مسکان خان کا عورت مارچ


وہ عورت مارچ ہی تھا جو مسکان خان نے کیا۔ بھارت کے جنونیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجانا، ان کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ لگانا اور حجاب اتارنے سے انکار کرنا۔ میرا برقع میری مرضی۔ یہی عورت مارچ ہے۔ ہر عورت کی طرح مسکان خان کا بھی بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کا لباس پہنے اور اپنے عقیدے، مذہب اور رسوم و روایات کے مطابق زندگی گزارے، کسی انسان کو ان حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ آر ایس ایس کے غنڈے کرناٹک میں مسلمان لڑکیوں کے سروں سے جو حجاب نوچ کر پھینک رہے ہیں دراصل یہ کہہ رہے ہیں کہ تمہیں اپنی مرضی سے جینے کا کوئی حق نہیں، تم ہندو معاشرت، دھرم اور سماج میں اپنی مسلمانیت کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی، اگر یہاں رہنا ہے تو محکوم بن کر اس طرح رہنا ہو گا جیسے ہم چاہیں گے، تمہاری حدود و قیود ہم طے کریں گے، ہم فیصلہ کریں گے کہ تم کس قسم کا لباس پہنو گی، اور حجاب کو تو بھول ہی جاؤ۔

ان حالات میں ایک انیس برس کی مسلمان لڑکی کا جنونیوں کے گروہ کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ لگانا کسی جہاد سے کم نہیں تھا۔ اسے سلام پیش کیا جانا چاہیے۔ اور اسی اصول کے تحت یہ سلام ان تمام پاکستانی عورتوں کو بھی پیش کیا جانا چاہیے جو اس پدر سری معاشرے میں اپنے حقوق کے لیے ہر سال عورت مارچ کرتی ہیں۔ ان عورتوں کی مخالفت میں بھی کم و بیش اسی قسم کے دلائل استعمال کیے جاتے ہیں جو اس وقت بھارت میں مسلمانوں کے خلاف دیے جا رہے ہیں۔

مثلاً یہ عورتیں پاکستان میں جیسے اسلامی ملک میں لبرل ایجنڈے کی علم بردار ہیں، انہیں صرف من پسند مردوں کے ساتھ سونے کا حق چاہیے، عورتوں کے حقیقی مسائل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں، اگر انہیں احتجاج کرنا ہے تو فلاں فلاں ایشو کو اجاگر کیوں نہیں کرتیں، یہ بیہودہ نعروں کے ذریعے صرف مغرب کے ایجنڈے کو مسلط کرنا چاہتی ہیں، یہ ہماری اقدار اور مذہبی رسومات پر حملہ ہے، ہم اسے کبھی برداشت نہیں کریں گے، وغیرہ۔ اس منطق میں اور بھارتی جنونیوں کی منطق میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔

آر ایس ایس والے بھی مسلمانوں کو اپنی اقدار، دھرم اور سماج کے لیے ویسا خطرہ ہی سمجھتے ہیں جیسا ہمارے یہاں کے مردوں کی اکثریت عورت مارچ والی خواتین کو مسلم اقدار کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر آر ایس ایس کے جنونی کارکن مسلمان عورتوں کے حجاب پہننے کے خلاف ہیں، اسی لیے وہ مسلمانوں کو جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کرتے ہیں اور اسی لیے وہ یوگی ادھتیاناتھ، امیت شاہ اور نریندر مودی جیسے فسطائی ذہنیت کے لیڈران کو ووٹ دیتے ہیں جو بعینہ وہ خیالات رکھتے ہیں جو کسی ہندو جنونی کے ہو سکتے ہیں۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ جس اصول کے تحت ہم مسکان خان کے بنیادی حقوق کی حمایت کر رہے ہیں اسی اصول کے تحت اپنے ملک کی عورتوں کے حقوق کی حمایت کیوں نہیں کر سکتے؟

ایک ممکنہ جواب یہ ہو سکتا ہے کہ مسکان خان تو اپنے بنیادی حق کے لیے نعرہ لگا رہی تھی جبکہ یہ خواتین اپنے لیے وہ آزادیاں مانگ رہی ہیں جو پاکستانی معاشرت اور اسلامی روایات کے بالکل منافی ہیں جن کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کیا یہ بالکل وہی استدلال نہیں ہے جو کرناٹک میں مسلمانوں کے خلاف دیا جا رہا ہے کہ ان مسلمان عورتوں کا حجاب ہماری ہندو تہذیب اور معاشرت پر حملہ ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا؟

نجانے کیوں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ عورت مارچ والی عورتیں ہمارے اقدار کے لیے خطرہ ہیں۔ سال بھر میں مشکل سے چند ہزار عورتوں کا اجتماع اگر ہماری اقدار کے لیے خطرہ ہے تو پھر ہمیں ایسی روایات اور اقدار پر فخر کرنا چھوڑ دینا چاہیے جو محض چند عورتوں کی نعرے بازی سے ہی زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ اگر پاکستانی عورتوں کا ایجنڈا ہم مردوں کی نظر میں لبرل ہے، مغرب زدہ ہے اور مذہب دشمن ہے تو مسکان خان کا ایجنڈا آر ایس ایس کی نظر میں کیا ہے؟

