سماجی تبدیلی کا فکری خاکہ


چند سالوں سے ملک کی سیاست میں تبدیلی کا شور برپا ہے۔تبدیلی کے علم برداروں کو جیسے تیسے اقتدار بھی مل ہی گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود فکری حبس او رمسائل کو ختم کرنے کے لیے قحط الرجال نے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ :
وہ حبس کا موسم تھا کہ لو کی دعا مانگتے تھے لوگ
کی کیفیت ہے ۔قوم کیا چیز ہے؟ قوموں کی امامت کیا ہے؟ کے اہم نکتے سے ہماری سیاسی جماعتوں نے دانستہ چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اب بھی ماضی سے کوئی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں:
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

سیاسی جماعتوں کے نزدیک اقتدار کے حصول کی آرزو کے سوا کچھ نہیں ہے قوم سازی اورمعاشرے کے فکری ارتقاء اور اجتماعی شعور کی سطح کو بلند کرنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ہے۔ تبدیلی کے علم بردارملک کی ترقی میں حائل جاگیرداری، سرمایہ داری اور مذہبی انتہا پسندی جیسی بنیادی روکاوٹوں اور اسباب سے صرفِ نظر کرتے ہوئے تبدیلی کا ڈھول پیٹ ر ہے ہیں جس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ :
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ خدانخوستہ ملک فکر طور پر بانجھ ہوگیا ہے یا فکر کے سوطے سوکھ گئے ہیں۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے جن مفکرین اور سماجی سائنسدانوں نے فکری تجزیے پیش کیے ہیں ان میں محمود مرزا صاحب مرحوم کا نام بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ چند سال قبل محمود مرزا صاحب نے Social Change کے عنوان سے انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھی تھی۔ جس کا خلاصہ سماجی تبدیلی کے نام سے ایک مختصر کتابچے کی صورت میں شائع ہوا۔

محمود مرزا صاحب پاکستانی سماج کا گہرا اور عمیق تجزیہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بنیادی طور پر سماج کا مزاج اشرافیہ کی خدمت گذاری کا ہے۔ معاشرے کا فیوڈل کلچر یہاں جوں کا توں رکھتے ہوئے ریاستی اور معاشرتی ترجیحات میں عوام کے مفاد کو آخری نمبروں پر رکھا گیا ہے۔ اس اہم اور بنیادی حقیقت کو فراموش کردیا گیا ہے کہ ایک زیادہ آبادی رکھنے والا ملک اس وقت تک معاشی ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہ سماجی تبدیلی کے عمل سے نہ گذرا ہو۔ ہمارے یہاں ریاست اور سماج کی طاقت جن طبقات اور اداروں کے ہاتھ میں ہے انہوں نے ریاست اور معیشت کو لوٹا، انتہا پسندی کو فروغ دیا اور عوام کو تنگدستی اور مایوسی سے دوچار کیا ۔ خوراک کے عالمی ادارے کے مطابق بھوک میں مبتلا افراد کی اکثریت چھوٹے کسان ہیں یا کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور۔ یعنی جو اپنی محنت سے خوراک پیدا کرتے ہیں وہی خوارک سے محروم ہیں۔ گویا ہمارا سماجی ڈھانچہ اور مروجہ معاشی اور سیاسی نظام بے وسائل عوام کی زندگی آسودہ بنانے کی صلاحیت سے محروم ہے۔

محمود مرزا مرحوم اعداد و شمار کی بنیاد پر بتاتے ہیں کہ اگرچہ قومی پیداوار میں زرعی شعبے کا حصہ اکیس فیصد ہے مگر پینتالیس فیصد آبادی کا ذریعہ روزگار براہ راست ہے۔ زرعی شماریات 2000 ء کے مطابق زرعی اراضی کے 0.6 فیصد کے پاس زرعی اراضی کا 19 فیصد ہے۔ جب کہ 62 فیصد مالکان پانچ ایکڑ سے کم اراضی کے مالک ہیں۔ ملکیت سے محروم لاکھوں مزارع اور فارم لیبر اس کے علاوہ ہے۔ سرکاری کاغذات کے مطابق بڑے زمیندار جن کے پاس سرکاری کاغذات کے مطابق فی فرد زرعی اراضی 100 ایکڑ یا زائد ہے چالیس ہزار کے قریب ہیں۔ یہی چالیس ہزار افراد زرعی آمدن کے بیشتر حصے اور دیہی علاقے کے سماجی اور سیاسی نظام پر بھی مکمل اجارہ داری رکھتے ہیں۔ ریاستی اقتدار اور لوکل گورنمنٹ بھی انھی ہے کنٹرول میں ہیں۔

زرعی اجناس سے مطلق صنعتیں جیسے ٹیکسٹائل اور شوگر بھی زیادہ تر انہی کی ہیں۔ یہ اسی طبقے کا اعجاز ہے کہ سیاست، زراعت اور صنعت باہم متعلق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صنعتکاری بھی جاگیردارانہ کلچر اور جاگیردارانہ مفاد کے زیر اثر ابھری ہے۔ مذہب کی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونا اور روایت پرستی کی چھاپ برقرار رہنا بھی اسی طبقے کا مرہونِ منت ہے۔کالے دھن کی معیشت کل قومی پیداوار کے 35 فیصد کے مساوی ہے جس پر ملک کے ایک یا دو فیصد افراد کا قبضہ ہے۔ یہ طبقہ بھی پاکستان کی سیاست میں بے پناہ طاقت و اختیار کا مالک ہے۔

بالادست طبقات سے تعلق رکھنے والے چالاک سیاسی افراد نے مسائل کو بنیاد بنا کر پسماندہ افراد کے جذبات کا خوب استحصال کیا اور جوشیلی سیاست (پاپولسٹ سیاست) کو رواج دیا۔ پاپولسٹ سیاستدان ریاستی ذمہ داریوں اور شفاف حکمرانی کے لیے نااہل ہوتے ہیں جس کے سبب اقتدار کے ایوانوں اور اداروں میں تصادم پیدا ہوتا ہے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

مرزا صاحب سماجی اور معاشی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ ایسا پاکستان کب وجود میں آئے گا جب امن، عوام کی خوشحالی اور ترقی میسر آئے گی ؟ اس راہ میں درپیش روکاوٹوں کو بیان کرتے ہوئے محمود مرزا صاحب بتاتے ہیں کہ سماجی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ جانب پہلا قدم ریڈیکل زرعی اصلاحات کانافذ نہ ہونا ہے۔ واضح رہے کہ زرعی اراضی کی حد بندی کو سپریم کورٹ شریعت بنچ نے کالعدم قرار دے رکھا ہے۔ دوسری روکاوٹ ہمارا مروجہ معاشی نظام ہے جو عالمی معاشی نظام سے منسلک اور اس کا محتاج ہے۔ ہمارے یہاں یہ سیاسی فکر موجود ہے کہ گڈگورننس سماجی تبدیلی کا دوسرا نام ہے لیکن اس کا کوئی انتظام ابھی تک نہیں ہوسکا ہے کہ جاگیردارانہ رویوں کے ہوتے ہوئے گڈ گورننس کیسے ممکن ہے۔ محمود مرزا صاحب کے نزدیک سماجی تبدیلی کا وہی پروگرام بامعنی ہوتا ہے جوان وجوہ کا قلع قمع کردے۔

سماجی تبدیلی اور ترقی کے لیے مرزا صاحب نے جو حل تجویز کیے ہیں ان میں سماجی سیاست کے تصور کو وہ پہلے نمبر پر رکھتے ہیں۔ سماجی سیاست دان کی تعریف وہ یہ کرتے ہیں کہ ایسا سیاستدان جو اقتدار کی سیاست میں آنے سے پہلے سماجی خدمت سے رہبری کی شروعات کرے اور یہ ثابت کرے کہ وہ خدمت کے جذبے سے سرشار ہے۔ ممتاز دانشور اور ترقیاتی ابلاغ کے ماہر پروفیسر مجاہد منصوری سماجی خدمت کی دو خصوصیات بتاتے ہیں۔ پہلی یہ کہ اس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری اور آسودگی آئے اور دوسری یہ کہ بہتری کے لیے جو عمل جاری ہو اس میں علاقے کے مکین حصہ لیں۔ سماجی سیاست کے امیدوار عوام کی خدمت کے ذریعہ مقامی سطح پر عوام کو متحرک کریں کہ وہ اپنی مدد آپ کے اصول کے مطابق زندگی سنواریں۔اسی عمل کے دوران عوام کی فکری تربیت کا انتظام ہوگا۔

محمود مرزا صاحب جب تحریک انصاف کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن تھے تب بھی اور بعد میں بھی اپنے کالموں کے ذریعے عمران خان کی توجہ کارکنوں کی فکری اور سیاسی تربیت کی جانب دلاتے رہے حتیٰ کے اپنی گرتی صحت کے باوجود یہ بھاری ذمہ داری اٹھانے کی پیش کش بھی کی، عمران خان نے حسب روایت تجویز کو بہت سراہا لیکن اس پر عمل بھی نہ کیا۔ مرزا صاحب کے نزدیک ترقی کا تصور سماجیاتی ہے جہاں سماج کا ہر شعبہ معاشی اور غیر معاشی ترقیاتی عمل میں اپنا کردار ادا کرے۔ ایک اہم تجویز جو سماجی تبدیلی کے باب میں مرزا صاحب نے بیان کی ہے وہ معیشت کو کلی طور پر مارکیٹ فورسزکے رحم و کرم پر نہ چھوڑنا ہے۔ حکومت کو معاشی استحکام کے لیے اور انصاف کے فروغ کے لیے معیشت کے تمام شعبوں کو ریگولیٹ کرنا چاہیے۔ کیونکہ کہ نیو لبرل اکنامک پالیسی اور فنانس کیپٹل کی چالبازیوں کے سبب ہی عالمی اور طبقاتی سطح پر دولت کی تقسیم میں مساوات کا عنصر مفتود ہوا جس کے نتیجے میں معاشی بحران نے جنم لیا۔

بحث کو سمیٹتے ہوئے محمود مرزا صاحب سماجی تبدیلی کے پروگرام کے لیے سماجی سیاستدان، جدید تعلیم،نیاشعور،سماجی آجر،سماجی خدمت ، تبدیلی کی سوچ کو پھیلانے والے دانشور اور میڈیا اور فلاحی ریاست۔ تبدیلی کے پروگرام کو ممکن بنانے کے لیے پہلے پانچ عوامل کو ایک ایک ڈیڑھ دہائی تک صبر آزما جدوجہد کرنی ہوگی۔
معاشرت اور معیشت زوال کی جس صورتحال سے دوچار ہے ممکن ہی نہیں ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں جما کر نتائج حاصل کر لیے جائیں:۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے

محمود مرزا صاحب کی یہ تجاویز ان جلد بازوں کے لیے بھی ایک نصیحت ہے جو 1969 ء میں اسرائیل میں وزیراعظم کے عہدے کی امیدوار گولڈا میئر کے انتخابی نعرے ’’ہم نہیں تو کون اور اب نہیں تو کب‘‘ کو پاکستان میں لگا کر اپنی قابلیت اور نیک نامی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ استحصالی طبقات کے کندھوں پر سوار ہوکر استحصالانہ نظام کو تبدیل کیا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).