چور بیوروکریسی اور پاکستان


کویتی وفد اقتصادی امور پر وزیراعظم سے مذاکرات میں مصروف تھا جب اس کا پرس اور بیگ چوری ہو گیا۔ وفد اپنے اقتصادی معاملات طے کر رہا تھا، چور اپنے اقتصادی حالات درست کر رہا تھا۔ ایک اپنے ملک کی ترقی کے لئے مصروف عمل تھا تو دوسرا اپنی ذاتی پسماندگی کا علاج کر رہا تھا۔ چور شاید پکڑا گیا۔ سی سی ٹی نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا لیکن حکومت اس معاملے کی تحقیقات کرا رہی ہے۔ انکوئری ہو گی۔ کمیشن بنے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اس میں نواز شریف کی سازش نظر آ رہی ہے۔ یہ ایک بڑے افسر کا کارنامہ بتایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے بڑا افسر بڑا کارنامہ ہی کرے گا۔ لیکن ابھی یہ قبل از وقت ہے۔ جب تک اس واقعے کی انکوائری رپورٹ سامنے نہیں آتی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عین ممکن ہے کسی چھوٹے ملازم نے بڑے افسر کا ماسک پہن لیا ہو۔ فلموں میں اس طرح کی چوریاں ہیرو یا ہیروئن کو ذلیل کرانے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ بھلا اتنا بڑا افسر اتنی چھوٹی حرکت کیسے کر سکتا ہے۔

پاکستان کی بیوروکریسی ذہین ترین افرد پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ لوگ مقابلے کا امتحان پاس کرتے ہیں۔ لاکھوں میں سے چند سو افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ پھر ان میں سے قابل ترین افراد ڈی ایم جی میں آتے ہیں۔ ابتدائی طور پر کئی ماہ کی تربئیت میں ان کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ وہ معاشرے کے سب سے اہم افراد ہیں۔ یہ لوگ گریڈ 17 سے ترقی کرتے 22 گریڈ تک جاتے ہیں۔ معاشرے کے ان سے زیادہ ذہین طبقہ ڈاکٹر اور انجینئر مر کے گریڈ 20 تک ترقی کر سکتے ہیں۔ تمام اضلاع میں ان سے زیادہ پڑھے لکھے اور زیادہ تعلیم یافتہ افراد ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔

ذاتی طور پر کئی سال بطور ضلعی افسر صحت، بطور ایم ایس کتنے سارے ڈی سی اوز کے ساتھ کام کیا ہے۔ نئے نئے ڈی سی او لگ کر آتے، کئی مہینے ان کو محکمہ صحت کی ورکنگ سمجھانی پڑتی باقی کے دن وہ ہماری دھلائی کرتے۔ بہت اچھے کام کرنے والے اپنے کام سے کام رکھنے والے افسر بھی دیکھے مگر زیادہ تر فرعون اور گھمنڈی اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے۔ ہمیں ایمانداری کا پیغمبرانہ درس دینے والے اور خود چوری کے تمام کھلے اور پوشیدہ راستے اختیار کرنے والے۔

پاکستان بنتے ہی بیوروکریسی نے ملک کے اعلی انتظامی عہدوں پر ایسے پنجے گاڑے کہ اب تک ہم اس کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہماری بدقسمتی کا آغاز قائد اعظم کی وفات کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ لیاقت علی خان کے سر عام قتل نے اس میں مزید اضافہ کردیا۔ اصل مصیبت کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک بیوروکریٹ غلام محمد پاکستان کا گورنر جنرل بن گیا۔ اس نے کئی سال ملک کو رگڑا لگایا۔ آئین نہیں بننے دیا۔ حکومتوں کو مضبوط نہیں ہونے دیا۔ حتیٰ کہ بیماری کی حالت میں بھی کرسی نہیں چھوڑی۔ انہیں فالج ہو گیا۔ دماغ نے کام کرنا بند کر دیا زبان لڑ کھڑا گئی مگر حکومت مضبوطی سے تھامے رکھی۔ امور مملکت ان کی انگریز نرس چلاتی رہی جو ان کے اشارے سمجھتی تھی۔ فائیل ورک بھی وہی کرتی۔

کہتے ہیں ملک کی تقدیر کے کئی فیصلوں پر اسی انگریز نرس نے گورنر جنرل کے دستخط فرمائے۔ موصوف نے مر کے ہی پاکستان کو اپنی قید سے آزاد کیا۔ ایک اور بیوروکریٹ جو پاکستان کے وزیر خزانہ بھی رہے۔ ملک کو قرضوں کی لعنت میں دھکیلنے کے مرتکب قرار پائے۔ ہماری بدقسمتی سے ملک کے با اختیار صدر بن گئے۔ غلام اسحاق خان نے پہلے بے نظیر اسمبلی توڑی اور حکومت کو چلتا کیا۔ دوسری بار نواز شریف کو گھر کا راستہ دکھایا۔ دونوں حکومتوں پر الزام ایک ہی تھا کرپشن کرپشن۔ خود حکومت نہیں چھوڑی چھٹی پر چلے گئے۔ خود ہی چھٹی لکھی خود ہی منظور کر لی۔ جیسے ایوب خان خود ہی فیلڈ مارشل بن بیٹھے تھے۔ بے نظیر نے اپنے دوسرے دور حکومت میں پھر ایک سابقہ بیوروکریٹ فاروق لغاری جو ان کی اپنی پارٹی کا خاص آدمی تھا صدر مملکت بنا دیا۔ باختیار صدر بنتے ہی اس میں بیوروکریسی والی سابقہ روح لوٹ آئی۔ اپنی ہی حکومت کو بر طرف کرڈالا۔

مشرف دور میں ضلعی حکومتیں بنیں تو ان کو ڈی سی اوز لگایا گیا۔ اربوں کے بجٹ ان کے ہاتھ آئے ان کا کبھی آڈٹ نہیں ہوا۔ نام نہاد آڈٹ رپورٹ بنا کرتی جن میں صحت تعلیم اور دوسرے محکموں کے آڈٹ پیرے ان ہی کی مرضی سے بنتے۔ پولیس کے ضلعی سربراہ ڈی پی او کسی کے سامنے بھی جواب دہ نہیں تھے ابھی بھی ایسے ہی ہے۔ تھانوں میں جونئیر سب انسپکٹرز کو ایس ایچ او اس لئے لگایا جاتا ہے کہ ان کی سالانہ ترقی ڈی پی او کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ایک انسپکٹر آٹھ سال تک بغیر کسی پوسٹنگ کے لائین میں پڑا رہا۔ اس کے پاس سفارش اور پیسہ نہیں تھا۔ اور وہ ناجائز کمائی کر کے ڈی پی او کو خوش نہیں کر سکتا تھا۔ تھانے باقاعدہ بکتے تھے اور جس تھانے کی حدود میں کرائم زیادہ ہوتا اس کے ریٹ بھی زیادہ ہوتے۔ تحصیلدار بوریاں بھر کر پیسے لے جاتے۔ سولہویں سکیل کے تحصیلدار اور ایس ایچ او کے پاس نئی ٹیوٹا گاڑی ہوگی اور ان کے بچے مہنگے سکولوں میں پڑھتے ہوں گے تو کیا وہ اپنی تنخواہ پر گزارا کر رہے ہوں گے۔ اگر وہ اپنی تنخواہ پر چلیں تو موٹر سائیکل بھی رکھنی مشکل ہو جائے۔

ملک میں احتساب کا کوئی بھی ایسا نظام موجود نہیں جو شفاف طریقے سے کرپشن کو روک سکے اور کرپٹ لوگوں کو سزا دلواسکے۔ مرکز میں نیب موجود ہے لیکن اس کا بنیادی نظریہ ہی کرپشن ختم کرنا یا کرپٹ کو سزا دلوانا نہیں۔ اس کو بناتے ہوئے یہ قانون بنایا گیا تھا کہ اس کے ذریعے لوٹی دولت کا کچھ حصہ واپس لایا جا سکے۔ چنانچہ اس قانون پلی بارگین کے ذریعے جو چور پکڑے گئے وہ چوری کے مال کا کچھ حصہ دے کر بچ گئے اور باقی پیسوں سے عزت اور چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دوسرا نیب کے ذریعے مخالف سیاستدانوں کو سدھانے کا کام لیا گیا۔ یوں امور مملکت سکون سے چلانے اور ہر دور کی موجود حکومت کو سکون سے کرپشن کرنے کا موقع دیا گیا۔

پنجاب میں انٹی کرپشن کا ایک ادارہ کروڑوں روپے کے اخراجات کا باعث تو بنا مگر پٹواریوں اور کلرکوں کے سوا ان کو کوئی فرد کرپٹ نہیں ملا۔ آج تک کوئی ڈی سی او کوئی ڈی پی او کرپشن میں نہیں پکڑے گئے۔ یہ سارے آب زم زم میں نہائے ہوئے ہیں۔ پکڑے جاتے ہیں تو محکمہ تعلیم، صحت کے افسر اورکلرک یا پٹواری۔ ڈی ایم جی کے چھوٹے سے چھوٹے سیکشن افسر سے لے کر ڈی سی، کمشنر اور وفاقی سیکر ٹری تک سب نیک پاک لوگ ہیں۔ عمران خان نے بھی ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ آپ اپنا کام کرتے رہیں۔ نیب بھی آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔ میں نے چیرمین نیب سے بات کر لی ہے۔ وہ آپ پر ہاتھ ہولا رکھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).