جُز سے کُل کا سفر


میری والدہ کی نصیحت تھی کہ کبھی کسی کو خط لکھ کر اپنے پاگل پن کا تحریری ثبوت مت دینا۔ شکر ہے ایسی نصیحت درویش یا رابعہ کو نہیں کی گئی ورنہ ہم دانش و ادب کے اس خوبصورت مکالمے سے محروم رہ جاتے جو ہم کو ذہن و روح کی اُن دلفریب وادیوں کی یاترا پر لے جاتا ہے جہاں رات کا مہکتا سحر لئے جذبات کی اوس میں بھیگے رابعہ کے الفاظ پر جب درویش کی دانش کی کرن پڑتی ہے تو ہر سو قوس و قزاح کے رنگ بکھر جاتے ہیں۔ جہاں چاندنی رات میں پریاں وجد میں رقصاں ہوتی ہیں تو دن میں تتلیاں محبت اور دوستی کی pollination کرتی ہیں۔

یہ خطوط سفر نامہ ہیں اُن وادیوں تک پہنچنے کا جن کا رستہ یقیناً پُر پیچ اور دشوار گزار ہے۔ جن پر کہیں فرسودہ نظام کے دیو آپ کو یرغمال بنانے کی تاک میں ہیں تو کبھی پاتال میں پڑی سوچ میں گر جانے کا اندیشہ ہے۔ کہیں شعبدہ باز جادوگر عقل و دانش کا لبادہ اوڑھے آپ کو طوطا بنا کر قید کر دینا چاہتے ہیں تو کہیں جہالت کے ایسے غار ہیں جن سے باہر نکلنے کی کوئی تدبیر سُجھائی نہیں دیتی۔

رابعہ دماغ کے دائیں حصّے کی مکین ہے اور اور درویش بائیں حصّے کا باسی۔ رابعہ مشرق ہے اور درویش مغرب۔ رابعہ رات ہے اور درویش دن۔ رابعہ عورت ہے اور درویش مرد۔ رابعہ روح ہے اور درویش ذہن۔

Yin Yang کی طرح بر عکس مگر لازم و ملزوم۔ دو جز ایک کُل۔ Simulations unity/duailty
مگر المیہ یہ ہے کہ gender، race، colour، religion، society، culture، language کے نام پر ہماری آنکھوں پر Fragmentation کی ایسی عینک لگا دی گئی ہے کو ہم کو Totality میں کچھ دیکھنے نہیں دیتی اور فقط اسی پر موقوف نہیں مزید المیہ یہ ہے کہ ہم نے اُن اجزاء (Fragments) کو ایک دوسرے کے مدمقابل بھی کھڑا کر دیا ہے۔ اس مستقل تقابل کا نتیجہ تضاد اور تصادم کی صورت میں ہر طرف نظر آتا ہے۔ چاہے وہ عمومی معاشرتی رویے ہوں یا ہماری اپنی ذات جذبات اور سوچ۔ جبکہ یہ اجزاء کُل کا حصہ ہیں ایک دوسرے کی ضد نہیں۔ بلکل ایک Jigsaw Puzzle کے حصوں کی طرح ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں لیکن مل کر ہی ایک مکمل تصویر تشکیل دیتے ہیں۔ ان اجزاء کو ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ رکھ کر مشاہدہ کرنے سے تصویر کی نا مکمل اور مسخ شدہ شبیہ ہی دیکھائی دیتی ہے۔

صد افسوس کہ تقابل کا یہ رویہ ہم نے مرد و عورت کےباہمی تعلق کے ساتھ بھی روا رکھا اور کہا جاتا رہا۔ عورت کمزور ہے مرد طاقتور۔ عورت کم عقل ہے مرد عقلِ کُل۔ عورت emotional ہے مرد rational۔ عورت رو سکتی ہے مرد رو نہیں سکتا۔ عورت کو درد ہوتا ہے مرد کو درد نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ نتیجہ وہی تضاد اور تصادم۔
ہم نے مرد کے مرد ہونے اور عورت کے عورت ہونے پر اتنا زور دیا کہ دونوں انسان ہونا بھول گئے۔ جہاں رابعہ ہم کو اِن تضادات کا عکس دیکھاتی ہے۔ وہیں درویش مرد و عورت کو اُن کا انسان ہونا یاد دلاتا ہے۔

الغرض یہ تمام یاترا جُز سے کُل کی طرف کا سفر ہے۔ ایک ایسے انسان اور معاشرے کی تشکیل کا سفر جہاں مخالف کی بجائے توصیفی طاقتیں ایک ایسا متحرک نظام بنانے کے لئے تعامل کرتی ہیں جس میں کُل اپنے اجزاء کے مجموعے سے بڑا ہوتا ہے اور یہ طاقتیں اجزاء کے بیچ توازن کی مظاہر۔
رابعہ اس سفر کو روحانیت کا نام دیتی ہے اور درویش انسانیت کا۔
4 اکتوبر 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).