زندہ رہنے کو بہت زہر پیا جاتا ہے


امریکی کہاوت ہے ’دنیا میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیسے زندہ رہا جائے؟ ‘ کب تک زندہ رہنا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن ہمیں فی زمانہ یہ سوال درپیش ہے کہ ’کیسے زندہ رہا جائے؟ ‘ وہاں جہاں ہر سو موت تقسیم ہوتی ہو، موت بک رہی ہو، موت کا رقص جاری ہو۔ اور متعلقہ ادارے فقط تماش بین کا کردار ادا کریں۔ موت کیسے، کہاں سے مل رہی، کہاں بک رہی ہے؟ تو جناب! ذرا غور کیجیے ہمارے ہم وطن ہمیں ملاوٹ شدہ اشیاء بیچ کر موت نہیں بانٹتے؟ دودھ فروش دودھ میں کیمیکلز یعنی زہر ملاتا ہے۔ آئے روز کئی کئی لیٹر دودھ ضائع کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی سوچیے کیا ہماری غذائیں صحت مندانہ ہیں؟ غیر معیاری اشیاء سے انسانی جانوں کو ’شدید خطرات‘ لاحق ہیں یہ صرف اخبارات میں پڑھتے ہیں۔ وگرنہ تو ہم روزانہ یہی ناقص اشیائے خوردونوش خریدتے یعنی اپنی موت خریدتے ہیں۔

ہماری پاک فضائیں صحت مندانہ ہیں؟ فضائی آلود گی صرف فضا آلودہ نہیں کرتی بلکہ انسانی وجود میں زہر بھر دیتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ 70 لاکھ لوگ فضائی آلودگی سے ہلاک ہوتے ہیں۔ آلودگی کے ہاتھوں پاکستان میں سالانہ تقریباً 20ہزار لوگ قبل از وقت موت کا شکار ہوتے ہیں۔ صرف شہر کراچی میں تقریباً سالانہ 9ہزار ہم وطن اگلا جہاں سدھار لیتے ہیں۔ 80 ہزار پاکستانی سانس کے امراض کو گلے لگاتے ہیں۔ 80فیصد امراض آلودہ پانی کی وجہ سے لاحق ہوتے ہیں۔ جی؛ وہی پانی جو ہم پیتے ہیں۔ مجبور ہیں کہ اس کے علاوہ کا کوئی راستا ہی نہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں ہم خود برابر کے شریک ہیں۔ سارے بِل حکومت کے سر پھاڑنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ حکومت تو اقدامات کرتی ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ اقدامات کاغذات کے پلندوں سے باہر کم نکلتے ہیں۔

ہم صحت کے اصولوں کو پاؤں تلے روندتے ہیں۔ نتیجہ بیماری کی صورت نکلتا ہے۔ جب بیمار ہوئے تو صحت کے حصول کے لیے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ ایک امید ایک آس لے کر مسیحا کے پاس جاتے ہیں کہ وہ علاج معالجے سے گرتی صحت کو روکنے میں مدد دے گا۔ لیکن مسیحا مریض کو ملک الموت کے حوالے کر دیتا ہے۔ بیماری کیا رخصت ہوتی انسان ہی ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جاتا ہے۔ کبھی غلط ادوایات کے نسخے تو کبھی غلط انجکشن و آپریشن۔ بعض اوقات تو ان کے شکستہ خط سے لکھی دوا کے نسخے موت کا سبب بن جاتے ہیں۔ مجھے آج بھی وہ خاتون بت بنی نظر آتی ہیں جن کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تیر رہے تھے۔ درد کی تصویر بنی خاتون نے بتایا تھا کہ ان کا پوتا ابدی نیند سو گیا۔ اچانک طبیعت خراب ہوئی تھی۔ قریب کے ہسپتال پہنچایا ڈاکٹر کے غلط انجکشن کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گیا۔

