مجھے گینگ ریپ کیا گیا حتیٰ کہ میں بے ہوش ہو گئی: نوبل انعام یافتہ نادیہ مراد نے اقوام متحدہ کو کیا بتایا


2018ء مین امن کا نوبل انعام پانے والی نایہ مراد طحہٰ کے لئے داعش کی جہنم سے نکل کر آزاد فضاؤں میں سانس لینے تک کا سفر کچھ ایسا آسان بھی نہ تھا۔  اجتماعی زیادتی، جسمانی تشدد اور پھر جنسی غلام بنا کر بار بار فروخت ہونے کے عمل نے انسان ہونے کا احساس ختم کر دیاتھا۔ انسان نما درندوں کے چنگل سے فرار ہونے کے بعد نادیہ مراد نے عالمی برادری کا ضمیر جگانے اور دنیا کو داعش کی بہیمیت سے آگاہ کرنے کا تہیہ کیا۔

جرمنی میں سیاسی پناہ ملنے کے بعد نادیہ کی ملاقات انسانی حقوق کی کارکن اور معروف لبنانی نژاد برطانوی بیرسٹر امل کلونی سے ہوئی اور امل نے دنیا کو اس جرات مند لڑکی سے متعارف کرایا۔ عراق کی پرامن ایزدی (یزدی) برادری سے تعلق رکھنے والی نادیہ کو دسمبر 2015 میں اقوام متحدہ نے انسانی تجارت کا شکار بننے والے افراد کے لیے خیرسگالی سفیر مقررکیا تھا۔  اب نادیہ انسانی سمگلنگ سے متاثرہ لوگوں کی عزت اور وقار کی بحالی کے لیے عالمی سطح پر کام کر رہی ہے اور انہیں انصاف دلانے کے لیے تعاون فراہم کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ظلم سہنے والے کسی فرد کو اس عہدے پر فائز کیا گیا۔ 25 سالہ نادیہ کو داعش کے درندوں کے ظلم سہنے اور پھر مظلوم لوگوں کے حق کے لیے جدوجہد کرنے پر امن کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کیا گیا۔ دسمبر 2015 میں سلامتی کونسل نے پہلی دفعہ انسانی سمگلنگ کے موضوع پر اجلاس منعقد کیا جس میں نادیہ نے عالمی رہنماؤں کو بریفنگ دی۔ ستمبر 2016 میں نادیہ کو آزادی خیال کے سخاروف پرائز کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔ ٹائم جریدے نے نادیہ کو 2016 کے 100 بااثر افراد میں شمار کیا تاکہ اس کی جدوجہد کو دنیا کے سامنے آشکار کیا جا سکے۔ نادیہ نے متعدد ریاستی و حکومتی سربراہان سے ملاقات کی اور انہیں ایزدی برادری کی حالت زار کے متعلق آگاہ کیا۔

برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے جب عراق پر حملہ کیا تو نادیہ مراد 8 سال کی تھی۔  مشرق وسطیٰ میں نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم کو سمجھے بغیر کیے گئے اس حملے نے نادیہ کے ملک کو انتہائی غیر مستحکم کر دیا جس کے نتیجے میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو جڑ پکڑنے کے مواقع میسر آئے اور اس نے خون کی ندیاں بہا دیں۔ عراق پر حملے کے نتائج سے آگاہی اورجرم کے احساس کے لیے ٹونی بلیئر کو نادیہ مراد سے ملاقات کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ ان کے غلط اقدام کے اثرات کتنے بھیانک ہیں۔  اگست 2014 ء کا وہ خوفناک دن آج بھی نادیہ کی یادداشت پر نقش ہے جب داعش نے عراق کے شمالی علاقے سنجار کے گاؤں کوچو پر حملہ کیا جہاں ایزدی سکون سے رہ رہے تھے۔  دہشت گردوں نے گاؤں کے تمام مردوں کو قتل کر دیا اور تقریباً 3200 عورتوں اور ننھی بچیوں کو اپنے گڑھ موصل لے گئے۔  نادیہ کے 6 بھائی اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیے گئے اور اسے اس کی دو بہنوں اور بھتیجیوں کے ساتھ یرغمال بنا لیا گیا۔ داعش نے سنجار پر قبضہ کر لیا اور 5 ہزار ایزدیوں کا قتل عام کیا۔ 50 ہزار سے زائد ایزدیوں نے بھاگ کر کوہ سنجار پر پناہ لی۔ موصل میں دہشت گردوں نے ان خواتین اور بچیوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، کچھ کو فروخت کیا گیا جبکہ کچھ کو تحفتاً ایک دوسرے کو دے دیا گیا۔ نادیہ نے تین ماہ جنسی غلامی میں گزارے جہاں اسے کئی ہاتھوں میں بیچا گیا، پھر وہ اپنی ہی طرح مصیبت کے شکار ایک خاندان کی مدد سے فرار ہوئی اور عراق میں کردوں کے علاقے دھوک میں موجود پناہ گزین کیمپ چلی گئی، جہاں سے اس نے دیگر تارکین وطن کے ساتھ جرمنی کے لیے رخت سفر باندھا اور سٹٹ گارٹ شہر پہنچی جہاں اب وہ رہائش پذیر ہے۔

دسمبر 2015 میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں سفیر مقرر کرنے کی تقریب میں نادیہ مراد انتہائی جذباتی دکھائی دی۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ داعش نے ایزدی برادری کی نسل کشی کی ہے۔  خواتین کو جنسی غلام بنا کر فروخت کیا گیا جن میں سے کئی تو آزادی کی آس دل میں لیے جنسی قیدخانوں میں ہی مر گئیں جبکہ سینکڑوں ابھی تک داعش کے قبضے میں ہیں۔ اس نے عالمی ضمیر کو کچوکے لگائے کہ انسانی سمگلنگ کے خلاف اقدامات ناگزیر ہیں جن سے فرار ممکن نہیں۔ انصاف ان مظلوموں کا حق ہے جو انہیں ملنا چاہیے۔ یہ لوگ دنیا کو تبدیل کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔  تقریب میں اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نادیہ نے ہولناک مظالم سہے ہیں، میں اس کی کہانی سن کر رو پڑا تھا، لیکن میں صرف شدت غم سے نہیں رویا بلکہ میری آنکھوں میں اس وجہ سے بھی آنسو آئے کہ نادیہ میں بہت زیادہ جرات،حوصلہ اور وقار ہے۔ اس نے ایسی دنیا کے لیے آواز بلند کی ہے جہاں تمام بچے امن اور سکون سے رہیں۔

نادیہ مراد آج بھی اس وقت کی منتظر ہے جب وہ اپنے گاؤں جائے گی جہاں سب مل جل کر امن سے رہتے تھے۔ روایتی طور پر چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں رہنے والے ایزدی توجہ کے طالب نہیں ہیں۔  اسی خطے کی دیگر اقلیتی برادری دروز کی طرح ایزدیوں نے بھی اپنے آپ کو ایک خول میں بند کر رکھا ہے، یہ لوگ باہر سے کسی کو اپنی برادری میں شامل نہیں کرتے۔  صدیوں سے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے ایزدیوں نے اپنا عقیدہ ترک نہیں کیا، آج بھی ان کا اپنے اندرون کی جانب سفر جاری و ساری ہے۔  سنجارکےدور افتادہ دیہات میں خاموش زندگی بسر کرنے والے نادیہ کے ہم نسل ایزدی اپنے گھروں کو لوٹنے کی چاہ میں آج بھی کوہ سنجار کی چوٹیوں پر تڑپ رہے ہیں۔ شاید یزداں کی جانب سے کسی صدائے غیب کے انتظار میں۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).