سوشل میڈیا کے مسلم معاشرے پر اثرات


دورِ حاضر میں انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے سب ہی واقف ہیں، جو ہر گھر کی ضرورت بھی ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارے مسلم معاشرے کے اوپر پڑنے والے اثرات پہ اگر میں روشنی ڈالوں تو بلاشبہ اِس کے اپنے فائدے اور نقصان ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت آج دنیا گلوبل ولیج بن گئی۔ اور بتدریج صارفین میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب معلومات کی فراہمی سے لے کر خبروں کی ترسیل بےحد آسان ہوگئی ہے۔ (بشرط یہ کہ صارف صحیح معنوں میں با شعور اور بردبار ہو)

مزید براں، حصولِ علم، تحقیق، تاثرات کا اظہار اور سماجی معاملات بھی نہایت آسان ہوگئے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ کچھ نقصان بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جیسے غلط بیانی، مکر و فریب، سائبرکرائم/بُلینگ، بچوں کا پڑھائی میں توجہ نا ہونا، نیند کا پورا نا ہونا، بچوں کی جسمانی سرگرمیوں میں عدم دلچسپی، میاں بیوی کے مابین خانگی مسائل وغیرہ۔ پہلے کسی کو ہراساں کرنے کے لئے اُس کا روبرو ہونا ضروری تھا۔ مگراب آن لائن طور پر ہراساں اور بلیک میل کیا جاتا ہے۔ پھر نوجوانوں پر اِن تمام چیزوں کے منفی اثرات جیسے خود کشی، رسوائی، انتقامی کارروائی ، جنسی بے راہ روی جیسی بیماریاں نظر آتے ہیں۔ سخت سیکورٹی لگانے کے باوجود ہماری ذاتی معلومات، تصاویر اور ویڈیوز باہر آسکتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی اکثریت اب بھی ٹیکنالوجی کے استعمال سے نا بلد ہے۔ بالخصوص معمر اور کم پڑھے لکھے افراد باآسانی دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں آج کی مقبول ترین مگر فضول ترین ایپس، جو نوجوانوں میں بہت مشہور ہیں۔ جیسے کہ اسنیپ چیٹ، انسٹاگرام، بی گو، ٹِنڈر، ٹِک ٹوک وغیرہ۔ جن کا مقصد تفریح اور شغل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اِس میں ہم کتے اور بلیوں کے فلٹرز لگا کے تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں۔ بھارتی و انگریزی گانوں پہ رقص یا لِپسنک کرتے، یا پھر چند اجنبی مل کر کسی فورم میں گانے بجانے کی محفل سجاتے اورلڑکے لڑکیاں ایک ساتھ مل کر اپنی اداکاری کے جوہر دکھا کر داد وصول کرتے ہیں۔ اور ساتھ اپنی روح کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ اس کا کوئی بھی تعمیراتی پہلو، منطق یا فائدہ مجھے تو نظر نہیں آتا۔ صرف جنسِ مخالف کی واہ واہ سمیٹنے اور ان سے قربت اختیار کرنے کے لئے ہم اپنا قیمتی وقت ان فضولیات میں ضائع کر رہے ہیں۔ جس نے مَحرم غیر مَحرم کا فرق مٹا دیا۔ اچھے اچھے پڑھے لکھے مہذب گھرانے کے افراد کو میں نے اِن بیماریوں میں مبتلا دیکھا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ یہ سب محض داد کی کہانی نہیں۔ در حقیقت ہم کسی نا کسی بہانے جنسِ مخالف سے دوستی کے خواہش مند ہیں۔

تکلف سے بے تکلفی کا سفر طے کرکے اپنی خواہشِ نفس کی تکمیل چاہتے ہیں۔ یاد رہے یہاں بات مسلم معاشرے کی ہو رہی ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے اقدار اور افکار ہرگز نہیں۔
والدین بچوں کو جدید طرز کے گیجٹز دلا کر بری الذمہ ہو گئے۔ اب اُنہیں اِس بات کا ادراک نہیں کہ ان کے اسکول کالج جانے والے کم عمر نا پختہ ذہن کس طرف جا رہے ہیں۔ سیلفیز اور ویڈیوز کا شوق محض داد پانے کے لئے بھی ہوتا تو قبول تھا۔ لیکن پھر دوستی پہ بھروسہ ہو جانے کے بعد ذاتی تفصیلات بھی عام کر دی جاتی ہیں۔ اور پھر وہی ہوتا ہے جو سدا ہوتا آیا ہے۔ مَردوں کا کچھ نہیں جاتا، لیکن حقیقتاً آنچ حوا کی بیٹی پہ آتی ہے۔

لمحۂ فکریہ! موجودہ دور میں ماؤں کے پاس بھی اولاد کی اچھی تربیت کے لئے فرصت نہیں۔ کیوں کہ وہ خود بھی وہی کتے بلی اور پاؤٹ والی تصاویر لینے میں ہمہ وقت مشغول رہتی ہیں۔ اور اولاد سے زیادہ اپنے آن لائن (اہم کام) سرانجام دیے جا رہے ہوتے ہیں۔