ان کی نظر میں مسکان جیسی عورتوں کا ایجنڈا بھی ایسا ہی مذہب اور سماج دشمن ہے۔ ہم مسکان کو تو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں مگر اپنی عورتوں کو گالیاں دیتے ہیں! اگر ہم پاکستان میں رہتے ہوئے چند مسلمان عورتوں کا اجتماع محض اس وجہ سے برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ ہماری مرضی کے مطابق احتجاج کا طریقہ کار کیوں نہیں اپناتیں، ہم سے پوچھ کر نعرے کیوں نہیں لکھتیں اور ہماری مرضی کا لباس کیوں نہیں پہنتی تو پھر ہم کس منہ سے مسکان خان کی حمایت کر رہے ہیں؟ پھر تو ہمیں آر ایس ایس کے غنڈوں کا استدلال بھی درست ماننا پڑے گا! اور یہ بات بھی کسی لطیفے سے کم نہیں کہ اگر مسکان کا عقیدہ وہ نہ ہوتا جو ہمیں پسند ہے تو ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی۔

عورت مارچ والوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ اگر کوئی دلیل دی جا سکتی ہے تو وہ یہ کہ ان کے ایجنڈے کا ابلاغ ٹھیک سے نہیں ہو سکا۔ ایک دن پہلے انہوں نے اپنے منشور کا اعلان کیا ہے جس کا نعرہ ہے کہ ’میرے اندر کی ہر عورت انصاف کی منتظر ہے‘ مگر عورت مارچ کے ناقدین یہ منشور پڑھے بغیر ہی ان کی گرفت ’میرا جسم میری مرضی، اپنا کھانا خود گرم کرو، اپنے موزے خود تلاش کرو‘ جیسے نعروں پر کریں گے۔ عورت مارچ کا منشور کہیں پیچھے چلا گیا ہے اور یہ نعرے زبان زد عام ہو گئے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہو اگر اس مرتبہ عورت مارچ والے مسکان خان کا پوسٹر اٹھا کر احتجاج کریں۔ جس طرح موسمیاتی آلودگی کا خطرہ عام بندے کو سمجھایا نہیں جا سکا اسی طرح عورت مارچ کا منشور بھی عام آدمی کی نظر میں الٹرا ماڈرن اور لبرل ازم سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس دلیل میں کچھ وزن ضرور ہے مگر اس کے جواب میں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ اگر ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسا نعرہ نہ لگتا تو شاید کسی نے عورتوں کے حقوق کی بات کو سنجیدگی سے لینا ہی نہیں تھا۔

آخر عورتوں کا عالمی دن تو پہلے بھی منایا جاتا تھا، اخبارات میں ایک روایتی قسم کا صفحہ شائع کر دیا جاتا تھا اور اللہ اللہ خیر سلہ۔ اب ایسے نہیں ہوتا۔ اب عورت مارچ کی وجہ سے پاکستان میں اس دن کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور اس کی وجہ وہ نعرے ہیں جو ہم مردوں کو چبھتے ہیں۔ ویسے اگر عورت مارچ میں یہ نعرے نہ بھی لگتے تو بھی ہمیں عورتوں کی آزادی قبول نہ ہوتی کیونکہ مرد کو طاقت ور عورت نہیں بھاتی، وہ اسے محکوم ہی بنا کر رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے عورت مارچ پر تنقید کرنے والے بار بار کہتے ہیں کہ اگر آپ فلاں مسائل پر ’شریفانہ‘ طریقے سے احتجاج کریں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ تمہیں عقل نہیں کہ کون سی بات کب اور کیسے کرنی ہے کیونکہ تم کمتر درجے کی مخلوق ہو۔ سارا مسئلہ اسی مائنڈ سیٹ کا ہے۔ اور جو لوگ یہ تاویل دیتے ہیں کہ عورت مارچ والی عورتوں کا احتجاج بے حیائی ہے تو انہیں چاہیے کہ پھر وہ کم از کم ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی کے منعقد کردہ اجتماع میں ہی شرکت کر لیا کریں، وہ بھی خواتین کا عالمی دن مناتی ہیں اور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں بلکہ عورت مارچ والوں کو بھی چاہیے کہ ان کی حمایت حاصل کریں۔

میں ایک مرد ہوں اور عورت مارچ کے ایجنڈے سے سو فیصد متفق بھی نہیں مگر اس کے باوجود عورت مارچ کی حمایت کرنے پر بعض حضرات (خاص طور سے وہ جنہوں نے اپنی پروفائل پر کوئی مذہبی تصویر لگائی ہوتی ہے ) اس قسم کا رد عمل دیتے ہیں کہ طبیعت روشن ہو جاتی ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ ان عورتوں کے ساتھ یہ مرد کیا سلوک کرتے ہوں گے جو اپنے حقوق کی خاطر سڑکوں پر نکلتی ہیں۔ آ کر یہ عورتیں صرف اتنا ہی تو کہتی ہیں کہ ان کا ریپ نہ کیا جائے، ان کے چہرے پر تیزاب نہ پھینکا جائے، غیرت کے نام قتل کرنے والوں کو رہا نہ کیا جائے، ملازمت کے دوران ہراساں نہ کیا جائے، وراثت میں حصہ دیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں انسان سمجھا جائے بالکل اسی طرح جیسے بھارت میں مسکان خان کہہ رہی ہے کہ اسے انسان سمجھا جائے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments