آیا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اوتار بھی


پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ تاریخ ساز فیصلے کررہی ہے۔ ان فیصلوں پر عوام کا ردِعمل زیادہ تو سامنے نہیں آیا مگرجہاں بھی چیف جسٹس جاتے ہیں، قانون اور انصاف سے محروم لوگ اپنی داستانِ غم سنانے آجاتے ہیں اور ایسے میں اردو کا مشہور زمانہ محاور ہ حالات کی تفسیر بیان کرتا ہے ”ایک انار سو بیمار“۔ انار کئی بیماریوں کا شفائی علاج ہے اور کچھ ایسی ہی کیفیت ہمارے ہاں ہے۔ انصاف اور قانون کی فراہمی کے لیے چیف جسٹس کی طرف دیکھا جاتا ہے اور پھرقسمت کہ جس پر بھی چیف کی نظر پڑ جائے۔

عوامی مسائل اور معاملات کے لیے کارِسرکار کی توجہ اور رہنمائی بہت ہی لازمی ہوتی ہے۔ ہماری سرکار کے کارندے جن کو نوکر شاہی کہا جاتا ہے اپنی حیثیت منواتے نظر آتے ہیں۔ ان کو عوامی مفاد سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور ان ہی کی وجہ سے سرکار کی سبکی بھی ہوتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاک پتن کی روحانی وادی میں ایک پولیس افسر کے حوالہ سے اعلیٰ عدلیہ بہت توجہ دیتی نظر آرہی ہے۔ یہ معاملہ بالکل بھی عوامی نہیں ہے۔ دو فریقوں کا ذاتی سا معاملہ تھا۔ پولیس کا یہ رویہ بھی نیا نہیں اور سرکار کے چلانے والے بھی تکبر میں کسی سے کم نہیں۔

یہ معاملہ کئی دن سے اخبارات کی زینت بن رہا ہے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ متاثر فریق عدالت میں روپڑا۔ اس قسم کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں۔ اس مقدمہ سے عوامی سطح پرکیا تبدیلی آسکتی ہے اور غیر ضروری طورپر اس کی تشہیر میڈیا کیوں کررہا ہے۔ کئی سال پہلے ایک شخص جو عدلیہ کی اعلیٰ اختیاراتی سیٹ پربراجمان تھا۔ اس نے عدلیہ کی آزادی کی جنگ عوام کی مدد سے لڑی اور جیتی بھی تھی مگرجنگ جیت کر سپاسالار اوتار نہیں بن جاتا۔

خالد بن ولید جن کو جنگی خدمات کے نتیجہ میں اللہ کی تلوار بھی کہا جاتا ہے، ان کے غیرارادی فعل کی بنا پر حضرت عمرؓ نے ان کو عرش سے فرش پر بیٹھا دیا تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری عدلیہ کی جنگ جتنے کے بعد اپنے رویہ اور سلوک کی وجہ سے اپنی جنگ ہار گئے اور ہمارے ہاں خاص طور پر کرسی ہی مضبوط ہوتی ہے۔ ہماری ریاست اور سیاست میں چیف جسٹس اور پاکستان کا سپاسالار بڑی اہمیت اور حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور صرف اس وقت تک جب تک ان کے ہاتھ میں اختیار اور اقتدار ہوتاہے۔ وہ طاقت اور اختیار کا سرچشمہ ہوتے ہیں۔ جب وہ ریٹائر ہوتے ہیں تو ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔

ہمارے میڈیا کے بڑے لوگ شکایت کرتے نظر آرہے ہیں کہ ان کی آزادی سلب کی جارہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم ان کی آزادی کہاں سے شروع ہوتی ہے، عام حالات کے مطابق اخبارات اور چینلز پر سب کچھ بیان ہورہا ہے اور ایمانداری کی بات ہے کہ اصل بیانیہ کئی دفعہ حقیقت سے دور ہی ہوتا ہے۔ پھرآزادی کا تصور بھی واضع نہیں ہے۔ ملکی مفاد میں بعض معاملات کو صرف نظر کرنا ضروری اور پالیسی کا حصہ ہوتے ہیں مگر قانون اور انصاف ایسے معاملات کو نظرانداز نہیں کرتا۔ ہماری سیاسی اشرافیہ جس ہمت اور جرات سے دورغ گوئی اور لاف زنی کرتی ہے اس پر میڈیا اپنا ردِعمل اپنی مرضی اور خواص کی توجہ سے دیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں سابق صوبےدار پنجاب شہبازشریف جس طرح سے اسمبلی میں گرجے اور برسے، وہ بالکل ایسا ہی تھا کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ کاش وہ اتنی نرم دلی اور خلوص عوام کے لیے اپنے دور اقتدار میں اختیارکرتے۔ اس وقت تو ان کا اختیاراور تکبر عوام کے لیے بھی مشکل بنا ہوا تھا۔

کچھ ایسا ہی رویہ سندھ کے سیاسی لوگوں کا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری جوآج کل کافی پریشان ہیں۔ وہ اپنے طور پراپنی جنگ لڑنے میں مصروف بھی ہیں۔ ان کے نورِچشم پہلی بارقومی اسمبلی کے ممبر بننے والے خوش قسمت بلاول بھٹو زرداری بھی والد محترم کے مقدمات کی وجہ سے پریشان نظر آرہے ہیں۔ اسمبلی میں ان کا بیان وزیراعظم عمران کی سرکار پر خاصا جارحانہ تھا۔ مگراپنی جماعت کی سیاست پر وہ بولتے شرماتے ہیں اور وہ سندھ کے لیے وزیراعلیٰ کا انتخاب تو کرسکتے ہیں مگرسندھ کی حالت زار کو بدلنے پر کوئی کردارادا کرنے سے معذور نظرآتے ہیں۔

اس وقت پیپلزپارٹی ایک دفعہ پھرمسلم لیگ نواز کی مدد کے لیے میدان میں آرہی ہے۔ یہ کردار حب علی کے طور پر نہیں ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو عوام نے مسترد کردیا ہے۔ ان سے مشورے اور حکمت حاصل کی جارہی ہے۔ جمہوریت کی جنگ کے لیے مولانا فضل الرحمن کا کردار بھی بڑا انوکھا سا ہے۔ جمہوریت بھی ایسی جس میں عوام کو بالکل اہمیت نہیں دی جاتی۔ ان کو بھی اندازہ ہے کہ پس پردہ سابق وزیراعظم جونا اہلی کے بعد قانونی دشواریوں سے دوچار ہیں۔ وہ محفوظ طریقہ سے عدالت سے معاملہ طے کرنے پر راضی نظر آتے ہیں اور ان کی خاموشی اس پس منظر میں ہے اور کچھ ایسا ہی سلوک سابق صدر آصف علی زرداری بھی چاہتے ہیں اور اس کے لیے دونوں سیاسی جماعتیں تیار ہوتی نظر آتی ہیں۔

اس وقت تحریک انصاف کی سرکار اور وزیراعظم عمران خان کئی مشکلات اور مسائل سے دوچار ہیں۔ ایک طرف معاشی صورتِ حال کافی مخدوش ہے۔ پھر آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کی معیشت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ عمران خان عدلیہ کے معامعلات میں مداخلت کے حامی نہیں مگران کی جماعت کے عقاب عدلیہ سے بات کرنے کے مشورے دیتے رہتے ہیں۔ عمران خان اصولی سیاست سے ملک کانظام چلانا چاہتے ہیں جو ہماری اشرافیہ اور سیاسی لوگوں کو پسند نہیں ہے۔ پھرجمہوریت کا راگ الاپنے والے ممبران اسمبلی اپنے مفادات کے لیے اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ ان کو عمران خان کے بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات سے بھی اختلاف ہے۔ عجیب جمہوری نظام ہے جو جمہور کو نظرانداز کرکے جمہوریت کا دعویدار بنتا ہے۔

اس وقت پاکستان کے عسکری ادارے سرکار وقت کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرتے نظرآرہے ہیں۔ چین کے معاملات پر مشاورت عمران خان کے لیے باعث تشکر ہے۔ بھارت کی سیاست اور رویہ سے سب سے زیادہ نقصان میاں نوازشریف کی جماعت کو ہورہا ہے۔ بیرون ملک مفروربھی مسلم لیگ نواز کی زبان بندی کا باعث ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے پنجاب کے کچھ لوگوں پر ہاتھ ڈالا ہے جو مفرور ہوچکے ہیں۔ ان کا تعلق مسلم لیگ کے اہم لوگوں سے اور تحریک انصاف کے خاص لوگوں سے ہے۔ ذرا ان پر ہاتھ ڈال کردیکھ لیں جو ذرا مشکل ہے۔ پاک پتن کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے کرنا ضروری ہے۔ وہ عوامی معاملہ نیں، فریقین کو آپس میں معاملے طے کرنے کا موقع دیں۔ عدلیہ اگرعوامی مسائل پر کردار اد اکرتی رہے تو اس سے ہی جمہوریت مضبوط اور مقبول ہوسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).