڈھلتی جوانی کے بعد اکھڑتی سانسیں انسان کو اپنی باگیں کھینچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اس موسم میں شور سے دور ہوا کے ہلکے جھونکوں میں کسی پیڑ کے نیچے چھاوں میں لیٹنے کا اتفاق ہو تو فراغت اور اطمینان بھراوہ سکون ملتا ہے جس کی تلاش میں ہم دن اور رات کو ایککیے ہوے ہیں۔

سب سے دلآویز تبدیلی شام میں رونما ہوتی ہے۔ ساون بھادوں کا حبس اتنا شدید ہوتا ہے کہ سورج سے آسمان کی روانگی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑتی۔ شام ڈھلنے کے بعد بھی جسم کے تمام مسام پسینے کی شکل میں اسے مسلسل خراج ادا کرتے ریتے ہیں۔ شام کو ٹہلنا تو دور کی بات پنھکے سے دو فٹ کی دوری بھی برداشت نہیں ہوتی۔ لیکن اس بدلتے موسم میں شام بھی انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ سورج ڈھلتے ہی بے معلوم سی ٹھنڈک ماحول میں در آتی ہے۔ شمال سے چلنے والی ہوا میں درختوں کے پتے ہلکورے لیتے ہیں جیسے آنے والی خزاں میں ٹہنیوں سے جدا ہونے کے پیغام کو سمجھتے ہوں۔ دھان کے سر سبز میدانوں میں یہ ہوا ہلکی ہلکی لہریں پیدا کرتی ہے جس میں سنہری تاریں رفتہ رفتہ نمایاں ہو رہی ہیں۔

کچھ ہی دنوں میں یہ سبز میدان تانبے کی رنگت کے ایک بڑے تھال کی صورت اختیار کر لے گا اور پھر دھان کی کٹائی یشروع ہو جائے گی۔ ایسی شاموں میں شہروں سے دور گاؤں کے ٹیڑھے میڑھے راستوں اور کھیتوں کے درمیان پگڈنڈیوں پر چلنے اور چلتے رہنے کا فسوں مدتوں نہیں بھولتا۔ جب کہیں جانے کی کوئی جلدی نہ ہو اور صاف اور نتھری ہوئی فظا سے تازگی جسم میں سموتی ہو۔ ایسے لمحات میں برسوں پہلے گزرے واقعات سے کبھی تو ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلتی ہے تو کبھی کسی نا آسودہ خواہش سے دل مغموم ہونے لگتا ہے۔

کسی شاعر نے انہیں شاموں میں کہا ہو گا۔
شام کو ٹھنڈی ہوا ان کے لیے چلتی ہے
جن کے محبوب بہت دور کہیں ہوتے ہیں
نوٹ:۔ ان تبدیلیوں کی خبر بے ہنگم ٹریفک کے شور اور دھویں سے گزر کر کنکریٹ کے جنگل تک اتنی جلدی نہیں پہنچتی

محمد نعیم وڑائچ
Latest posts by محمد نعیم وڑائچ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).