ساری غلطی میاں نواز شریف کی تھی: مایہ ناز صحافی جاوید چوہدری کا چشم کشا تجزیہ


معروف صحافی جاوید چوہدری نے ایک تجزیے میں پاکستان کی حالیہ سیاسی صورت حال کا ذمہ دار سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ٹھہرایا ہے۔ جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی غلطی یہی تھی کہ انھوں نے حالات کو ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر کیوں جانے دیا؟ سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو ہتھکڑی نہیں لگے گی۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ چوہدری نثار علی خان نے یہ یقین دہانی کیوں کروائی تھی نیز یہ کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس معاملے میں کیا دلچسپی تھی؟

جاوید چوہدری کے مطابق، “چوہدری نثار یہ پیغام لے کر میاں نواز شریف کے پاس پہنچے تو وزیراعظم نے جواب دیا ’’ہم نے ہتھکڑی لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘‘۔ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار روکتے رہ گئے لیکن جنرل پرویز مشرف کو ہتھکڑی لگا دی گئی اور اس کے بعد نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایسی ہتھکڑی لگی جو آج تک کھل نہیں سکی۔

جاوید چوہدری سوال کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو اس لیول تک جانے کی کیا ضرورت تھی؟ آئی بی نے جے آئی ٹی ارکان کے فون ٹیپ کیے۔ وزیراعظم نے ان ٹیپس کی بنیاد پر آرمی کی اعلیٰ قیادت سے کہا ’’میں آپ کا سپریم کمانڈر ہوں‘ آپ کے ہوتے ہوئے میرے خلاف سازش ہو رہی ہے‘ آپ ان لوگوں کو روکیں‘‘میاں نواز شریف کو یہ کرنے اور کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ تاہم جاوید چوہدری نے وضاحت نہیں کی کہ جے آئی ٹی ارکان کی ان فون کالز میں ایسا کیا تھا جسے سابق وزیر اعظم نے سازش سے تعبیر کیا۔ نیز یہ کہ کیا میاں نواز شریف کا عسکری قیادت سے یہ مطالبہ خلاف قانون تھا کہ ماتحت عسکری افسروں کو سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے سے روکا جائے۔

جاوید چوہدری  نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں فوج کی ہر سمری اور ہر فائل روک لی جاتی تھی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی فائلیں اپنی میز پر رکھ لیتے تھے۔ فوجی جنرل فنانس سیکریٹری کو روز فون کرتے تھے اور سیکریٹری کی طرف سے روز ’’صاحب کا انتظار کر رہے ہیں‘‘ کا جواب آتا تھا‘جاوید چوہدری  سول حکومت کے اس رویے کو قابل اعتراض اور غیرضروری قرار دیتے ہیں۔ جاوید چوہدری نے سوال اٹھایا ہے کہ وزیراعظم کو فوج کے مخالفین کو اپنے گرد جمع کرنے کی بھی کیا ضرورت تھی؟ تاہم جاوید چوہدری  نے اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ فوج کے مخالفین کون تھے اور یہ کہ وہ کس بنیاد یا مفاد کی بنا پر فوج کے مخالف تھے یا مخالف سمجھے جا رہے تھے۔

جاوید چوہدری  نے دعویٰ کیا ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ جمہوریت پسند تھے۔ میاں نواز شریف کو ان سے ٹکرانے کی کیا ضرورت تھی؟ تاہم جاوید چوہدری نے یہ نہیں بتایا کہ نواز شریف نے تو جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو فوج کی قیادت کے لئے منتخب کیا تھا۔ نیز یہ کہ ان جنرلز کا جمہوریت نواز ہونا کوئی خوبی نہیں بلکہ ان کی منصبی ذمہ داری تھی۔ پاکستان کے مایہ ناز صحافی جاوید چوہدری نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ حکومت کے سربراہ اور اس کے ایک ماتحت محکمے فوج کے سربراہ میں اختلاف رائے کی صورت میں ہر مرتبہ ذمہ داری سربراہ حکومت ہی پر کیوں عاید ہوتی ہے؟

جاوید چوہدری کی رائے ہے کہ میاں نواز شریف کو چپ چاپ کام کرنا اور پرفارم کرنا چاہیے تھا۔ نواز شریف نے جو اختیار 2014ء میں حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی وہ انہیں کو 2019ء یا 2020ء میں خود بخود مل جاتا اور وہ حقیقتاً طیب اردگان بن جاتے۔ ملک کے معروف صحافی جاوید چوہدری نے یہ نہیں بتایا کہ میاں نواز شریف کو 2019ء یا 2020ء میں کونسا اختیار مل سکتا تھا؟ انہوں نے یہ وضاحت بھی نہین کی کہ جو قوتیں 2014 میں انہیں مذکورہ اختیار دینے پر آمادہ نہیں تھیں، وہ  2019ء یا 2020ء میں ایسا کرنے پر آمادہ کیوں ہوتیں۔ جاوید چوہدری نے طیب اردگان کی کس خوبی کی بنیاد پر میاں نواز شریف کے لئے مذکورہ ممکنہ عزت افزائی کی پیش گوئی کی ہے جب کہ طیب اردگان کو ترکی میں ایک ایسا مطلق العنان حکمران سمجھا جاتا ہے جس نے اپنے سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔

اپنے تجزیے کے اختتامی حصے میں جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ وہ دل سے میاں نواز شریف کو موجودہ حالات کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ میاں نواز شریف اپنی حکومت‘ اپنی پارٹی‘ اپنے خاندان اور اپنے ملک کو لے کر بیٹھ گئے یعنی سب کا بیڑا غرق کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).