اولمپک لیول کے ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچائیے


یہ سوچنا کافی دشوار ہے کہ کیسے جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں سے پاکستان کا بہترین اتھیلٹ بغیر کسی ٹریننگ کے تیار ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر جب وسائل بھی نہ ہونے کے برابر ہوں اور آپ کا تعلق بھی ایک غریب گھرانے سے ہو۔ اس سب کے باوجودیہ سب ممکن ہوا۔

جنوبی پنجاب کے چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ندیم محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتارہا، وہ اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ مزدوری میں شریک رکھتا تھا۔ ندیم کا بیٹا ارشد کرکٹ، ہائی جمپ، لانگ جمپ گیمز میں حصہ لیتے لیتے کب جولین تھرو(نیزہ پھینکنا) کا بہترین کھلاڑی بن گیا۔ یہ اب اسے بھی ٹھیک سے یاد نہیں، اسے اگر کچھ یاد ہے تو وہ خوبصورت لوگ جو نامساعد حالات کے باوجود اس کی آگے بڑھنے میں مدد کرتے رہے۔ میاں چنوں کے نواحی گاؤں115L تیلیاں والا کے رہنے والے جولین تھرور(نیزہ پھینکنے والے)ارشد پاکستان کے وہ واحداتھلیٹ جنہوں نے دنیا کے 20 بہترین جونیئرجولین تھروورز میں جگہ بنائی ہے۔ اس کے علاوہ ایشین چیمپئن شپ، ساؤتھ ایشین گیمز اور اسلامک گیمز میں کانسی کے تمغے بھی ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ارشد ندیم کی کامیابیوں کا سفر تحصیل، ضلع، صوبے سے نکل کر عالمی سطح تک پہنچ چکا ہے۔

ارشد نے ساؤتھ ایشین گیمز میں 80۔ 75 میٹر طویل نیزہ پھینک کرقومی ریکارڈ قائم کیا۔ اسلامک گیمز میں ان کی جانب سے جیتا جانے والا برانز میڈل اسلامی ملکوں کی کھیلوں کی تاریخ میں اتھلٹکس کے شعبے میں پاکستان کا پہلا تمغہ ہے۔ ارشد کے خاندان کے مالی حالات کچھ اچھے نہیں تھے۔ وہ ہائی سکول گیا تو وہاں ماسٹر اجمل اور ماسٹر ظفر جیسے اساتذہ نے اس کی لگن کو دیکھتے ہوئے اسے سپورٹ کیا۔ اسے خود موٹر سائیکل پر بٹھا کر مقابلوں میں لے کر جایا کرتے تھے۔ حالانکہ سکول میں اس کھیل کے حوالے سے ٹریننگ کا انتظام تو دورانہیں اس کھیل سے متعلق ٹھیک سے علم بھی نہیں تھا۔

ارشد کے بقول اسے ’وارم اپ‘ کی ٹرم تک سے آگاہی نہ تھی۔ ارشد نے رشید ساقی، فیاض بخاری سمیت اپنے اساتذہ کو مایوس نہیں کیا اور آگے بڑھ کر انٹرنیشنل لیول پر اپنا لوہا منوایا۔ ارشد پنجاب یوتھ فیسٹیول، ضلع اور پھر ڈویژن بھر میں سب سے آگے تھا۔ قومی اتھلیٹکس چیمپئن شپس میں بھی اس کی کارکردگی نمایاں رہی۔ وہ گذشتہ تین سال سے مسلسل جولین تھرومیں قومی چیمپئن بنتا آرہا ہے۔ اولمپکس میں اگر کسی پاکستانی اتھلیٹ نے میڈل حاصل کیا تو وہ ارشد ندیم ہوں گے۔ یہ الفاظ خانیوال اتھلیکٹس ایسوسی ایشن کے صدر رشید احمد ساقی کے ہیں۔ ان کایہ دعوی پورا ہونا بظاہر تو مشکل لگتا ہے لیکن اگر ارشد کی ٹریننگ اچھی طرح سے کروائی جائے تو وہ دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرسکتا ہے۔ ارشد کی جسمانی ساخت بھی ایک بہترین اتھلیٹ جیسی ہے، وہ ابھی صرف 21 برس کا ہے۔ اس کا جذبہ، پرفارمنس اور لگن بتاتی ہے وہ دنیا میں اپنے آپ کو منوا کر ہی دم لے گا۔

صوبائی وزیر کھیل رائے تیمور اور وزیراعلی پنجاب کے معاون خصوصی ملک عمر فاروق ایکٹو ہیں۔ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ میری ان سے گزارش ہے کہ اس نوجوان کے کیس کو ٹیسٹ کیس سمجھ کر اس کا ہاتھ تھامیے اور اسے اولمپکس میں وکٹری سٹینڈ تک لے جائیں‘۔ اس نوجوان نے اپنے ٹیلنٹ کو منوایا ہے اگر اسے بیرون ملک ٹریننگ کے لیے بھیجا جائے تو اولمپکس میں میڈل حاصل کرسکتا ہے۔

اس نوجوان سمیت پنجاب بھر کے مضافات میں ایسے نوجوان موجود ہیں جن کے ٹیلنٹ کو صحیح راہ دکھانے کی ضرورت ہے۔ آگے بڑھیے اور اس ملک کے نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچائیے۔

ارشد کو اس کی محنت آگے لے آئی ہے اب اس محنت کو صحیح سمت میں لگادیجیے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے اگر اس نوجوان کھلاڑی کے لیے اعلی معیار کی کوچنگ اور ٹریننگ کا بندوبست کر لیا جائے توارشدنہ صرف ٹوکیو اولمپکس 2020ء کے کوالیفائی کریں گے بلکہ دو دہائیوں سے اولمپکس میں میڈل کے منتظر پاکستانیوں کی امیدوں پر بھی پورا اترسکتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).