رانا مشہود کا بیان اور نواز شریف کی خاموشی


مسلم لیگ (ن) کے رہبر اعلیٰ اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی ہی پارٹی کے لیڈر رانا مشہود کے بیان پر تفصیلی بات سے گریز کرتے ہوئے پارٹی کی حکمت عملی اور جمہوریت سے اپنی وابستگی کے بارے میں سنگین سوالات کو جنم دیا ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی رحلت کے بعد نواز شریف صدمے کی کیفیت میں ہیں لیکن انہیں اس بات سے آگاہی ہونی چاہئے کہ اس ملک میں لوگوں کی بڑی اکثریت نے جمہوری عمل کے وقار اور احترام کے حوالے سے ان سے امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں۔ نواز شریف نے 13 جولائی کو لندن سے واپس آکر اور نیب عدالت کے فیصلہ کی روشنی میں اپنے علاوہ اپنی بیٹی مریم نواز کی گرفتاری دے کر ملک کے جمہوریت پسند عناصر کو یہ باور کرنے پر مجبور کیا تھا کہ نواز شریف کی جد و جہد اقتدار کے حصول یا پارٹی کو انتخاب میں کامیاب کروانے تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ ملکی جمہوریت میں غیر منتخب اداروں کی مداخلت روکنے اور شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے لئے سیاست کرنے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ لندن سے نواز اور مریم کی واپسی پر مسلم لیگ (ن) کے صدر اور نواز شریف کے برادر خورد شہباز شریف اپنے لیڈر اور بھائی کا استقبال کرنے کے لئے ائیر پورٹ پہنچنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ اس طرز عمل نے شہباز شریف کی سوچ اور نواز شریف کے ارادوں کا فرق واضح کیا تھا۔

نواز شریف اور مریم نواز قید میں ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم نہیں چلا سکے۔ شہباز شریف نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے سلوگن پر ووٹ مانگنے کی بجائے پنجاب میں اپنی کارکردگی پر ووٹ مانگنے کو ترجیح دی۔ پوری انتخابی مہم کے دوران انہوں نے یہ واضح کیا تھا کہ وہ ملک کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتے اور اپنے مقید بھائی کے اس نظریہ سے متفق نہیں ہیں کہ ان کا اقتدار کسی ’خلائی مخلوق‘ کی مداخلت یا کسی سازش کی وجہ سے ختم ہؤا تھا۔ ان کا مؤقف رہا ہے کہ نواز شریف کے سیاسی مسائل کی اصل وجہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ غلط فہمیاں پیدا کرنے والا رویہ اختیار کرنا تھا۔ وزارت عظمیٰ سے معزولی کے بعد جی ٹی روڈ سے واپسی اور اپنے خلاف عدالتی فیصلہ کو سیاسی رنگ دینے کا فیصلہ بھی شہباز شریف کی سوچ اور سیاست کے مطابق نہیں تھا۔ اگرچہ نواز شریف کو سپریم کورٹ کے حکم پر جب اپنی پارٹی کی صدارت سے بھی محروم ہونا پڑا تو قیادت کے لئے ان کی نگاہ انتخاب اپنے اسی بھائی پر ہی پڑی جو سیاسی لحاظ سے ان سے کوسوں دور کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اگر رائے کا یہ اختلاف حقیقی نہیں ہے تو یہ تضاد ایک ایسا سراب ضرورہے جو دور سے تو دکھائی دیتا ہے لیکن اگر کوئی مبصر یا محقق ان دونوں بھائیوں کی سیاست کا بغور مطالعہ کرے تو اس پر حقیقت حال واضح ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ تحریک انصاف کے چئیرمین اور وزیر اعظم عمران خان انتخابات سے پہلے شریف برادران پر تنقید کرتے ہوئے دونوں کو سکہ کے دو رخ قرار دیتے رہے ہیں جن کا واحد مقصد اقتدار میں رہ کر ذاتی مفادات کا تحفظ کرنا رہاہے۔

تاہم جمہوریت پسند حلقے گزشتہ ایک برس کے دوران نواز شریف کی بے باک سیاست اور قومی سیاست کو عوام کی رائے کے مطابق چلانے کے اصول کے اعلانات کی روشنی میں دیکھتے ہوئے یہ تسلیم کرتے رہے ہیں کہ ماضی میں نواز شریف نے جو بھی غلطیاں کی ہوں لیکن اب وہ ملک میں جمہوریت کی واحد امید ہیں۔ ان کا سیاسی سفر خواہ ضیاالحق کی انگلی پکڑ کر شروع ہؤا ہو یا وہ سن 2000 میں پرویز مشرف کے ساتھ معاہدہ کے بعد جلاوطنی پر متفق ہوئے ہوں تاکہ انہیں اور خاندان کے دیگر لوگوں کو جیلوں سے رہائی نصیب ہو اور وہ سعودی عرب میں آرام کی زندگی بسر کرسکیں۔ اس کے باوجود اب یہ امید کی جانے لگی تھی کہ 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد ان سے طاقت ور حلقوں کی ناپسندیدگی اور اس کے نتیجہ میں سامنے آنے والی رکاوٹوں کی وجہ سے نواز شریف کے نظریات میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ اسی لئے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر حیرت کی بجائے اسے اسٹبلشمنٹ کی چال سمجھا گیا ۔ اسی طرح نواز شریف کے خلاف نیب کے ریفرنسز کو بھی سیاسی تناظر میں دیکھا جاتا رہا ہے۔ جولائی میں جب انہوں نے اپنی اہلیہ کی شدید علالت کے باوجود لندن سے واپس آنے کا فیصلہ کیا اور مریم نواز کو بھی ساتھ لے کر لاہور ائیر پورٹ پر اترے تو نواز شریف کے شدید مخالفین بھی یہ ماننے پر مجبور ہوئے کہ انہوں نے جمہوریت کی بالادستی کے لئے اہم فیصلہ کیا ہے۔

 البتہ اب رانا مشہود کے حیران کن انٹرویو پر نواز شریف نے خاموشی اختیار کی ہے اور اس کے مندرجات سے بالواسطہ فاصلہ اختیار کرتے ہوئے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ’ شہباز شریف نے اس بیان کا نوٹس لیا ہے‘ ۔ جب صحافیوں نے اس بارے میں مزید سوال اٹھانے کی کوشش کی تو نواز شریف نے یہ کہہ کر جواب دینے سے اجتناب کیا کہ وہ ذہنی طور پر اس وقت سیاسی سوالات کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ رفیقہ حیات کی رحلت کے باعث نواز شریف ابھی سوگ میں ہیں اور فی الوقت سیاسی مباحث کا حصہ نہیں بننا چاہتے تو بھی نواز شریف کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ رانا مشہود کا بیان اور اس میں دئیے گئے اشارے محض سیاسی مؤقف نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے اس اصول پر براہ راست حملہ کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر نواز شریف گزشتہ ایک برس کے دوران خود کو ’نظریاتی‘ قرار دیتے رہے ہیں اور جس کی وجہ سے ملک کے جمہوریت پسند حلقے داغدار اور مشکوک ماضی کے باوجود نواز شریف کو جمہوریت کی امید سمجھنے لگے تھے ۔

 کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ شہباز شریف اس ملک میں عوام کی حکمرانی کے لئے جد و جہد کررہے ہیں۔ وہ حکومت حاصل کرنے کے اصول کو مانتے ہیں خواہ اس مقصد کے لئے انہیں عوام کی رائے کے برعکس فیصلے کرنے پڑیں اور ان قوتوں سے مصالحت کرنا پڑے جو جمہوری سفر کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ نواز شریف اگر جمہوریت کے بارے میں شہباز شریف کے ناقص اور کمزور رویہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور قیاس کرتے ہیں کہ رانا مشہود کے بیان پر اٹھنے والے طوفان سے شہباز شریف کی تادیبی کارروائی سے نمٹ لیا جائے گا تو یہ ان کی سیاسی غلطی ہے۔ اس رویہ سے نواز شریف کے جمہوریت پر ایمان اور موجودہ قانونی اور سیاسی مسائل کا حوصلہ مندی سے سامنا کرنے کے عزم کے بارے میں شبہات پیدا ہوں گے۔