یہ ہی حال کچھ میاں بیوی کے رشتے کا بھی ہے۔ یہ دونوں بھی ہاتھ میں موبائل تھامے، پتا ہی نہیں چلتا کب شام سے رات ہوگئی۔ دونوں اپنے اپنے شوق پورے کرتے، مزاج برہم اور ایک دوسرے سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ افراد تو اپنے کالے کرتوت چھپانے کی غرض سے موبائل میں پاسورڈ بھی لگائے رکھتے ہیں۔ جس سے مزید شک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ نتیجتاً نا ختم ہونے والے شکوے شکایت لڑائی جھگڑے، اور اِس طرح فاصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ خاوند حضرات ہی نہیں زوجہ محترمہ بھی کسی سی کم کیوں ہوں۔ وہ بھی اپنے آپ کو طرم خان سمجھتی ہیں۔ اِن کو لگتا ہے کہ فیس بُک پہ لائک کرنے والے مرد حضرات حقیقی زندگی میں بھی اُن کا باقاعدہ ساتھ نبھانے کے اہل ہیں۔ پھر وہ اسی بھرم میں اپنا گھر توڑ نے میں زیادہ دیر نہیں کرتی۔ اور چل پڑتی ہیں ایک سراب کے پیچھے۔ پھر شادی کا وعدہ کرنے اور زمین و آسمان کی قلابیں ملانے والے مرد اکثر اِن سے پیچھا چھڑانے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ کیوں کہ کھیل تماشہ ختم ہوا چاہتا ہے۔ اور اگر اس کھوکھلے تعلق کی بنیاد پر کوئی رشتہ بن بھی جائے تو ناکام۔ اگلے ہی دن وہ شخص دنیا کا سب سے بُرا اور بد کردار انسان محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ لا حاصل سے حاصل کے اِس سفر میں انسان کی قدر میں واضح کمی آجاتی ہے۔

یقیناً انٹرنیٹ نے رابطے کو بے حد آسان بنا دیا ہے۔ میں یہ تو ہرگز نہیں لکھ سکتی کہ دورِ رواں میں اِس کی کوئی اہمیت نہیں اور نا ہی اِس کا استعمال ترک کرنا ممکن ہے۔ مگر صحیح غلط کا فرق معلوم ہونا اور اعتدال بے حد ضروری ہے۔ اس لئے سوچنے سمجھنے سے قاصر افراد اپنے ہاتھوں سی اپنی زندگی مشکل بنا رہے ہیں۔ رشتوں کی کمزوری یا ناکامی کا ایک سبب ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال بھی ہے۔

فی الاصل ہوتا کچھ یوں ہے کہ کوئی بھی غلطی یا گناہ ہم ارادتاً نہیں کرتے۔ ابتدا میں وہ شغل ہی ہوتا ہے یا محض وقت گزاری۔ پھر رفتہ رفتہ وہ ہماری ضرورت بن جاتا ہے۔ اِن ایپس میں بھی کچھ ایسا ہی نشہ ہے، جس نے مَحرم نا مَحرم کے فرق کو مٹا دیا ہے۔ برائی جب عام ہوجائے تو وہ برائی نہیں ٹرینڈ بن جاتی ہے۔ اب یہ سب ہمارا طرزِ زندگی بن گیا ہے۔ آج ماں کے پاس اولاد کے لئے، اولاد کے پاس والدین کے لئے اور میاں بیوی کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لئے وقت نہیں ہے۔ اور ہمیں پرواہ بھی نہیں ہوتی۔ کیوں کہ اب یہ معمول کا حصہ ہے۔ ممکن ہے گھر کے بزرگ جو اس ٹیکنالوجی سے نا آشنا ہیں، وہ اِس تبدیلی پہ ضرور ملول ہوتے ہوں گے۔ مگر اُن کی لئے بھی وقت کس کے پاس ہے۔ کانوں میں لگی اِس ہینڈ فِری نے واقعتہً بہرہ بنا دیا ہے۔
اگرچہ سماجی ویب سائٹس کے ذریعے جہاں غیروں سے فاصلے مٹ گئے، پر افسوس! اپنوں سے بڑھ گئے۔ آج ہمارے پاس اپنوں کو دینے کے لئے چند ساعتیں بھی نہیں۔ ہاں مگر غیروں کے لئے سب کچھ وقف کر دیا۔

بظاہر نظر آنے والا یہ شغل ہماری نسلوں کو تباہ کر رہا ہے۔ اِس کے اثرات آپ موجودہ اور آنے والی نسلوں میں دیکھ سکیں گے۔ کیونکہ یہ وبا ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ یہ لَغو بیانی ہماری تہذیب وتمدن نہیں، ہاں مگر ایک مغربی جال ضرور ہے۔ جس نے ہمیں بری طرح جکڑ لیا ہے۔ آج فتنہ کا دور ہے اور طرح طرح کے فتنے فساد دیکھنا روز کا معمول بن گیا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ قیامت بہت نزدیک اور یہ سب اُسی کے آثار ہیں۔ ہمارا معاشرہ تباہی اور اخلاقی پستی کی طرف گامزن ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دین سے دور، دنیا میں مشغول ہم یہ بھول گئے ہیں کہ آخرت کے لئے بھی اپنی تیاری رکھنی ہے۔ اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لئے نفس کے ناسور کو مارنا پڑتا ہے۔ اگر اِسی طرح شب و روز گزرتے گئے تو روزِ قیامت اپنے رب کو کیا منہ دکھائیں گے۔ کاش! ہم یہ بات جلد سمجھ لیں کہ دنیا کی زندگی محض ایک دھوکہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اللہ تعالىٰ ہم سب کو رُشد و ہدایت عطا فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).