یہ ایک واقعہ نہیں روزانہ کی بنیاد پر انسانی جانوں کے ضیاع کے بیسیوں واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ مجھے وہ ماں نہیں بھولتیں جن کے چہرے پر مجبوری و بے بسی کی گھٹائیں چھائی تھیں۔ دس سال بے اولاد رہیں، خدا نے گود بھری تو بچے کو کوئی عارضہ لاحق ہو گیا۔ اپنے شہر کے ڈاکٹر سے دوا لائی۔ غلط اور زائد المیعاد دوا کے استعمال سے بچہ موت کے منہ میں چلا گیا۔ تحقیق پر پتا چلا کہ ڈاکٹر کا شکستہ خط اتائی کیمسٹ نہ سمجھ سکا اور غلط دوا دے دی۔ سنوائی کہیں نہ ہوئی کیوں کہ وہ غریب لوگ تھے۔ ڈاکٹروں کی خراب لکھائی سالانہ تقریباً 7ہزار لوگوں کی جان لیتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کی تحریر جتنی صاف، آسان اور سادہ ہو گی اتنا ہی مریضوں کے لیے مفید ہے بصورت دیگر مریض پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔ کاش کہ ہمارے ڈاکٹر سمجھ جائیں۔

اپنے ہاں کی صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ ڈاکٹر کی شکستہ تحریر میں لکھا تعویذ فقط کیمسٹ پڑھ سکتے ہیں اور ان میں بھی وہی جن کو ڈاکٹر صاحب نے دواؤں کا ٹھیکا دے رکھا ہو۔ کیوں کہ دواؤں کی زیادہ سیل پر کمپنی کی نوازشات کو ڈاکٹر چھوڑ نہیں سکتے اور ڈاکٹر کی نوازشات کے لیے میڈیکل اسٹور والے تعاون کرتے ہیں۔ سر درد و بخار میں مبتلا مریض کا لہو اول تو دوا کا نسخہ دیکھ کر خشک ہو جاتا ہے رہی سہی کسر میڈیکل اسٹور والے پوری کر لیتے ہیں۔

بہادر کمپنیاں انہیں مسیحاؤں کے توسط سے ڈنکے کی چوٹ پر ہماری جان، مال لوٹتی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کیوں کہ ان ہی کی تو دنیا پر اجارہ داری ہے۔ رہے اتائی ڈاکٹر، تو وہ ہر علاقے میں دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ غیر قانونی کلینک، لیبارٹریاں پیداگیری کے مراکز ہیں۔ ہر چند دن بعد ان کے خلاف بھی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ لیکن اس سیلاب کے آگے بندھ نہیں باندھا جا سکتا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 3ہزار 238 اتائی ڈاکٹر کلینک چلا رہے ہیں۔ اسی طرح ایک اندازے کے مطابق خیبر پختونخوا میں 15ہزار جعلی ڈاکٹر ہیں۔ جب حقیقی تعداد اس سے کئی گنازیادہ ہو گی۔ ڈاکٹروں کے میڈیکل سنٹر اور بیسیوں قسم کی لیبارٹریاں ٹیسٹ بیچتی ہیں۔ آپ ایک ہی ٹیسٹ دو لیبارٹریوں سے کروا کر دیکھ لیجیے گا نتیجہ سامنے آجائے گا۔ ایک مریض کو ٹی بی تشخیص کریں گے تو دوسرے کو ٹائیفائڈ، (میرے ساتھ ایسا ہو چکا) ان کا معیار چیک کرنے کی اتھارٹی کا کردار نظر نہیں آتا۔

