تحریک انصاف کی بدمعاشی


لاہور میں قبضہ مافیا کے سرغنہ منشا بم کی سفارش پر رکن قومی اسمبلی ملک کرامت کھوکر اور رکن صوبائی اسمبلی ندیم عباس کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی والوں نے کب سے بدمعاشی شروع کردی؟ کیا لوگوں نے بدمعاشی کے لئے ووٹ دیے تھے؟ میں کسی بدمعاش کو پاکستان میں نہیں رہنے دوں گا۔ انھوں نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی سے باز انا ہوگا۔ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی نے پولیس پہ دباؤ ڈالنے اور سیاسی اثر رسوخ کو استعمال کرکے منشا بم کے بیٹوں کو رہا کروانے اور سفارش کرنے پر سپریم کورٹ میں باقاعدہ تحریری طور پہ معافی بھی مانگ لی۔

تحریک انصاف حکومت کی پے درپے غلطیوں نے انھیں مشکلات سے دوچار کیا ہے اور بڑے پیمانے پر ان کے اپنے ہی سپوٹرز نے سوالات اٹھانا شروع کررکھے ہیں کہ کہاں گئی تبدیلی اور تبدیلی کے نعرے اور دعوے؟ وہی دھات کے تین پات۔ وہی سیاست دان اور ان کی وہی پرانی روش۔ حکومت ملتے ہی اگلے ہی روز مدہوش ممبر سندھ اسمبلی علی عمران نے بیچ سڑک ایک معزز شہری پر تھپڑوں کی بارش کردی۔

انتظامی معاملات میں حکومتی اراکین کی مداخلت کی خبریں سرگرم ہی تھیں کہ ایک اور صوبائی وزیر نے اختیارات کا انتہائی ناجائز استعمال کرکے مبینہ طور پر کوٹ لکھپت جیل کا دورہ کیا اور مبینہ طور پر جیل کے بیرکس کھلوائیں، صوبائی وزیر جیل خانہ جات زوار حسین نے اپنے 6 مشتبہ ساتھیوں کے ہمراہ کالعدم تنظیموں کے ان سزا یافتہ مجرمان سے خفیہ ملاقاتیں کیں جو لاہور میں خود کش حملوں کے ذمہ دار ہیں اور جن پر فرقہ وارانہ کارروائیوں کے حوالے سے مقدمات درج ہیں۔

وزیر نے پاکستان پریزنس رولز 1978 کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے مبینہ طور پر سیکیورٹی بیرکس کو کھلوایا جس میں ایک سو 9 خطرناک مجرمان قید ہیں۔ اسی طرح طاقت کے نشے میں دھت حافظ آباد سے پی ٹی آئی کے ایم این اے شوکت علی بھٹی اپنی شان و شوکت دکھانے کے لیے اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں جا کر اسی کی کرسی پر بیٹھ کر احکامات صادر کرتے ہوئے دیکھے گئے۔

خاور مانیکا والا قضیہ بھی کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں۔ ایک بیچارے ڈی پی او کو کس طرح خاتون اوّل کے سابق شوہر کی شان میں گستاخی کرنے پر ذلیل کیا گیا۔ معاملہ اعلی عدالت میں پہنچ گیا مگر کسی کو کوئی پرواہ تک نہیں۔ نہ کوئی تحقیق اور نہ کوئی معذرت۔ وہی ڈھٹائی اور وہی غرور و تکبر۔ لگتا ایسا ہے کہ عمران خان کا نہ حکومت پہ گرفت ہے اور نہ ان کی ٹیم ان کی کسی تبدیلی کے ویژن کو خاطر میں لانے کے لئے تیار ہے۔

ضمنی الیکشن میں وزراء اور ممبران اسمبلی کے قریبی رشتہ داروں کو الیکشن لڑوانے یعنی جتوانے کیکئے پارٹی ٹکٹس جاری کروانا ہوں یا تمام تر دعووں کے باوجود صدر، وزراء اعلی، گورنرز اور دیگر وزراء کا بھرپور پروٹوکول لینا اور یا بلند بانگ دعووں کے باوجود گورنر ہاوسز کو گرانے اور وزیراعظم ہاؤس و وزیراعلی ہاوسز میں یونیورسٹیاں کھلوانے جیسے اعلانات کی تاویلات پیش کرنا اور لوگوں کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے بچگانہ اقدامات اور حرکات کرنا، یہ تمام امور ثابت کرتے ہیں کہ شاید خان صاحب کو بہت ساری باتوں یعنی اعلانات اور دعووں پہ پچھتاوے کے سوا کچھ ملنے کی امید نہیں کیونکہ الیکٹیبلز، آزاد ارکان اور اتحادیوں کے نخرے اٹھانا ہی ان کے پاؤں کی بیڑیاں ہوں گی۔

اداروں کو سیاست سے پاک کرنا عمران خان کا ہمیشہ سے نعرہ رہا ہے اس لئے اب عملی طور پہ انھیں یہ ثابت کرانے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اپنے وزراء، ممبران اسمبلی اور پارٹی ورکرز کو قابوں میں رکھنا بحرحال ان کے لئے کڑی آزمائش ہے۔ قوم کچھ نیا دیکھنے کی آرزو مند اور منتظر ہے۔ اگر وہی پرانی روش رہی اور وہی زمانے کا چلن رہا تو عوام کی مایوسی اشتعال میں تبدیل ہوگی اور شاید حکومت اور خود عمران کا ایسا حشر ہوگا کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔

خان کے ساتھ جتنی زیادہ محبت ہے اور ان سے جتنی توقعات وابستہ کی گئی ہیں اتنا ہی اس کے مقابلے میں ردعمل زیادہ ہوگا۔ تھانہ کلچر کی تبدیلی ناگزیر ہے اور حکومتی ذمہ داران کے رویے اور مزاج بھی عوام دوست اور ہمدردانہ ہونا چاہیے وگرنہ طاقت اور دھونس کے ذریعے عوام کی دلوں میں جگہ پانا دیوانے کا خواب ہوگا۔ جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ شکنی اور ان کی قلع قمع کرانے میں اداروں کے ساتھ تعاون اور موثر کاوشیں کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے اور تحریک انصاف حکومت سے توقع اور امید۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).