رانا مشہود پنجاب کے وزیر رہے ہیں اور شہباز شریف کے معتمد سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے انٹرویو کے بارے میں یہ قیاس کرلینا ناسمجھی ہوگی کہ انہوں نے غلطی سے یہ بیان دے دیا ہے۔ اس بیان کے بنیادی نکات وہی ہیں جن پر شہباز شریف نے ہمشہ سیاست کی ہے اور جن کی بنیاد پر ہی وہ خود اپنے لئے اور اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز کے لئے سیاسی سپیس حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے نہ وزارت عظمی کے لئے پارٹی میں سے کوئی متبادل امیدوار سامنے لانے کی کوشش کی اور نہ ہی پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر انہیں اپنے بیٹے سے بہتر کوئی امید وار دکھائی دیا۔ اب بھی شہباز قومی اور حمزہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے عہدوں پر براجمان ہیں۔ اب رانا مشہود اگر یہ کہتے ہیں کہ کسی عدالتی یا عوامی فیصلہ سے پنجاب میں دو اڑھائی ماہ میں حکومت تبدیل ہوجائے گی تو اس کا مقصد یہ ہے کہ حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنوانے کے لئے تگ و دو کی جارہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس مقصد کے لئے کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ ا س کے بعد رانا مشہود کا یہ بیان بھی معنی خیز ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے والے بھی اب پشیمان ہیں کیوں کہ وہ جنہیں گھوڑے سمجھے تھے وہ خچر نکلے اور شہباز شریف ان لوگوں سے بہتر پرفارم کرسکتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی رانا مشہود نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ شہباز شریف اسٹبلشمنٹ کے لئے ہمیشہ سے قابل قبول رہے ہیں۔ اب ان کی کوششوں سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اختلافات ختم ہو رہے ہیں۔ گویا انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) مزاحمت کی سیاست کرنے کی بجائے اسی مفاہمت کی سیاست کرے گی جس پر عمل کے ذریعے اسے دوبارہ اقتدار میں حصہ مل سکے۔ رانا مشہود کا بیان صرف پنجاب میں تبدیلی کا اشارہ نہیں دیتا بلکہ یہ مرکز میں عمران خان کی جگہ شہباز شریف کو اقتدار دینے کی خواہش کا اظہار بھی ہے۔ اسی لئے فوج کے ترجمان کو اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے غیر ذمہ دارانہ قرار دینا پڑا۔ اب مسلم لیگ (ن) نے رانا مشہود کی رکنیت معطل کرکے ان کے خلاف تحقیقات کے لئے سہ رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔

اس صورت میں رانا مشہود کے بیان سے زیادہ اس بیان پر نواز شریف کی ’عدم دلچسپی‘ معنی خیز ہے۔ یہ خاموشی ان کی سیاست کے جمہوری لبادے کو تار تار کرسکتی ہے۔ رانا مشہود کے ’انکشافات‘ کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتانا چاہئے تھا کہ یہ بیان بے بنیاد اور پارٹی حکمت عملی کے خلاف ہے۔ یہ بیان شہباز شریف کے سیاسی مزاج کا پرتو ہے۔ اس لئے انہیں اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن اس بیان سے نواز شریف کے سیاسی مؤقف کی نفی ہوتی ہے۔ اگر نواز شریف اس موقع پر شہباز شریف کی سیاسی بصیرت کی یوں تائد کررہے ہیں کہ رانا مشہود کا معاملہ ان کی صوابدید پر چھوڑ کر خود غالب کے شعر سنانا کافی سمجھتے ہیں تو یہ سیاسی نادانی انہیں ماضی میں کی گئی غلطیوں سے بھی بھاری پڑے گی۔

رانا مشہود کا بیان کسی خاص مقصد سے سامنے لایا گیا ہے۔ اس کے بظاہر نقصان میں بھی خیر کے کسی پہلو کی امید قائم کی گئی ہوگی۔ اگر نواز شریف بھی اس امید کا حصہ ہیں تو عمران خان کی یہ بات درست ثابت ہوگی کہ دونوں شریف برادران ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ اگر نواز شریف اب بھی ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر یقین رکھتے ہیں تو وہ خاموش رہ کر اس عزت میں اضافہ نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali