سعودی عرب کی گوادر میں سرمایہ کاری اورایران


سعودی عرب کے گوادر میں سرمایہ کاری کے اعلان کو پاکستان کی زبردست سفارتی کامیابی قراردیاجاسکتا ہے۔ سعودی عرب گوادر میں تیل صاف کرنے والا کارخانہ لگانے کے علاوہ تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش میں بھی دلچسپی رکھتاہے۔

گوادر میں سعودی عرب کی آمد سے خطے کی سیاسی اور معاشی صورت حال میں دوررس تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہے۔

سعودی عرب کا گوادر میں سرمایہ کاری کا اعلان ایک غیر معمولی اسٹرٹیجک فیصلہ ہے۔اسلام آباد میں خبریں گردش کررہی ہیں کہ ولی عہد محمد بن سلمان اگلے چند ہفتوں میں پاکستان کا دورہ کرکے ان منصوبوں کا افتتاح کریں گے۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔

سعودی عرب قطر کے علاوہ تیل پیدا کرنے والی خلیجی ریاستوں کا امام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین اور عمان بھی پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب ہونا شروع ہوجائیں گے۔علاوہ ازیں امریکہ بہادر کے ساتھ تعلقات میں بہتری یا کم ازکم ٹھہراؤ پیدا کرانے میں سعودی عرب مد د کرسکتاہے۔ گوادر بندرگاہ سے عرب ریاستیں خوش نہیں تھیں۔

اطلاعات یہ بھی تھیں کہ بلوچستان میں بدامنی میں دانستہ یا نادانستہ طور پر کچھ عرب ممالک کی سرزمین اور وسائل بھی استعمال ہوئے۔ انہیں خدشہ تھا کہ گوادر علاقائی تجارت کا مرکز بننے کی صورت میں ان کا کاروبار سست روی کا شکارکرسکتاہے۔

عرب ریاستوں کو پاکستان بارے درج ذیل اسباب نے اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ امریکہ کے ساتھ ناہموار تعلقات اور ایران کے ساتھ تناؤمیں مسلسل اضافے نے ان ممالک کو ایک عرصے کے بعد پاکستان کی طرف متوجہ کیا۔اگرچہ امریکہ کے ساتھ عرب ممالک کی گاڑھی دوستی ہے لیکن صدر ٹرمپ کی طرح کے متلون مزاج حکمرانوں نے عربوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔

چند دن پہلے انہوں نے کہا کہ شاہ سلمان کی بادشاہت امریکی حمایت کے بنا دوہفتے بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ علاوہ ازیں ایران کی طرف سے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ اور چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کے پس منظر میں عرب ممالک کو خطے میں متبادل کے طور پر پاکستان کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

ایک اور اہم سبب جس نے عرب ممالک کی لیڈرشپ کو متاثر کیا وہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابیاں اور امریکہ کے دباؤ کی مسلسل مزاحمت ہے۔ کئی ایک عرب تجزیہ کار کہتے ہیں کہ وہ دنگ رہ جاتے ہیں کہ محدود وسائل اور عالمی تعلقات کا حامل ملک کس طرح ایک سپرپاور کے ساتھ معاملات کرتاہے۔

پاکستان نے عربوں کے ساتھ قربت، گہرے معاشی اور سیاسی تعلقات کے باوجود ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھا۔یہ تنی ہوئی رسی پر سفر کے مترادف ہے۔ تمام تر ترغیبات کے باوجود ایران کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دی۔ کسی گروہ نے ایران میں مداخلت کی بھی ہوتو ریاست نے اس کی سرکوبی میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔

آج کی دنیا میں جنگ دوسرے ممالک پر قبضے کی نہیں بلکہ وسائل پر تصرف حاصل کرنے اورانہیں اپنے ملک اور عوام کی خاطر بہتر استعمال کرنے کی ہے۔ مغرب جو انسانی حقوق کا علمبردا ر کہلاتا ہے وہ بھی دولت مند ممالک کی چاکری کرتاہے تاکہ تجارتی اور کاروباری مفادات کو زک نہ پہنچے۔

پاکستان اور اس کے گرد ونواح میں روس اور چین جیسی ابھرتی ہوئی معاشی قوتوںنے تمام ممالک کو جکڑ لیا ہے۔ خاص طور پر چین نے اپنے اقتصادی وسائل کا مہارت سے استعمال کرکے نہ صرف امریکہ مخالف بلکہ امریکہ نواز ممالک تک کو اپنا ہمنوا بنا لیایا انہیں اپنا دست نگر کرلیا ۔

عالم یہ ہے کہ چین افغانستان میں ایک بہت بڑے کھلاڑی کے طور ابھرا ہے۔ گزشتہ ماہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے اسلام آباد میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ افغانستان کو بھی سی پیک میں شامل کردیاجائے۔ پشاور کے سابق کور کمانڈر جنرل حامد خان نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز اور جرمن فائونڈیشن ایف ای ایس کے زیراہتمام ہونے والے سیمینار میں کہا کہ پاک افغان سرحد پر مزید راستے کھولے جائیں تاکہ وقت آنے پر انہیں سی پیک کے ساتھ مربوط کیاجاسکے۔

مطلب یہ کہ خطے کی سیاست او رمعیشت کو دیکھنے کے لیے اب سی پیک کا عدسہ استعمال کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے اعلان اور اعلیٰ سطحی دوروں کے بعد یہ کھٹکالگاہوا کہ کہیں ایران کا ردعمل محاذآرائی کا نیا باب نہ کھول دے۔

ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے ایک پریس کانفرنس میں ان خدشات کا نہ صرف ازالہ کیا بلکہ کہا کہ ایران اقتصادی راہداری کے منصوبے کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ یہ منصوبہ خطے میں امن کے ساتھ ترقی کے نئے دور کاآغاز کریگا۔انہوں نے اس تاثر کو غلط قراردیا کہ سعودی عرب کی سی پیک منصوبے میں شراکت داری پر ایران ناخوش ہے۔

مہدی ہنر کا یہ بیان ایرانی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی کا عکاس ہے۔ ایران کی سیاسی قیادت ذہین اور دوراندیش ہے وہ پاکستان کی مجبوریوں او رمشکلات کا ادراک رکھتی ہے۔پاکستانی معیشت کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری آکسیجن کا کام کرتی ہے۔ایران اگر اس بیان پر قائم رہتاہے تو پاکستان سعودی عرب کے ساتھ ایران کی کشیدگی کم کرانے میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کرسکے گا۔

مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد ٹھیک کہتے ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان ابھرتی ہوئی محاذ آرائی سے پاکستان کو فائدہ پہنچ سکتاہے۔ مغربی ممالک کا چین پر دباؤ ہے کہ وہ تجارتی اور کاروباری لین دین میں فریقین کی کم پیشہ ورانہ مہارت یا معاشی مشکلات کا فائدہ اٹھاتاہے اور انہیں قرض میں جکڑ کر رفتہ رفتہ ان کے منصوبے ہتھیا لیتاہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کو بھی چین کا قرض واپس کرتے ہوئے ایساہی خیال آیا۔چنانچہ بند دروازوں اور پردوں کے پیچھے مذاکرات چل رہے ہیں کہ کس طرح سی پیک کے معاہدوں میں ہونے والی غلطیوں کا ازالہ کیا جاسکے۔ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اب کاروباری معاہدے کرنے جارہاہے۔

یہ وقت ہے کہ ٹھوک بجاکر شرائط طے کی جائیں۔ بین الریاستی تعلقات میں مروت اور ایثار کے بجائے قومی مفاد کو مدنظر رکھاجانا چاہیے۔ وقتی مجبوریوںکی بدولت طویل المیعاد مفادات پر سودے بازی ،احمقانہ حرکت ہی نہیں بلکہ ناقابل معافی جرم بھی ہے۔

بشکریہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood