سینئر صوبائی وزیر صاحب میں آپ سے مخاطب ہوں


راقم ہی نہیں عرصے بعد کسی کا بھی جانا اگر چک شہزاد کے راستے ایک پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کی طرف راستے پہ جانا ہو تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ راستہ کس قدر شاندار اور وسیع ہو گیا ہے۔ گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی جاتی ہے۔ ایک دور تھا جب اس راستے کی قسمت ابھی نہیں جاگی تھی تو تنگ اور چھوٹی سی سڑک تھی۔ اب وہ دور گزر چکا ہے۔ کئی کلومیٹر طویل شاہراہ ہے وہ بھی دو رویہ اور بنا کسی مسئلے اور پریشانی کے۔ اسی پرائیویٹ سوسائٹی سے کچھ پہلے ایک چھوٹی سی ٹوٹی پھوٹی سڑک دائیں مڑتی ہے جسے عام طور پر ملوٹ روڈ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔

یہ بھی خستہ حال سڑک تھی لیکن خوشگوار حیرت نے یہاں بھی دامن نہ چھوڑا کہ سڑک اب بھی چھوٹی ہی سہی لیکن کارپٹ روڈ، حیرانی کیوں نہ ہو گاؤں کی طرف جاتی ہوئی یہ چھوٹی سی سڑک کیوں بھلا خوش قسمت ٹھہری۔ کہ نہ صرف کارپٹ بلکہ دونوں طرف زرد لکیر اور درمیان میں سفید حاشیہ کہ جیسے کوئی بھی عالمی معیار کی سڑک ہو۔ ابھی اسی خوش فہمی میں سڑک کی تعریف کرنے پہ دل مائل ہی ہوتا ہے اور چند کلومیٹر کا فاصلہ گزرتا ہے تو ایک دم گاڑی کو جھٹکا لگتا ہے۔ کارپٹ روڈ ایک دم سے ختم ہو جاتا ہے۔ اور کھڈے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور یہ کھڈے آگے جا کے ایک کنکریٹ کی سڑک سے جا ملتے ہیں جو کنکریٹ ہونے کے باوجود اتنی اچھی نہیں۔ حیرانی تو یقیناًہونا تھی کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ اچھی بھلی کارپٹ روڈ ایک دم سے پرانی روڈ میں دوبارہ سے ڈھل گئی۔ روڈ تو مکمل ایک ہی ہے پھر یہ ادھورا کام کیسے ہوا۔

ارئے بھائی صاحب اپنا فائدہ یہاں تک ہی تھا وہ سامنے دیکھیے، میرے ساتھ موجود صاحب نے مسکراتے ہوئے توجہ دلائی۔ ” پارک ویو“ کا دیو قامت بورڈ پہاڑی پہ آویزاں تھا۔ میں کچھ ناسمجھی میں حیران ہوا تو وہ گویا ہوئے، دیکھیں بھئی، یہ جو آپ پارک ویو کا بورڈ دیکھ رہے ہیں نا یہ اس مضافاتی علاقے میں بننے والی ایک بہت بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے۔ اور اس سوسائٹی کے روح رواں موجودہ سینئر صوبائی وزیر ہیں (نام شاید بہت سے تو جان گئے ہوں گے نہیں جان سکے تو جاننے کی کوشش کیجیے، اور اگر یہ سینئر صوبائی وزیر اس سوسائٹی کے روح رواں نہیں ہیں تو میرا مخاطب وہ ہیں جو اصل میں روح رواں ہیں)۔ اور یہاں تک انہوں نے یہ علاقائی روڈ خود کارپٹ کروائی ہے۔

میں ابھی ان کے روڈ ٹھیک کروانے کے فیصلے پہ توصیفی جملے ادا کرنے ہی والا تھا کہ وہ صاحب پھر گویا ہوئے، اور انہوں نے یہ سڑک پکی تو کروا دی ہے لیکن وہاں تک ہی جہاں تک ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کا داخلی دروازہ ہے۔ اس سے آگے انہوں نے یہ خدمت خلق چھوڑ دی ہے۔ کیوں کہ جہاں تک ان کی سوسائٹی کو فائدہ ہو سکتا تھا وہاں تک روڈ چنگی بھلی کروا دی گئی ہے کہ ان کی سوسائٹی کا وزٹ کرنے والے کلائنٹ پہ اثر مثبت پڑئے اور اس سے آگے آدھا کلومیٹر سے بھی کم حصہ سڑک کا اس لیے ان صاحب کی توجہ کا حقدار نہ ٹھہر سکا کہ اس سے آگے ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کی حد ختم ہو گئی تھی۔

مجھے جو خوشگوار حیرت ایک مضافاتی علاقے کی اتنی اچھی سڑک دیکھ کر ہو رہی تھی وہ لمحوں میں اُڑ گئی اور اس کی جگہ دکھ اور افسوس نے لے لی کہ ہم کس قدر خود غرض ہیں۔ ہم اپنے فائدے کے لیے کیسے کیسے فضول فیصلے کر گزرتے ہیں۔ اب اس فیصلے کو ہی دیکھ لیجیے۔ کہ جہاں تک اپنا فائدہ تھا ہمارے ان تجربہ کار سیاستدان نے نہ صرف روڈ کو کارپٹ کروا دیا بلکہ جدید سہولیات سے بھی آراستہ کر دیا اور جہاں اپنے مفادات پورے ہو گئے اُس سے آگے چند فٹ کا سڑک کا ٹکڑا بھی ہماری توجہ نہ پا سکا۔ جو سڑک نئی بنی ہے اس کا کریڈٹ بھی اس علاقے کے عوام ان موصوف کو ہی دیتے ہیں اور جو چھوٹا سا ٹکڑا ٹوٹا پھوٹا ہے اس پہ لعن طعن بھی ان ہی صاحب کو کرتے ہیں۔

عرض صرف اتنی سی ہے کہ جناب آپ کے لیے فرق نہیں پڑتا لیکن آپ اگر وہ چھوٹا سا بچ جانے والا ٹکڑا بھی نیا بنوا دیتے تو علاقے کے لوگوں کی کچھ بہتری ہو جاتی لیکن آپ یہ سوسائٹی جب امراء، روؤسا، اشرافیہ کے لیے بنا رہے ہیں تو آپ کو علاقے کے لوگوں کی کیا پرواہ اور شاید آپ کے مستقبل کے لے آؤٹ پلان میں یہ علاقے کے مکین موجود ہی نہ ہوں۔ لیکن ان سینئر صوبائی وزیر صاحب سے بطور خاص مخاطب ہوں کہ اپنے بڑے ہونے کا ثبوت دیجیے۔ اور یہ چند فٹ کا بچ جانے والا ٹکڑا بھی نیا بنوا دیجیے۔ کہ اربوں روپے خرچ کر کے سوسائٹی بنا رہے ہیں تو وہاں نظر کرم بے چارے عوام پہ بھی ہو گئی تو کوئی حرج تو ہے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).