ریپ کا مزہب


نادیہ مراد یزیدی لڑکی جسے داعش کی طرف سے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس نے ہمت ہارنے سے انکار کیا اور آج بھی دنیا کے سامنے اس ظلم کو اجاگر کرتی نظر آتی ہے۔ اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر کے بعد کل امن کے نوبل کے لیے نامزد کیا گیا یہاں تک پڑھیں تو انسانیت پر اعتماد بڑھ جاتا ہے کہ اگر انسانی شکل میں درندے ہیں تو اچھے انسان بھی اسی دنیا میں موجود ہیں۔ اب تھوڑا سا پیچھے چلیں نوے کی دہائی میں او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں بوسنیا کی عورتوں نے اپیل کی تھی کہ اگر مسلم ممالک ہماری امداد نہیں کر سکتے تو ہمیں مانع حمل گولیاں فراہم کر دیں دوسرے لفظوں میں اس اپیل کا مقصد یہ تھا کہ اگر دنیا ریپ نہیں رکوا سکتی تو بے نامی بچے ہی پیدا کرنے سے بچا دے اس اپیل میں جو اذیت پائی جاتی ہے وہ کوئی صاحب درد ہی محسوس کر سکتا ہے۔

پھر کچھ عرصے سے وادی جنت نظیر کشمیر میں گینگ ریپ کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھارت کو لاڈلے کا درجہ دے رہی ہے دوسرے لفظوں میں ایک ارب انسانوں کی منڈی حاصل کرنے کے لیے ریپ کی اجازت ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں دہشت گردی کی طرح ریپ بھی اتنی ذہنی ترقی کر گیا ہے کہ مذہب اختیار کر سکے۔ دنیا کو اصل خطرہ مسلم فنڈامنٹلسٹ ریپ سے ہے ہندو عیسائی روشن خیال ریپ فی الحال انفرادی فعل ہے دنیا کو اس سے زیادہ خطرہ نہیں۔

یہ واضح طور پر تہذیبوں کے تصادم کی طرف اشارہ کر رہا یے میں خدانخواستہ داعش، بوکو حرام یا باقی انتہا پسند تنظیموں کی وکالت نہیں کر رہا لیکن بد قسمتی سے خلافت کے نام پر جاری اس فساد فی الارض کو میڈیا میں کووریج دے کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ اصل اسلام ہے اور اگر یہ غالب آ گئے تو تمہاری عورتوں بچوں اور مردوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ دجالی اپنی طرف کے لوگوں کو ایک صف میں اکٹھے کر رہے ہیں۔

مسلمانوں کے پاس اب دو ہی راستے ہیں یاد رہے میں ایک عام مسلمان کی بات کر رہا ہوں یا تو پورے مذہبی جوش اورجذبے سے واٹس اپ اور فیس بک پر ان تمام مظلوم لوگوں (جن میں ملالہ، مختاراں مائی، نادیہ مراد) جو کہ بہر حال واقعی مظلوم ہیں ان کو جھوٹا اور مغرب اور دجال کا ایجنٹ ظاہر کرنے پر پورا زور لگا کر مسلمانوں کی اپنی کی جہالت اور غیر رواداری کے تاثر کو دنیا میں اور واضح کیا جائے۔

یا عوام الناس کے لیول پر ہم اس چیز اور اپنے حالات کا ادراک کریں۔ ہم یہ تسلیم کریں کہ ہم ان محمدؐ رحمت اللعالمین کی امت ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ جانوروں پر حد سے زیادہ بوجھ مت ڈالو تمہارا اونٹ تمہاری شکایت لگا رہا ہے۔ ہم اس تاثر کو دنیا کے آگے نہ لا سکے اس کی بجائے ہم نے اپنا جو تاثر دنیا کے سامنے دیا وہ بیان کر کے میں اپنی ہی تذلیل نہیں کرنا چاہتا۔ ہم میں سے ہر مسلمان داعی ہے لیکن یہ دعوت اپنے کردار سے ہونی چاہیے۔ دوسرا یورپ کو طعنے دینے کی بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ ہم نوبل انعام کا اجرا کیوں نہیں کر تے۔ میری اس معاملے میں ایک تجویز ہے اگر ہم اپنی صدقے کی رقم اکٹھی کر کے ایک انعام جاری کریں کسی ایک فیلڈ میں مثلاً سائنس ٹیکسٹائل الیکٹرونکس وغیرہ میں کسی سٹوڈنٹ کو ریسرچ پر انعام دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).