جھوٹ، الزام اور دشنام کی یلغار


 

بلا شبہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ آج کی دنیا میں جدید ٹیکنالوجی نے معلومات تک رسائی کو نہایت آسان بنا دیا ہے۔ کسی بھی قسم کی معلومات درکار ہو، وہ ہمیں فوری طور پر دستیاب ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جسے ڈس انفارمیشن کا زمانہ کہا جا تا ہے۔ جھوٹی خبروں اور غلط معلومات کی ترسیل عام ہے۔ کم و بیش تمام ممالک میں یہ صورتحال پائی جاتی ہے۔ مگر پاکستان میں جانتے بوجھتے غلط معلومات اور جھوٹی خبریں پھیلانے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اکثر وبیشتر صحافت اور آزادی اظہار رائے کے نام پر یہ کام کیا جاتا ہے۔ گرفت اور جوابدہی کے کسی موثر نظام کی عدم موجودگی کے باعث، یہ کام بغیر رکاوٹ جاری ہے۔ کسی کی کردار کشی کریں، کسی پر کیچڑ اچھال دیا جائے، کسی کا گریبان نوچ ڈالیں، کسی پر کفر کا فتویٰ لگا دیں، کسی کو غداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیں، کسی کو چور، ڈاکو، کرپٹ قرار دے دیا جائے، غرض کچھ بھی کہہ ڈالیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔

قانون کی کتابوں کی حد تک، ہتک عزت کا ایک قانون موجود ہے۔ اس قانون کا تذکرہ بھی اکثر و بیشتر سننے کو ملتا ہے۔ ہتک عزت کے سینکڑوں دعوے بھی دائر ہوتے ہیں۔ کردار کشی کرنے والوں کوکروڑوں اربوں روپے ہرجانے کے نوٹس بھیجے جاتے ہیں۔ مگر (چند ایک کے سوا) شاید ہی کوئی مقدمہ اپنے انجام کو پہنچا ہو۔ ایسی مثال ملنا بھی مشکل ہے کہ ہرجانے کی وصولی یا ادائیگی کی گئی ہو۔ جن ترقی یافتہ ممالک کا ہم اکثر و بیشتر حوالہ دیتے ہیں، وہاں ہتک عزت کے قوانین بہت سخت ہیں۔ اور اس قدر موثر کہ کسی عام سے شہری پر الزام تراشی کرنا بھی، جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ الزام تراش اگر ثبوت نہ دے سکے، تو اسے اپنی جائیداد اور عمر بھر کی کمائی سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مگر ایسی سزا کا کوئی تصور موجود نہیں۔ کوئی بھی جھوٹی سچی معلومات ہاتھ لگیں، انہیں” خبر” کا نام دے کر پھیلا دیا جاتا ہے۔ بلا مبالغہ سینکڑوں قصے کہانیاں ہیں، جنہیں سر عام دہرایا گیا۔ ازبر کروایا گیا۔ مگر وہ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئیں۔ لیکن کسی کو معافی مانگنے یا معذرت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ معافی تو دور کی بات، شرمندگی اور ندامت کا تاثر تک نہیں دیا گیا۔

سوشل میڈیا جیسی اہم ٹیکنالوجی کو ہم نے جھوٹ کا بازار بنا ڈالا ہے۔ ٹویٹر، فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر جگہوں پر روزانہ سینکڑوں شر انگیز خبریں گردش کرتی ہیں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے افراد بھی ایسے کاموں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ فارورڈڈ میسجز کا رجحان بلکہ فیشن بھی عام ہے۔ بغیر تصدیق کیے اور اکثر اوقات تو بغیر پڑھے، جھوٹے پیغامات شیئر کیے جاتے ہیں۔ صحافتی طور پر دیکھا جائے تو خوبی سوشل میڈیا کی یہ ہے کہ یہ میڈیا ان خبروں، کالموں، پروگراموں اور تبصروں کا بوجھ بھی اٹھا لیتا ہے، جو ٹی وی چینلز اور اخبارات نہیں اٹھا سکتے۔ سوشل میڈیا ہر قسم کی ا دارتی جانچ پرکھ سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔ ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم نے اس خوبی کو سوشل میڈیا کی سب سے بڑی خامی بنا دیا ہے۔ ہر طرح کا ہتک آمیز، شر انگیز، نفرت آمیز، مواد بغیر کسی روک ٹوک کے گردش کرتا ہے۔ اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے، بڑی تگ و تاز کے بعد ایک سائبر کرائم قانون منظور ہوا تھا۔ اس میں کچھ نکات یقینا متنازع تھے۔ مگر اسکے بہت سے مثبت پہلو بھی تھے۔ وہ قانون نجانے کہاں غائب ہے۔ بجا طور پرکہا جاتا ہے کہ نئے نئے قوانین بنانا مسائل کا حل ہرگز نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ قوانین کے نفاذ اور عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ سائبر کرائم قانون کا سختی سے نفاذ ہو گا تب ہی اس غیر ذمہ دارانہ روش کی حوصلہ شکنی ممکن ہو سکے گی۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا روائتی میڈیا یعنی اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز جھوٹی خبروں کی وبا سے محفوظ ہیں؟۔ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ قومی میڈیا کا ایک مخصوص حصہ دھڑلے اور ڈھٹائی کیساتھ جھوٹی خبریں چلاتا اور غلط معلومات پھیلاتا ہے۔ ہر روز شام سے رات گئے تلک، ٹی وی چینلوں پر عدالتیں سجتی ہیں۔ لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ یکطرفہ دلائل دئیے جاتے ہیں۔ فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ چند اخبارات بھی اس روش پر گامزن ہیں۔ تحقیقاتی صحافت کے نام پر پروپیگنڈا کرنے اور جھوٹ پھیلانے کا کاروبار ہو رہا ہے۔ ایسے میں پیمرا اور پریس کونسل جیسے ادارے اپنی اپنی استعداد کےمطابق کچھ کارروائی بھی کرتے ہیں۔ مگر درجنوں ٹی وی چینلوں اور اخبارات کی موجودگی میں سینکڑوں پروگراموں اور کالموں کی نگرانی کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ہمارے ہاں درجن بھر صحافتی ضابطہ اخلاق موجود ہیں۔ 2015 میں، عرفان صدیقی کمیٹی نے الیکٹرانک میڈیا کا پہلا متفقہ ضابطہ اخلاق بنایا تھا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کی باہمی رضامندی کے ساتھ اس کی منظوری ہوئی۔ عدالت عظمی نے اسے نافذ کیا۔ مگر کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔

میڈیا غیر ذمہ داری کی روش پر قائم ہے۔ قصور کی معصوم بچی زینب کا سانحہ ہماری یادداشت میں تازہ ہے۔ ایک معروف اینکر نے کیا کیا ہوشربا ” انکشافات ” کیے تھے۔ انتہا درجے کی سنسنی پھیلائی تھی۔ قوم کو ہیجان میں مبتلا رکھا۔ آخر کار سزا کے طور پر تین ماہ کیلئے ان کا پروگرام بند کر کے انہیں ” نشان عبرت” بنا یا گیا۔ بیگم کلثوم نواز شریف کی بیماری کا معاملہ بھی چند ماہ پہلے کا قصہ ہے۔ بلند و بانگ دعوے ہوئے کہ ان کا انتقال ہو چکا ہے، لیکن سیاسی مفاد کی خاطر ان کے خاندان نے انہیں وینٹی لیٹر لگا رکھا ہے۔ مگر سوشل میڈیا، ٹی چینلز اور اخبارات میں ایسے دعوے کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ شریف خاندان کے 300 ارب روپے کی کرپشن کے قصے کو درجنوں بار دہرایا گیا۔ مگر وہ کہانی جھوٹ نکلی۔ آئی بی کے ذریعے صحافیوں کو 270 کروڑ بانٹنے کی باتیں کرنے والے بھی غلط ثابت ہوئے۔ مگر الزام تراشوں نے اظہار ندامت نہیں کیا۔ ایک وزیر ا سمبلی فلور پر کھڑے ہو کر غلط بیانی کرتا ہے کہ پاکستان میں ہر سال دس ارب ڈالر کی کرپشن ہو رہی ہے۔ مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایسی صورت میں ایک عام آدمی سے ذمہ داری کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے۔

 محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں سے بہت سوں نے دروغ گوئی اور الزام تراشی کو اپنی عادت بنا لیا ہے۔ اللہ کا فرمان تو یہ ہے کہ تم تک کوئی خبر آئے تو اس کی تحقیق کیا کرو۔ کاش ہم اللہ اور اس کے پیارے رسول کی کہی باتوں پر غور کریں۔ ضرورت شاید اس امر کی ہے کہ ضابطوں، قاعدوں، قوانین اور سزاوں سے ہٹ کر بھی مجموعی قومی مزاج میں تبدیلی لانے کی سنجیدہ کاوش کی جائے۔ یہ کاوش ہر سطح پر کرنا ہو گی۔ ممکن ہے کہ اس کا آغاز اپنے گھر اور تعلیمی اداروں سے کیا جائے۔ لیکن سب سے اہم ذمہ داری خود میڈیا اور اہل سیاست کی ہے۔ جب تک اپنی دکان چمکانے کیلئے جھوٹ کے کاروبار کو مکمل طور پر ختم کرنے کا عزم نہیں کیا جاتا۔ بات نہیں بنے گی۔ جس طرح اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ کرنے والا صرف نفع اندوزی کیلئے اس با ت سے بے نیاز ہو جاتا ہے کہ عوام کی صحت اور زندگیوں پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔ اسی طرح جھوٹ اور بے بنیاد خبروں کا کاروبار کرنے والے میڈیا اور مخالفین پر من گھڑت الزامات لگانے والے اہل سیاست کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ معاشرے میں کس طرح کا زہر پھیلا رہے ہیں اور محض اپنے مفاد کی خاطر اجتماعی قومی کردار کو مسخ کر رہے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کیلئے بہرحال ایک سوچی سمجھی اور موثر تحریک کی ضرورت ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).