چیف جسٹس مجبوراً ایکشن لیتے ہیں، چھاپوں کا شور غوغا اٹھتا ہے۔ غیر قانونی کلینکس سِیل کیے جاتے ہیں مگر وہ دھواں چند ہی روز میں چھٹ جاتا ہے۔ انتظامیہ کی ملی بھگت سے اسی کلینک، لیباٹری پر دوبارہ سے دھندا چل پڑتا ہے۔ کچھ ان میں عطائی بھی ہیں۔ جنہوں سے برسہا برس کسی ڈاکٹر کے ساتھ معاون کے طور کا م کیا ہوتا ہے۔ تجربہ، ہاتھ کی صفائی ملتی ہے تو اپنا دھندا شروع کر بیٹھتے ہیں۔ ڈاکٹر رجسٹرڈ ہوں یا غیر رجسٹرڈ، دیکھنا چاہیے کہ نجی و سرکاری ہسپتالوں کی راہداریوں میں مریضوں کا علاج کرتے ہیں یا پھر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ چند ہسپتالوں کے علاوہ تمام کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ ہمارے ہاں دیہاتوں میں تو ایسا ہی ہے آپ کے ہاں کی خبر نہیں۔

اب اگر سوال کر لو تو فَٹ سے تیار جواب الاپ دیا جاتا ہے۔ اجی! ہم کیا کریں؟ ہم نے بجٹ میں اضافہ کر دیا ہے۔ حکومت نے دو برسوں میں صحت کے بجٹ کو 33ارب سے بڑھا کر 66ارب تک پہنچایا۔ 2012/2013 میں بجٹ 30۔ 2 بلین روپے تھا۔ 2017/2018 میں بڑھا کر 66۔ 49 روپے کر دیا ہے۔ انہیں کوئی بتائے کہ جناب! آپ کی کارکردگی کی ہم داد دیتے ہیں۔ آپ نے بہت اچھا کام کیا۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ بیماریوں کی شرح میں اضافہ ہوا اور اگر ہوا تو کیوں ہوا؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ امراض کا خاتمہ ہوتا یا کم از کم اس کی شرح میں کمی آتی تا کہ لوگ موت کے منہ میں جانے سے تو بچ جاتے۔ لیکن بیماری کی شرح بڑھی ہے نہ کہ کم ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق بلڈپریشر کے بڑھ جانے کے باعث 50 فیصد لوگ امراض قلب، 33 فیصد دماغ کی شریانوں کے پھٹنے اور 10/15 فیصد لوگ گردوں کے ناکارہ ہو جانے سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ امراض قلب میں اضافے سے شبہ ہے کہ 2025 تک اس میں دوگنا اضافہ ہو گا۔ کیا صرف بجٹ بڑھانے سے امراض کی شرح میں کمی کی جا سکتی ہے؟ لوگوں کو موت کے منہ سے نکالا جا سکتا ہے؟

یقینا نہیں تو پھر حکومت کو چاہیے کہ ترجیحی بنیادوں پر صحت کے مسئلہ کو لے۔ غیر معیاری ادویات، اشیاء کی روک تھام کے لیے مضبوط بنیادوں پر کام کرے۔ بیماریوں کی وجوہات تلاشنے اور امراض کی روک تھام کے لیے پالیسی وضع کرے۔ صرف بجٹ بڑھانا ہی کافی نہیں صحت مند معاشرے کا قیام قابل تعریف ہے۔ دیکھتے ہیں متعلقہ ادارے ہمیں جینے کا حق دیتے ہیں یا پھر وہ بھی جعلسازوں کے ساتھ مل بانٹ کر کھانے والے ہیں۔ کیا محکمہ صحت کوئی ایسا نظام بنائے گا جو عام آدمی کی پہنچ میں ہو، تا کہ جعلسازی، غیر انسانی، غیر قانونی حرکت پر بروقت ردعمل کا اظہار کیا جاسکے؟ حکومت کیا مزید اقدامات کرتی ہے آنے والا وقت بتائے گا۔ ایک سوال لیکن جوں کا توں کھڑا ہے کہ کیسے زندہ رہا جائے؟ کیا ہمیں جینے کا حق ہے؟ اگر ہاں تو ہر سو موت کا سایہ کیوں لہرا رہا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).