رضو باجی


سیتا پور میں تحصیل سدھالی اپنی جھیلوں اور شکاریوں کے لیے مشہور تھی۔ اب جھیلوں میں دھان بویا جاتا ہے۔ بندوقیں بیچ کر چکیّاں لگائی گئی ہیں، اور لایسنس پر ملے ہوئے کارتوس ’’بلیک‘‘ کر کے شیروانیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قصبوں کا زنجیرا پھیلا ہوا تھا، جن میں شیوخ آباد تھے جو اپنے مفرور ماضی کی یاد میں ناموں کے آگے خان لگاتے تھے اور ہر قسم کے شکار کے لیے غنڈے، کتے اور شکرے پالتے تھے۔ ان میں سارن پور کے بڑے بھیا رکھو چچا اور چھوٹے بھیا پاچو چچا بہت ممتاز تھے۔ میں نے رکھو چچا کا بڑھاپا دیکھا ہے۔ ان کے سفید ابروؤن کے نیچے ٹرنتی آنکھوں سے چنگاریاں اور آواز سے لپٹیں نکلتی تھیں۔ رضو باجی انھی رکھو چچا کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ میں نے لڑک پن میں رضو باجی کے حسن اور اس جہیز کے افسانے سنے تھے، جسے ان کی دو سوتیلی صاحب جائداد مائیں جوڑ جوڑ کر مرگئی تھیں۔ شادی بیاہ کی محفلوں میں میراسنیں اتنے لقلقے سے ان کا ذکر کرتیں کہ ٹیڑھے بینچے لوگ بھی ان کی ڈیوڑھی پر منڈلانے لگتے۔ جب رضو باجی کی ماں مرگئیں اور رکھو چچا پر فالج گرا تو انھوں نے مجبور ہو کر ایک رشتہ قبول کرلیا۔ مگر رضو باجی پر عین منگنی کے دن جنات آگئے اور رضو باجی کی ڈیوڑ ھی سے رشتے کے ’’کاگا‘‘ ہمیشہ کے لیے اڑگئے۔ جب رکھو چچا مرگئے تو پاچو چچا ان کے ساتھ تمام ہندستان کی درگاہوں کا پیکرما کرتے رہے لیکن جناتوں کو نہ جانا تھا، نہ گئے۔ پھر رضو باجی کی عمر ایسا پیمانہ بن گئی، جس کے قریب پہنچنے کے خوف سے سوکھی ہوئی کنواریاں لرز اٹھتیں۔

جب بھی رضو باجی کا ذکر ہوتا میرے وجود میں ایک ٹوٹا ہوا کانٹا کھٹکنے لگتا اور میں اپنے یادوں کے کارواں کو کسی فرضی مصروفیت کے صحرا میں دھکیل دیتا۔ رضو باجی کا جب رجسٹری لفافہ مجھے ملا تو میں ایسا بد حواس ہوا کہ خط پھاڑ دیا۔ لکھا تھا کہ وہ حج کرنے جارہی ہیں اور میں فوراً سارنگ پور پہنچ جاوں، لیکن اس طرح کہ گویا میں ان سے نہیں پاچو چچا سے ملنے آیا ہوں، اور یہ بھی کہ میں خط پڑھنے کے بعد فوراً جلا دوں۔ میں نے رضو باجی کے ایک حکم کی فوری تعمیل کردی۔ خط کے شعلوں کے اس پار ایک دن چمک رہا تھا۔ پندرہ سال پہلے کا ایک دن جب میں بی اے میں پڑھتا تھا اور محرّم کرنے گھر آیا ہوا تھا۔

محرّم کی کوئی تاریخ تھی اور سارنگ پور کا سپاہی خبر لایا تھا کہ دوسرے دن مسرکھ اسٹیشن پر شام کی گاڑی سے سواریاں اتریں گی۔ ہماری بستی کے محرّم سارے ضلع میں مشہور تھے؛ یہ مشہور محرّم ہمارے گھر سے وابستہ تھے؛ اور دور دور سے عزیز واقارب محرّم دیکھنے آیا کرتے تھے؛ ہمارا گھر شادی کے گھروں کی طرح گھم گھمانے لگتا تھا۔ اس خبر نے میرے وجود میں قمقمے جلادیئے۔

میں رضو باجی کو جن کی کہانیوں سے میرا تخیل آباد تھا، پہلی باردیکھنے والا تھا۔ عید کی چاند رات کے مانند وہ رات بڑی مشکل سے گزری اور صبح ہوتے ہی میں انتظامات میں مصروف ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے ادھے جن کو پھرک اور لہڑو بھی کہتے ہیں، سنوارے گئے۔ بیل صابن سے نہلائے گئے۔ ان کو نئی اندھیریاں، سنگوٹیاں اور ہمیلیں پہنائی گئیں۔ دھراو جھولیں اور پردے نکالے گئے۔ گھوڑے کے ایال تراشے گئے۔ زین پر پالش کی گئی اور سیاہ اطلس کا پھٹّا باندھا گیا، جواس کے سفید جسم پر پھوٹ نکلا۔ ساتھ جانے والے آدمیوں میں اپنی نئی قمیصیں بانٹ دیں اور جیب خرچ سے دھوتیاں خریدیں اور دپہر ہی سے کلف لگی برجس پر لانگ بوٹ پہن کر تیار ہوگیا، اور دو بجتے بجتے سوار ہوگیا، جب کہ چھہ میل کا راستہ میرے گھوڑے کے لیے چالیس منٹ سے کسی طرح زیادہ نہ تھا۔ اسٹیشن ماسٹر کو، جو ہمارے تحائف سے زیر بار رہتا تھا، اطلاع دی کہ ہمارے خاص مہمان آنے والے ہیں اور مسافر خانے کے پورے کمرے پر قبضہ جما لیا۔ گاڑی وقت پر آئی، لیکن ایسی خوشی ہوئی جیسے کئی دن کے انتظار کے بعد آئی ہو۔ فرسٹ کلاس کے دروازے میں سارنگ پور کا مونو گرام لگائے ایک بوڑھا سپاہی کھڑا تھا۔ ڈبّے سے مسافر خانہ تک قناتیں لگادی گئیں، آگے آگے پھوپھی جان تھیں۔ ایک رشتے سے رکھو چچا ہمارے چچا تھے اور دوسرے رشتے سے ان کی بیوی ہماری پھوپھی تھیں، ان کے پیچھے رضو باجی ، پھر عورتیں تھرماس اور پان دان اور صندوقچے اٹھائے ہوئے آرہی تھیں، چائے کاانتظام تھا، لیکن پھوپھی جان نے میری بلائیں لے کر انکار کردیا اور فوراً اس ادھے پر سوار ہوگئیں جو تابوت کی طرح پردوں سے ڈھکا ہوا تھا۔

رضو باجی بھی اسی میں غروب ہوگئیں جن کے ہاتھ سیاہ برقعوں پر شعلوں کی طرح تڑپ رہے تھے۔ دوسرے ادھوں پر عورتوں کو سامان کے ساتھ چڑھا دیا گیا۔ کٹھنا دیس کے پھڑکتے ہوئے سیاہ بیلوں پر میرا چھوٹا سا ادھا خالی اڑرہا تھا اور میں پھوپھی جان کے ادھے کے پہلو میں چھل بل دکھاتے ہوئے گھوڑے پر بھاگ رہا تھا۔ میں جو کبھی ہوائی بندوق ہاتھ میں لے کر نہ چلا تھا۔ آج بارہ بور کی پنج فیری اس امید پر لادے ہوئے تھا کہ اگر اڑتا ہوا طاؤس گرالیا تو رضو باجی ضرور متاثر ہوجائیں گی۔ کچی سڑک کے دونوں طرف پھیلے ہوئے دھندہاری کے جنگل پر میری نگاہیں منڈلا رہی تھیں اور میں دعا مانگ رہا تھا کہ دور کسی جھاڑی سے کوئی طاؤس اٹھے اور اتنے قریب سے گزرے کہ میں شکار کر لوں کہ پھوپھی جان کا ادھا رک گیا۔ میں گھوڑا چمکا کر قریب پہنچا۔ آج سے زیادہ کسی جانور کے نخرے بھلے نہ لگے تھے۔

’’میرا تو اس تابوت میں دم گُھٹا جا رہا ہے۔‘‘

رضو باجی کی آواز تھی۔ جاڑوں کی صبح کی طرح صاف اور چمک دار!

’’تو آپ میرے ادّھے پر آ جایئے۔‘‘

’’مگر اس پر پردہ کہاں ہے؟‘‘

’’میں ابھی بندھواتا ہوں۔‘‘

پردہ بندھ رہا تھا کہ پھوپھی جان نے حکم دیا۔

’’کسی بوڑھے آدمی سے کہو ان کا ادّھا ہانکے اور کسی عورت کو بٹھال دو‘‘۔

’’ادّھا تو میں خود ہانکوں گا۔‘‘

’’ارے تو! ادّھا ہانکے گا؟‘‘

انھوں نے چھوٹا سا قہقہہ لگایا اور میں گھوڑے سے پھاند پڑا۔ ساتھ ہی کسی سپاہی نے میری تائید کی۔

’’ایسا ویسا ہانکت ہیں بھیا! بیلن کی جان نکال لیت ہیں۔‘‘

چاروں اور صافوں کا پردہ باندھ دیا گیا۔ رضو باجی سوار ہوئیں اور بولیں۔

’’اس پر اتنی جگہ کہاں ہے کہ بوا بھی دھانس لی جائیں۔‘‘

قبل اس کے کہ بوا اپنے ادّھے سے اتریں میں نے بیل جڑوا دیے اور پینٹھ لے کر جور پر بیٹھ گیا اور بڑھنے کا اشارہ کردیا۔ پھوپھی جان نے کچھ کہا لیکن پانچ جوڑ بیلوں کے گھنے گھنگھرووں کی تند جھنکار میں ان کی بات ڈوب گئی۔ جب حواس کچھ درست ہوئے اور دماغ کچھ سوچنے پر رضا مند ہوا تو جیسے رضو باجی نے اپنے آپ سے کہا۔

’’امی کے ادّھے کی ساری دھول ہمیں کو پھانکنا ہے۔‘‘

میں نے فوراً لیکھ بدلی۔ آدمی نے راسیں کھینچ کر مجھے نکل جانے دیا۔ ظالم بیلوں کو دوبارہ لیکھ پر لانے کے لیے میں نے ایک کے پینٹھ اور دوسرے کے ٹھوکر ماردی اور میری مہمیز اس کی ران میں چبھ گئی۔ وہ تڑپا اور قابو سے نکل گیا، اور اچانک رضو باجی کے ہاتھ میری کمر کے گرد آگئے اور میرا بایاں شانہ ان کے چہرے کے لمس سے سلگ رہا تھا اور اعصاب میں پھل جھڑیاں چھوٹ رہی تھیں۔

’’روکو۔‘‘

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3