جنسی ہراسگی پر خاتون صحافیوں کی بے خوف آوازیں


انڈیا

‘اپنے ساتھ ہوئی جنسی ہراسگی کے بارے میں کھل کر بولنے میں کوئی شرم نہیں ہے، بلکہ میں نے محسوس کیا کہ بولنے سے میرے اندر جو شرم اور احساس گناہ (کہ اس میں کہیں میری ہی غلطی تو نہیں) ہے میں اس سے باہر نکل سکوں گی اور درحقیقت جسے شرمندہ ہونا چاہیے اسے سماج کے سامنے پیش کر سکوں گی۔’

نیوز ویب سائٹ ‘دی وائر’ کی رپورٹر انو بھوین ان خواتین میں سے ہیں جنھوں نے سوشل میڈیا پر اپنی جنسی ہراسگی کے تجربات ان الفاظ میں شیئر کرنے شروع کیے۔

جنسی ہراسگی میں کسی کے منع کرنے کے باوجود اسے چھونا، چھونے کی کوشش کرنا، جنسی تعلق قائم کرنے کا مطالبہ کرنا، جنسیت زدہ زبان میں بات کرنا، فحش مواد دکھانا یا دانستہ یا نادانستہ طور پر بغیر رضامندی کے جنسی برتاؤ کرنا شامل ہے۔

یہ انڈیا میں کتنا عام ہے، کتنی عورتوں کے ساتھ کام کرنے کی جگہوں پر ہو رہا ہے، اور اس پر کتنی خاموشی ہے، یہ سب جمعہ کو سوشل میڈیا میں MeToo# کے ساتھ آنے والی ٹويٹس کے سیلاب میں نظر آیا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا یہ بالی وڈ کا MeToo# لمحہ ہے؟

بالی وڈ میں جنسی ہراس حقیقت کیوں ہے؟

اداکارہ تنوشری دتہ کے اداکار نانا پاٹیکر پر الزام لگانے اور کامک آرٹسٹ اتسو چکرورتی کے جنسی ہراساں پر بولنے کے بعد اس قسم کی مزید آوازیں سوشل میڈیا پر بلند ہونے لگیں۔

صحافت کے شعبے سے بھی آوازیں بلند ہوئيں

ان میں سے زیادہ تر آوازیں صحافت کے شعبے سے اٹھیں۔ کئی خواتین نے مردوں کا نام بھی ظاہر کیا تو کئی خواتین نے ان کے نام لیے بغیر اپنے تجربات شیئر کیے۔

کئی معاملے کام کی جگہ پر بغیر رضامندی کے جنسی برتاؤ کے بارے میں تو کئی جنسی تعلق قائم کرنے اور فحش مواد یعنی پورن دکھانے کے بارے میں تھے جبکہ کئی میں ساتھ کام کرنے والے یا باس کے غلط رویے کا ذکر تھا۔

ان خواتین کی آواز میں ایک قسم کا غصہ اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ بے خوف ہوکر اپنی آواز اٹھانے حوصلہ بھی نظر آیا۔

انو بھوین نے بزنس سٹینڈرڈ اخبار کے صحافی مینک جین کا نام لے کر اپنے ٹویٹس میں لکھا کہ انھوں نے ان سے جنسی تعلقات کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں انو ‘اس قسم کی لڑکی ہیں’، جس کے بعد انو یہ سوچتی رہیں کہ کیا وہ واقعی اس قسم کی لڑکی ہیں؟

انو کے بعد ‘فیمینزم ان انڈيا’ نام کی ویب سائٹ چلانے والی جپلين پسريچا سمیت کئی دوسری عورتوں نے جین کے خلاف گذشتہ کچھ سالوں میں ایسے برتاؤ کے الزامات لگائے۔

یہ بھی پڑھیے

جنسی ہراس کے خلاف ہالی وڈ کی ’ٹائم اپ‘ مہم

’اب وقت آگیا ہے کہ انڈیا بھی کہے: می ٹو‘

اسی دوران، آن لائن نیوز ویب سائٹ ‘سکرول’ نے اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا کہ جس وقت مینک اس ادارے سے منسلک تھے ان کے خلاف جنسی ہراسگی کی شکایت کی گئی تھی۔ شکایت کنندہ نے باضابطہ شکایت نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ مینک کو تحریری تنبیہ دے کر چھوڑ دیا جائے۔

جب بی بی سی نے ان الزامات کے بارے میں بزنس سٹینڈرڈ سے پوچھا تو وہاں سے یہ کہا گیا کہ ‘جب ہم اس مسئلے پر کچھ کہنا چاہیں گے تو ہی ہم کچھ کہیں گے۔’

می ٹو

دفتر میں ہراساں کرنا

جپلین پسریچا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر ٹویٹ کرنے کا فیصلہ اس لیے فیصلہ کیا کیونکہ انھیں نے یہ محسوس کیا کہ اس مسئلے پر بات کرنے والی دوسرے خواتین کے ساتھ کھڑا ہونا ضروری ہے۔

انھوں نے کہا: ‘میں دو سالوں تک خود کو سمجھاتي رہی تھی کہ کوئی بات نہیں وہ بس ایک حادثہ تھا لیکن جب سب نے بتانا شروع کیا تو پتہ چلا کہ ایسا کتنی ہی عورتوں کے ساتھ ہوا ہے، اور MeToo# اسی خاموشی کو توڑنے اور اسے سامنے لانے کے لیے ہے۔’

امریکہ میں جہاں تقریبا ایک سال پہلے MeToo# مہم کی شروعات ہوئی تھی وہیں سپریم کورٹ میں جج بنائے جانے کی دوڑ میں شامل بریٹ كیونو پر جنسی تشدد کے الزام لگے ہیں اور معروف فٹبال کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو پر ریپ کے الزامات سامنے آئے ہیں۔

تام رواں سال چند آوازوں کے علاوہ انڈیا میں جنسی ہراساں کیے جانے پر ایک عجیب خاموشی رہی ہے۔ اور یہ حال اس وقت ہے جب انڈیا میں اس جرم کے خلاف قوانین بنائے گئے ہیں۔

کام کی جگہ پر جنسی ہراسگی کے متعلق سنہ 1997 میں گائیڈ لائن تیار کی گئي تھے جسے سنہ 2013 میں قانون کا درجہ دیا گيا اور اس کے تحت کمپنیوں اور اداروں کو اپنے یہاں شکایت کمیٹیاں بنانے کا پابند کیا گيا۔

یہ بھی پڑھیے

’جنسی زیادتی کی ذمہ دار خود عورتیں ہی ہیں‘

‘میرے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے’ کیا یہ کہنا آسان ہے؟

اس قانون کے تحت جنسی تشدد کی شکایت کیے جانے پر ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک شکایت کمیٹی کا قیام کرے جس کی صدارت ایک عورت کرے، اس کی آدھی سے زیادہ رکن خواتین ہوں اور اس میں جنسی استحصال کے معاملے پر کام کرنے والی کسی بیرونی غیر سرکاری تنظیم کا نمائندہ بھی شامل ہو۔

ایسی کئی كمیٹیوں میں بیرونی نمائندے کے طور پر شامل ہونے والی فیمنسٹ لکشمی مورتی کے مطابق یہ قانون بہت اہم ہے کیونکہ یہ عورتوں کو اپنی کام کی جگہ پر رہتے ہوئے مجرم کو کچھ سزا دلانے کا اختیار دیتا ہے۔

یعنی یہ جیل اور پولیس کے سخت راستے سے علیحدہ انصاف کے لیے ایک درمیانی راستہ ہے۔

مرد و زن

‘سزا کی پرانی تعریف بدل رہی ہے’

لیکن سوشل میڈیا پر صحافیوں کا کہنا ہے کہ کمیٹیوں کا راستہ ہمیشہ مؤثر نہیں ہوتا۔

سندھیا مینن نے دس سال پہلے ٹائمز آف انڈیا اخبار کے نمائندے كے آر شرينيواس کی جانب سے اپنی مبینہ ہراسگی کے بارے میں لکھا اور الزام لگایا کہ کمیٹی میں شکایت کرنے پر انھیں یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ، اس پر ‘توجہ’ نہ دیں۔

ٹائمز آف انڈیانے اب ان الزامات کی تحقیقات کی بات کہی ہے لیکن کمیٹی کے برتاؤ کے بارے میں بی بی سی کے سوال کا ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔ دوسری جانب صحافی كے آر سرینواس نے ٹویٹ کیا کہ وہ اس تحقیقات میں مکمل تعاون کریں گے۔

بی بی بی کے ساتھ بات چیت میں سندھیا نے کہا: ‘میں نے اس وقت بہت تنہا محسوس کیا تھا اور چند مہینے بعد وہ ملازمت چھوڑ دی، لیکن پچھلے سالوں کے دوران میں نے اس شخص کے خلاف کئی الزامات کے بارے میں سنا اور فیصلہ کیا کہ مجھے اب لکھنا چاہیے۔’

سزا کی پرانی تعریف اب بدل رہی ہے۔ خواتین ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہیں اور اسی لیے وہ کھل کر بول رہی ہیں۔

جپلین کے مطابق: ‘ان کمیٹیوں سے جو انصاف ملتا ہے وہ بہت وقت طلب ہے اور گذشتہ چند واقعات میں ہم نے دیکھا ہے کہ اداروں میں عورت کے متعلق حساس رویہ نہیں ہے۔ ایسے میں سرعام کسی شخص کے غلط برتاؤ کے بارے میں خبردار کرنا بہتر طریقہ ہو سکتا ہے۔’

سوشل میڈیا پر اپنے ذاتی تجربے لکھ کر کیا حاصل ہوگا؟

سندھیا کے مطابق اس سے اداروں کو اپنے یہاں کام کرنے والے مردوں سے بہتر طرز عمل کی توقع ہوگی اور اس کے خلاف صورت حال میں سخت اقدام کی ذمہ داری ہوگی۔

‘دی نیوز منٹ’ ویب سائٹ کے ایڈیٹر نے بی بی بی کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ اس سے قبل خواتین صحافی ایک دوسرے کے ساتھ ہی اس قسم کے تجربات مشترک کرتی تھیں اور سوشل میڈیا پر شروع ہونے والے اس مباحثے کے باوجود بہت سی خواتین اپنی کہانی شیئر کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی ہیں۔

انھوں نے کہا: ‘اب یہ باتیں باہر آئی ہیں اور اداروں کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ اس طرح کا سلوک غلط ہے اور اس کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی یہ صرف آغاز ہے اور خواتین کے لیے بہتر ماحول بنانے کی جانب پہلا قدم ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32488 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp