پاکستان میں شناخت صرف ’باپ کے نام‘ سے


واجدہ

بیٹے کی پیدائش کے وقت انھیں بہت سے نامناسب سوالات کا سامنا کرنا پڑا اور کارڈ بنوانے میں مشکلات ہوئیں میرے پاس معاشرے اور اپنے بچوں کے سوالوں کا جواب نہیں کہ ان کا باپ کہا چلا گیا اور کیوں؟

12 برس قبل واجدہ ناز کی شادی اس وقت فرانس میں مقیم وسیم سے سرانجام پائی تھی اور گذشتہ آٹھ سال سے واجدہ اپنے شوہر سے رابطہ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ان کے بقول سنہ 2010 میں دوسرے بچے کی پیدائش سے تین ماہ قبل انھیں سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا تھا اور پھر بچے کی پیدائش پر ان کے شوہر نے آخری مرتبہ فون پر رابطہ کیا تھا۔

ان آٹھ برسوں کی مشکلات کی داستان تو الگ ہے لیکن اب ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دونوں بچوں کی رجسٹریشن کے لیے فارم ب (چائلڈ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ) بنانا ناممکن ہے کیونکہ وسیم نے اپنی شناختی دستاویزات میں خود کو شادی شدہ ظاہر ہی نہیں کیا اور نکاح نامہ بچوں کی رجسٹریشن کے لیے کافی نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’مجھے میرے باپ کا نام نہیں چاہیے‘

‘شناختی کارڈ میں اپنے باپ کا نام نہیں رکھنا چاہتی’

شادی کے وقت فرانس اور اب مبینہ طور پر لندن میں مقیم وسیم کی پاکستان واپسی اور بیوی سے صلح کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔

وسیم کی 11 سالہ بیٹی اور آٹھ سالہ بیٹا تمام حقائق سے مکمل طور پر باخبر نہیں اور اگر کہیں جانا پڑے یا گھر تبدیل کریں تو یہ سوال کرتے ہیں کہ ‘ماما یہ نہ ہو کہ ہم جائیں اور بابا پرانے گھر میں آجائیں۔’

ان دونوں بچوں کو شناختی دستاویزات کے لیے والد کا نام چاہیے تو ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی سپریم کورٹ میں ایک درخواست زیرِسماعت ہے جس میں 21 سالہ تطہیر نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے نام سے جڑا والد کا نام ہٹا دیا جائے۔

سو ایک طرف ایسی اولاد ہے جو والد کے نام کی تلاش میں ہے کیونکہ اس کے بنا ان کی شناختی دستاویزات بنوانا ممکن نہیں اور دوسری جانب ایسی اولاد ہے جو والد کا نام ساتھ نہیں لگانا چاہتی لیکن اس کے لیے دستاویزات سے وہ نام ہٹوانا بھی ممکن نہیں۔

واجدہ

واجدہ اپنے بچوں کے ہمراہ اب اپنے والدین کے گھر رہنے پر مجبور ہیں

کیا ایسے بچوں کے لیے کوئی راستہ ہے؟

شناخت سے متعلق دستاویزات کے مرکزی ادارے نادرا میں ذرائع کے مطابق والد کے عدم تعاون پر مبنی سالانہ طور پر چند کیسز ضرور سامنے آتے ہیں۔

مجموعی طور پر مختلف نوعیت کے مسائل دیکھیں تو اس وقت صرف اسلام آباد ریجن میں لگ بھگ 6000 کیسز موجود ہیں جن میں عوام کو شناختی دستاویزات بنانے میں مشکل پیش آرہی ہے۔

نادرا میں ڈائریکٹر جنرل آپریشنز بریگیڈیئر ریٹائرڈ نصر احمد میر کہتے ہیں جو کچھ لوگ ہمارے سامنے آ کر تسلیم کرتے ہیں، ڈکلیئر کرتے ہیں ہم اس کے مطابق انھیں رجسٹرڈ کرتے ہیں اور اگر کوئی کچھ چھپائے تو ہم انھیں کہتے ہیں کہ آپ عدالت میں جائیں اور فیصلہ لے کر آئیں۔

ڈی جی آپریشن نادرا کا کہنا تھا کہ اگر کسی بچے کے پاس پاکستانی ہونے کا ثبوت ہو، والد کا نام بھی معلوم ہو تو ایسے میں والد کے نام کے ساتھ تو شاید آپ کو رجسٹر کر لیا جائے لیکن فیملی لنک نہیں بن سکتا اس کی وجہ سے مستقبل میں مسائل پیش آ سکتے ہیں۔

انھیں کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے نادرا کے ریجنل آفس میں شعبہ قانون کی انچارج عالیہ زینب کہتی ہیں کہ واجدہ کا کیس مختلف نوعیت کا ہے کیونکہ ان کے شوہر نے خود کو شناختی کارڈ پر شادی شدہ ہی تسلیم نہیں کیا ایسے میں نکاح نامے کو بچوں کی شناختی دستاویزات بنانے میں استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نکاح نامہ جعلی بھی ہو سکتا ہے۔

نصر احمد

جو کچھ لوگ ہمارے سامنے آکر تسلیم کرتے ہیں ڈکلیئر کرتے ہیں ہم اس کے مطابق انھیں رجسٹرڈ کرتے ہیں اور اگر کوئی کچھ چھپائے تو ہم انھیں کہتے ہیں کہ آپ عدالت میں جائیں اور فیصلہ لے کر آئیں:برگیڈئیر (ر) نصر احمد

برگیڈیئر (ر) نصر احمد کہتے ہیں کہ ’صورتحال کچھ بھی ہو بچے کو بائیولوجیکل فادر کا نام ہی دیا جاتا ہے اگر والد نامعلوم ہو تو سسٹم کے ذریعے ایک فرضی نام دیا جاتا ہے۔

تطہیر فاطمہ کے کیس سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عدالت جو فیصلہ کرے گی اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔

’تطہیر کا کیس ابھی زیر سماعت ہے اس پر بات نہیں ہو سکتی لیکن ہم والد کا نام ہمیشہ دیتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جن کے والد کا نام پتا نہ ہو انھیں سسٹم سے کوئی بھی نام دے دیا جاتا ہے لیکن انھیں بھی دوسرے شخص کا نام یعنی سرپرست یا گارڈیین کا نام بطور والد نہیں دیا جا سکتا۔‘

مذہب کیا کہتا ہے؟

فیڈرل شریعت کورٹ کے وکیل ایڈوکیٹ ڈاکٹر اسلم خاکی کہتے ہیں کہ انگریزوں نے یہ قانون بنایا تھا کہ مسلمانوں کے شخصی قوانین ان کے مذہب کے تحت بنائے جائیں۔ ہمارے ہاں وراثت اور شادی کے حوالے سے الگ الگ قوانین نہیں ہیں یہاں شریعت اپلیکیشن ایکٹ نافذ ہے۔

’ہمارے پاکستان کا قانون اور اسلامی قانون اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی صورت میں والد کا نام بچے کے نام سے نہیں ہٹایا جا سکتا نہ ہی کسی اور کا نام ولدیت کے خانے میں لکھا جا سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی باپ بچوں کو حقوق نہیں دے رہا تسلیم نہیں کر رہا تو اسے بھی سزا ملے گی۔ ’باپ حقوق کا منبع ہے ہے۔ بچے کا کھانا پینا تمام اخراجات باپ کے ذمے ہوتے ہیں۔‘

ایڈوکیٹ ڈاکٹر اسلم خاکی

تطہیر کی خواہش اپنے ہی حقوق کے خلاف ہے: ایڈوکیٹ ڈاکٹر اسلم خاکی

ان کے مطابق یہ صرف حقوق تک محدود نہیں وراثت اور شادی کے معاملات میں بھی باپ کے نام نہ لکھنے کی وجہ سے نہ تو خون کے رشتوں کا پتہ چل سکتا ہے اور نہ ہی شادی کے جائز ہونے کے بارے میں واضح ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر خاکی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ماں کے پاس گارڈئین شپ نہیں صرف نابالغ بچوں کی کسٹڈی کے حقوق ہوتے ہیں۔ ’یہ کیا جا سکتا ہے اگر والد تعاون نہ کرے تو دیگر ممالک کی طرح ماں کو بھی عدالت کی جانب سے گارڈئین شپ دی جائے۔‘

نادرا کے ڈی جی آپریشن نصر احمد کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں سول رجسٹریشن مینیجمنٹ سسٹم ہوتا ہے۔ اس کے تحت چار اہم مواقع کو فوری طور پر رجسٹرڈ کروایا جاتا ہے جن میں شادی، طلاق، پیدائش اور موت شامل ہیں۔ ’میرا پیغام یہی ہے کہ جب بھی یہ چار مواقع ہوں لوگ متعلقہ یونین کونسل میں خود کو رجسٹرڈ کروائیں یہ معلومات پھر نادرا کے سسٹم میں آ جاتی ہیں۔ ایسا کرنے سے بہت سے سماجی مسائل کم سے کم ہو سکتے ہیں۔‘

واجدہ کہتی ہیں ایسے والدین کو کڑی سزا ملنی چاہیے جو اپنے بچوں کے حقوق سے دستبردار ہو جائیں وہ کہتی ہیں میں یہی چاہتی ہوں میرا شوہر آئے اور ان بچوں کو نام دے میرے بھی بچوں کی شناخت ہو وہ یوں بےشناخت نہ پھریں۔

ادھر عدالت عظمیٰ تطہیر فاطمہ کی جانب سے کی جانے والی درخواست پر تطہیر اور ان جیسے دیگر بچوں کے لیے کیا گنجائش نکالتی ہے کہ وہ باپ کے سائے سے محرومی کے ساتھ شناختی دستاویزات بنانے میں درپیش اضافی مسائل سے چھٹکارا پا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32492 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp