کالا باغ ڈیم اور بجلی نکلنے کے بعد مرا ہوا پانی


آج کل کے ترقی یافتہ دور میں ڈیموں کی ضرورت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ڈیم پوری دنیا میں سستی بجلی پیدا کرنے، آب پاشی کے لئے پانی ذخیرہ کرنے اور سیلابوں کے نقصانات کو کسی حد تک کم کرنے کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیرایک عرصے تک کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی جس کا خمیازہ شاید ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کچھ ماہ پہلے اس جانب توجہ مبذول کرائی اور ملک میں فوری طور پر دو ڈیموں کی تعمیر کا فیصلہ کر لیا گیا اور اس مقصد کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان اور حکومتِ پاکستان دونوں نے ڈیم فنڈ اکاونٹ بنا دیے ہیں جن میں پاکستانی عوام نہایت جوش و جذبے سے عطیات دے رہی ہے۔ اور قوم کا یہ جذبہ نہایت ہی قابلِ تحسین ہے۔ گو کہ کچھ حلقوں کی جانب سے اس پہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ چندوں سے ڈیم نہیں بنائے جاسکتے لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم اگر ٹھان لے تو یہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ بہرحال ہمارا آج کا موضوع کچھ مختلف ہے۔ اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ میں نہ تو کوئی ارضیاتی ماہر ہوں اور نہ ہی ڈیم انجنیئر۔ اپنی تحقیق اورناقص علم کی مدد سے ایک زاویہ سوچ اپنے علمی قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ ضروری نہیں کہ میری ناقص رائے مذکورہ بالا علوم کی روشنی میں من وعن درست ہو۔

حکومت نے فوری طور پہ جس ڈیم کے منصوبے پہ آغاز کرنے کا عندیہ دیا ہے وہ ہے وہ ہے دیا میر بھاشا ڈیم۔ لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا یہ منصوبہ ہمارے مطلوبہ تمام اہداف کو حاصل بھی کر سکے گا یا نہیں۔ سب سے پہلے آتے ہیں اس کی تعمیر کی طرف۔ دیامیر بھاشا ڈیم جس علاقے میں تعمیر ہونا ہے اس کے بارے میں ارضیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ علاقہ ”یوریشین‘‘ اور ”انڈین‘‘ ٹیکٹانک پلیٹوں کے سنگم پہ واقع ہے جہاں پہ کسی بھی وقت ارضیاتی تبدیلی کے نتیجے میں زلزلے کی صورت میں ڈیم ٹوٹ سکتا ہے اور اس کے ٹوٹنے کے نتیجے میں زیریں علاقے کو ناقابلِ تلافی نقصانات اٹھانے ہوں گے۔

علاوہ ازیں اس ڈیم کی سائٹ ایک دشوار گزار علاقے میں واقع ہے۔ ڈیم کی تعمیر کے لئے بھاری مشنری درکار ہوتی ہے جس کو وہاں تک پہنچانے کے لئے بہت زیادہ مشکلات ہیں۔ اور اس کی تعمیر2025سے پہلے کسی صورت ممکن نہیں۔ اس کی بہ نسبت کالاباغ ڈیم کی سائٹ جہاں واقع ہے وہ جگہ ایک تو شدید ارضیاتی تبدیلیوں کے علاقے سے دور ہے اور اس کے علاوہ ایسے علاقے میں واقع ہے جو نسبتاًکم دشوار گزار ہے اور وہاں بھاری مشنری کو آسانی سے ڈیم کی سائٹ پہ پہنچانے کے لئے درکارانفراسٹرکچر بھی موجود ہے۔ اور مشنری کو نسبتاً کم اخراجات اور وسائل میں ڈیم تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دیامیربھاشا ڈیم بننے کی صورت میں شاہراہِ قراقرم کا ایک بہت بڑا اور دشوار گزار حصہ ڈوب جائے گا اور اسے نئے سرے سے تعمیر کرنا پڑے گا۔ جبکہ کالاباغ ڈیم کی وجہ سے اول تو کسی انفراسٹرکچرکو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچے گا اور اگر ہوا بھی تو اس انفراسٹرکچر کی دوبارہ تعمیر پہ نیم پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے بہت کم اخراجات آئیں گے۔

ڈیموں کا ایک بڑا مقصد ہائیڈل پاور کے ذریعے سے سستی بجلی پیدا کرنا ہے۔ اگر دیامیر بھاشا ڈیم بن جاتا ہے تو وہاں سے پیدا ہونے والی بجلی کو نیشنل گرڈ تک لانے کے لئے نہایت طویل ٹرانسمیشن لائن دشوار گزار پہاڑوں کے اوپر سے گزار کے لانے کے لئے ایک کثیر رقم درکار ہوگی اور چلیں کسی نہ کسی طرح یہ ٹرانسمیشن لائن بن بھی جائے تو اس کی دیکھ بھال کے لئے بھی اچھے خاصے اخراجات درکار ہوں گے۔ اس کے علاوہ ٹرانسمیشن لائن زیادہ بلندی پہ ہونے کی وجہ سے آسمانی بجلی کے خطرات سے بھی دوچار رہے گی۔ اس کی بہ نسبت کالاباغ ڈیم بننے کی صورت میں وہاں سے پیداشدہ بجلی کو نہایت ہی کم دشوار گزرا علاقے سے گزار کے نسبتاً بہت کم اخراجات میں نیشنل گرڈ سے ملایا جا سکتا ہے کیونکہ کالا باغ ڈیم دیا میر بھاشا ڈیم کی بہ نسبت نیشنل گرڈ کے زیادہ قریب ہے۔ اور نیم پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے ٹرانسمیشن لائن کو موسمیاتی عوامل سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔

ڈیموں کا تیسرا بڑا مقصد سیلابی پانی کو کنٹرول کر کے سیلابوں کے نقصانات سے بچنا اور بعد میں اس پانی کو ضرورت کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ اگر دیامیر بھاشا ڈیم بنتا ہے تو اس مقصد کو مکمل طور پہ حاصل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ڈیم سے نیچے کے باقی علاقے اور دریائے کابل کے پانی پہ کنٹرول حاصل نہیں کیا جا سکتا لیکن کالاباغ ڈیم کی سائٹ قدرتی طور پہ ایسی جگہ پہ واقع ہے کہ اگر وہاں ڈیم بن جاتا ہے تو زیادہ سے زیادہ علاقے اور دریائے کابل کے سیلابی پانی کو کالاباغ ڈیم کے ذریعے سے کنٹرول کر کے زیریں علاقوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جا سکتا ہے اور اس سیلابی پانی کو ضایع ہو کے سمندر میں گرنے سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔ اور بعد میں بوقتِ ضرورت استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اگر باقی دریاوں کے سیلابی پانی کو میدانی علاقوں سے گزرنے کی وجہ سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا لیکن دریائے سندھ اوردریائے کابل کے بہاؤ سے منسلک علاقوں کے سیلابی پانی کو کالا باغ ڈیم کے ذریعے موثر طور پہ کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

لیکن ہماری بد قسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ بغیر کسی معقول وجہ کے کالاباغ جیسے عظیم منصوبے کو سیاست کی نذر کر دیا گیا ہے۔ اور خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور سندھ کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار محض اپنی سیاست چمکانے کے لئے کیا جاتا ہے ان کا سرے سے کوئی مدلل وجود ہی نہیں ہے۔ سندھ کی حالت آپ کو سناوں تو اپ حیران رہ جائیں گے یا میری دماغی حالت پہ شک کریں گے لیکن میں سندھ کے مختلف علاقوں میں کام کے سلسلے میں رہا ہوں اور وہاں کے عام لوگوں سے اس پہ ایسے ایسے لطیفے سنے ہیں کہ ان کی سادگی پہ ترس آتا ہے۔ وہاں عام لوگوں میں دو قسم کی رائے پائی جاتی ہے۔ ایک یہ کہ اگر کالا باغ ڈیم بنے گا تو پنجاب ڈیم کے پانی سے ساری بجلی نکال لے گا اور مرا ہوا پانی سندھ کو دے دے گا۔ جس میں سے ساری طاقت نکل چکی ہو گی تو وہ فصلوں کو کیا فائدہ دے گا۔ اورایک اور طبقے کی رائے ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو اس سے نیچے پانی آئے گا ہی نہیں اور نتیجے میں بقیہ دریائے سندھ خشک ہو جائے گا۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ پانی سے بجلی کیسے پیدا کی جاتی ہے اور نہ ہی ڈیم میں اتنی گنجائش اور طاقت ہوتی ہے کہ وہ اتنا بڑا ہو کہ وہ سارا سال پانی کو روک سکے۔ ظاہر ہے ڈیم کی ایک مخصوص گنجائش ہوتی ہے اس سے زیادہ پانی کو اس میں کسی طور بھی نہیں روکا جا سکتا۔ خیبرپختونخواہ کو خطرہ ہے کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ لیکن ڈیم کے موجودہ ڈیزائن کے تحت ڈیم کی ”ٹیل‘‘ نوشہرہ شہر سے بیس کلومیٹردور مشرق میں دریائے کابل میں ہوگی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلہ میں سنجیدہ کوششیں کر کے حکومت تمام صوبوں میں عوام اور پاکستان کے روشن مستقبل کی خاطر اتفاقِ رائے پیدا کرے۔ حکومت سب سے پہلے کالاباغ ڈیم کے اس نہایت کم خرچ اور بہت جلد مکمل ہو سکنے والے منصوبے پہ کام کا آغاز کرے۔ بالائی اور دشوار گزار علاقوں میں ڈیم بعد میں بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ منصوبہ ایک مرتبہ رہ گیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments