اسلامی اتحاد کا پول کھل گیا


سعودی عرب اور امریکہ دوستی ارینج میرج کی طرح ہے، نظریہ ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے پہلے تعلقات قائمکیے گئے اور پھر باقاعدہ معاہدوں کی صورت میں اِسے جائز نام دے دیا گیا۔ اب دونوں کا ایک دوسرے کو بھگتا مجبوری کے سواء کچھ نہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ اپنے اپنے مفادات کے لئے جس حد تک یہ رشتہ نبھا پائے نبھائیں گے۔ نوک جھونک ایک دوسرے کو ڈرانے دھمکانے سے زیادہ آگے جانے کا امکان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر اپنا پہلا غیرملکی دورہ بھی سعودی عرب کا کیا تھا۔ سعودیہ عرب اسلحہ خرید رہا ہے اورامریکہ کو سعودی عرب کے تیل کے کنوؤں تک رسائی حاصل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ سے دوستی ہمیشہ سے اُن ممالک کو بھگتنی پڑی ہے جن پر امریکہ مہربان ہوتا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کے خیالات میں کتنا طلاطم موجود اس سے ساری دنیا واقف ہے۔ دنیا میں عزت بنانے سے زیادہ مشکل کام اس عزت کو برقرار رکھنا ہے، لیکن بعض لوگ اپنی ناقابل ِ قبول حرکات سے بڑی محنت کے بعد دنیا میں اپنے منفی تاثر کا سکہ جمانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس کو برقرار رکھنے کے لئے آخری حد تک جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا شمار بھی انھیں لوگوں میں ہوتا ہے۔
فی الوقت تو ٹرمپ نے اپنی دھمکی کی صورت میں سعودی حکومت کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ دی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ امریکی ریاست مسیسپی کے شہر ساؤتھ ہیون میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم سعودی عرب کی حفاظت کرتے ہیں۔ کیا آپ کہیں گے کہ وہ امیر ہیں۔ اور مجھے بادشاہ پسند ہے، بادشاہ سلمان۔ لیکن میں نے کہا تھا کہ ’بادشاہ ہم تمھاری حفاظت کر رہے ہیں۔ ہمارے بغیر تم دو ہفتے بھی نہیں رہو گے۔ تمھیں اپنی فوج کے لیے معاوضہ ادا کرنا ہوگا۔ ‘

اس غصہ کی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے سخت ناراض ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اوپیک رکن ممالک ’معمول کے مطابق پوری دنیا کو لوٹ رہے ہیں ’مزید یہ کہا گیا کہ۔ ’ہم ان میں سے بیشتر ممالک کا بلا وجہ دفاع کر رہے ہیں، اور وہ ہم سے اس کا فائدہ بھاری قیمتوں میں ہمیں تیل دے کر حاصل کر رہے ہیں۔ یہ اچھا نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں وہ قیمتیں نہ بڑھائیں، ہم چاہتے ہیں کہ وہ خام تیل کی قیمتوں میں کمی شروع کریں۔ ‘سعودی عرب کے سرکاری خبررساں ادارے ایس پی اے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے شاہ سلمان سے تیل کی منڈیوں میں استحکام کے لیے آئل فراہم کرنے کی کوششوں اور عالمی معاشی ترقی کے معاملات پر بات چیت کی۔ سعودی عرب دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک اور اوپیک کا اہم رکن ہے، جسے ٹرمپ کی جانب سے تیل کی زیادہ قیمتوں پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب نے اسلامی اتحاد کے نام پر کرائے کی ایک بڑی فوج تیار کر لی ہے اور اس وقت یمن میں جنگ کر رہا ہے جبکہ ایران سے تعلقات درست ہونے کی تاحال کوئی امید ہی نہیں۔ مسلکی جھگڑوں سے فائدہ اٹھا کر امریکہ اپنے اسلحے کی بھاری کھیپ بیچنے کے لئے کبھی بھی ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بہتر نہیں ہونے دے گا بلکہ جس حد تک ممکن ہو ان ممالک کے درمیان اختلافات کو فروغ دینے کے لئے اپنی منصوبہ بندی جاری رکھے گا۔ امریکی تھنک ٹینک کی لڑاؤ اور تقسیم کرو کی تازہ مثال افغانستان میں داعش کی موجودگی اور خاص طور پر اہل تشیع افراد کو نشانہ بنانا ہے۔ افغانستان میں سوچی سمجھی سازش کے تحت داعش کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا جا رہا ہے تاکہ ایک وقت میں بہت سے محاذوں پرلڑا جا سکے۔ ایک طرف تو ایران پر دباؤ ڈالنا مقصود ٹھیرا دوسری طرف پاکستان میں مسلکی اخلافات کو ہوا دے کر خلفشار پھیلانا تاکہ اس صدی کے سب سے بڑے تجارتی اور سفری روڈ لنک سی پیک کو نقصان پہچایا جا سکے تیسرا افغانستان میں طالبان کو محدود کرنا۔

امریکہ اپنے اسلحے کی فروخت کے لئے جس حد تک دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے بنتا رہے گا۔ قطر سے سعودیہ کے تعلقات خراب ہیں اور ایسے ہی دوسرے خلیجی ممالک سے تعلقات کا احوال ہے۔ سعودی عرب نے یمن میں جنگ مسلط کی اس کو اب قریب پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب نے امریکہ سے اسلحہ کے نا صرف بڑے معاہدے کیے بلکہ امریکی فوجیوں کی اس جنگ میں شمولیت کی درخواست کی گئی اور اس کے بدلے میں معاوٖضہ تیل اور رقم کی صورت میں طے پایا۔ جو بھی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر امریکہ اس وقت یمن کے معاملے میں پیچھے ہٹ جائے تو سعودیہ عرب کے لئے اپنا دفاع مشکل ہو جائے گا کیونکہ سوائے یمنی شہری علاقوں پر امریکی آشیرباد میں اسلامی اتحاد نے وحشیانہ بمباری میں بے گناہ شہریوں کو شہید کرنے کے علاوہ جنگی میدان میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی اور یہ بات شاطر امریکی صدرٹرمپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔

طرفہ تماشہ یہ ہے کہ سعودی بادشاہت کی جانب سے یمن پر مسلط کردہ جنگ کے باوجود دنیا کی ہمدردی سمیٹنے کے لئے یہ نعرہ بلند کیا گیا کہ مکہ مکرمہ کو حوثیوں سے خطرہ ہے۔ حوثی ایران کے تعاون سے سعودی اور امریکی فوج کا مقابلہ کررہے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس قبیلے نے اب تک مکہ کی طرف ایک بھی کارروائی نہیں کی لہذاہ اب یہ واضح ہو رہا ہے کہ مکہ مکرمہ جیسی مقدس سر زمین کو اپنے خاص مقاصد کے لئے کون استعمال کر رہا ہے۔ ظلم شام کی سرزمین پر ہو یا یمن کی زمین پر قابلِ مذمت ہے اور حقیقت تو یہ کہ اس وقت یمن کے عوام محصور کردیے گئے ہیں اور ان پر نا ختم ہونے والے مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ یمن جنگ کے نتیجہ میں اب تک کئی ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور کئی معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یمن میں ظلم کا حالیہ واقعہ بچوں کے ایک اسکول پر حملہ تھا جس میں کتنے ہی بچے پلک جھپکتے ابدی نیند سلا دیے گئے۔

بہرحال خلیج فارس میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی اس وقت مسائل کا شکار ہے۔ اور اس کا اندازہ ٹرمپ کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک اسکول آف تھاٹ کا ماننا ہے کہ ٹرمپ بولتے پہلے ہیں سوچتے بعد میں ہیں جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ امریکی صدر ہمیشہ اپنے تھنک ٹینک کی وضع کردہ پالیسی کا ترجمان ہی ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے بیان تو دے دیا لیکن اس بیان کے بعدامریکی حکومت نے ایک پٹائی لگائے دوسرا گال سہلائے کی پالیسی کے تحت امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ٹیلی فون پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے رابطہ کیا جس میں علاقائی اور عالمی حالات کے علاوہ دو طرفہ امور پر بات چیت کی گئی ٹیلی فونک رابطے میں امریکہ اور عرب کے درمیان دو طرفہ تعاون کا دائرہ وسیع کرنے کے حوالے سے جائزہ لیا گیا اور کہا گیا کے دونوں ممالک کو علاقائی مسائل پر توجہ مرکوز رکھنی چایئے۔

امریکہ کے بیان پر سعودی حکومت پر اب بہت سے سوال اُٹھتے ہیں کہ کیا واقعی سعودی حکومت اتنی کمزور ہے کہ وہ امریکہ کہ بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔ آل سعود ہمیشہ اپنی عیاشیوں میں غرق رہی اپنے قوتِ بازو پر یہ قوم اب کچھ کرنے کے قابل نہیں سوائے اونٹوں کی ریس کےلئے معصوم بچوں کو موت کے منہ میں دکھیلنے، مہنگی ترین گاڑیوں پر ریس لگانے، ناؤ نوش کی محفلیں سجانے دنیا بھر کے فریبی حسن و جمال کا سامان بد کردار عورتوں پر پیسہ لٹانے کے اور ان جیسی کئی خرافات کی ایک طویل فہرست ہے۔ اب بھی شہزادہ سلمان اپنی حکمت عملی پر ازسرِنو توجہ نہیں دیتے تو عین ممکن ہے کہ معاملات ان کی دسترس سے باہر ہوجائیں۔

سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات سٹرٹیجک نوعیت کے ہیں۔ سعودی حکومت کو اپنی سالمیت کی حفاظت میں امریکی اسلحے اور افواج کی ضرورت رہی ہے۔ امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں اس وقت سعودی عرب سے اربوں ڈالر کا کاروبار کررہی ہیں۔ اس اسلحہ میں جدید ساخت کا حامل وہ اسلحہ بھی شامل ہے جو فقط امریکہ کے علاوہ دنیا میں اور کسی ملک کے پاس موجود نہیں۔

ولی عہد شاہ محمد بن سلمان سعودی عرب کو جدید بنانے اورٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے کی اتنی جلدی میں تھے کے سارے اقدامات فوری طور پر کرنے لگے۔ انہیں اس بات کا شاید علم نہیں تھا کہ ٹرمپ میاں اپنے نہیں ہوئے تو کسی کے کیا ہوں گے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ویسے ہی مخصوص پالیسی کے زیر اثر دنیا کے امن کو تہس نہس کرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ ولی عہد شاہ محمد سلمان اپنے ملک کی ان پالیسز کو بھی بدل ڈالا جو سعودی عرب کے قیام سے لے کر اب تک رہیں تھی۔ شاید شہزادہ بن سلمان اپنے طورسےکیے گئے تمام اقدامات کو بہتر تصور کررہے تھے لیکن درونِ خانہ سعودیہ کے مسائل اس وقت گھمبیر صورتحال اختیار کرگئے ہیں۔ پہلے پہل تو کرپشن کے خلاف کارروائی کا نعرہ لگاتے ہوئے متعدد شہزادوں کو گرفتار کیا جس سے شاہی خاندان میں دراڑیں پڑیں۔ ان میں سے ایک گرفتاری شہزادہ ولید بن طلال کی بھی تھی اب یہ گرفتاری کرپشن کے خلاف کارروائی کا نتیجہ تھی یا ڈونلڈ ٹرمپ اور شہزادہ ولید بن طلال کے درمیان 2016 میں ٹوئیٹر پر ہونیوالی جھڑب کا نتیجہ اس پر اب بھی لبوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔ شاہ سلمان کی دوسری بڑی غلطی ملک میں ٹیکس کی مد میں لی جانے والی رقوم میں ہوش رُبا اضافہ ہے جس سے مقامی اداروں کو شدید نقصان ہورہا ہے۔

سعودیہ عرب نے ٹرمپ پر نا صرف اندھا اعتبار کیا بلکہ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ہی اسلامی ملٹری الائینس تشکیل دی جس کا مقصد سعودی عرب کا دفاع ہے لیکن درپردہ یہ فقط مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف کرکے دنیا کے امن کو تباہ کرنے کی سازش کے سواء اور کچھ نہیں۔ امریکی صدر کی طرف سے سعودیہ عرب کو دی جانے والی دھمکی صرف سعودیہ کو نہیں بلکہ تمام مسلم ممالک کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ سعودی عرب نے کبھی اپنے قوتِ بازو پر نا یقین کیا ہے اور نا ہی اپنے مقامی نوجوانوں کی جنگی تربیت پر کبھی خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس وقت ساری دنیا میں غیر مسلم ریاستوں کے بہ نسبت مسلم ممالک اسلحہ کی دوڑ میں صفِ اول میں شامل ہیں۔ طاقت کا توازن قائم رکھنے کا نعرہ لگاتے ہوئے تباہ کن اسلحہ کی دوڑ میں آگے بڑھتے مسلم ممالک کسی صورت امن کا خواب پورا نہیں کرسکتے ہتھیاورں سے امن قائم نہیں ہوسکتا یہ تو تباہی کا شاخسانہ اور نوع انسانی کو تباہ کرنے کا وتیرہ ہے۔ اب بھی وقت ہے مسلم ممالک کو باہمی اختلاف پسِ پشت ڈال کر اَمن کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ اسلحہ سازی کی صنعت ختم ہوتے ہی امریکی سرمایہ دارانہ نظام کی امارت زمیں بوس ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).