وزیر اعلیٰ کی جمہوریت پسندی


عوام کے ووٹوں کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی حکومت کو جمہوری حکومت کہا جاتا ہے جس کا دعویٰ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان جناب حافظ حفیظ الرحمان اپنے تین اکتوبر کی پریس کانفرنس میں بار بار کرتے نظر آئے۔ انہوں نے وفاقی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح پاکستان تحریک انصاف کو ووٹوں کے نتیجے میں حکومت ملی ہے بلکل اسی طرح ان کو بھی گلگت بلتستان کے عوام نے منتخب کیا ہے اس لئے ان کے منڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ مگر کاش وزیر اعلیٰ صاحب آپ اپنے اس دعویٰ کی لاج ہی رکھ لیتے۔ کیونکہ آپ کے مجموعی رویے سے آپ کی جمہوریت پسندی کے دعوے کی تصدیق نہیں بلکہ تردید ہو رہی ہے۔ کیونکہ آپ اکثر اوقات اپنے پریس کانفرنسوں میں صرف انہی صحافیوں سے سوال لینے کی کوشش کرتے ہیں جن سے آپ کو تنقیدی سوال کی توقع نہیں ہوتی۔ حالانکہ جمہوری اصولوں کے بارے میں معمولی سی آگاہی رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ منتخب عوامی حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہے جو کہ صحافی کے ذریعہ انجام پاتا ہے اس لئے آپ کو وہاں کے صحافیوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہے ورنہ جمہوریت پسند اور عوام کا منتخب ہونے کا دعویٰ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔

یہ درست ہے کہ جب پریس کانفرنس ہوتی ہے تو ملک بھر کے صحافی حضرات آتے ہیں ممکن ہے کہ ان میں قابل ترین صحافی بھی موجود ہوں مگر گلگت بلتستان کے ایک (نکمے ) صحافی کو وہاں مسائل کے بارے میں ادراک ملک کے دیگر علاقے کے (قابل) صحافی سے زیادہ ہوتا ہے ان (نکمے) صحافیوں کے سوالات سخت ضرور ہوں گے مگر زمینی حقائق سے ہٹ کر نہیں ہوں گے۔ جناب وزیر اعلیٰ صاحب آپ کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ آپ سے صرف ایک صحافی سوال نہیں کر رہا ہوتا ہے بلکہ پورا گلگت بلتستان یا کم از ایک ضلع کے عوام آپ سے سوال کر رہے ہوتے ہیں جن کو جواب دینا آپ کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ اگر سوال غلط ہو تو آپ کو اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

جناب وزیر اعلیٰ صاحب آپ بار بار اپنے آپ کو سیاسی کارکن کہتے ہیں تاہم اسی سیاسی نظام میں صحافیوں کے سوالات سے جی نہیں کتراے جاتے بلکہ سوال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جناب وزیر اعلیٰ صاحب آپ کو اس بارے میں بھی ادرا ک ہونا چاہے کہ آپ نے ہمیشہ اقتدار میں نہیں رہنا ہے اورجب آپ اقتدارسے باہر ہوں گے تو یہی (نکمے) صحافی آپ کی آواز ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ جناب وزیر اعلیٰ صاحب گلگت بلتستان کے صحافیوں کو آپ کی رائے سے اختلاف ضرور ہوسکتا ہے مگر وہ آپ کے دشمن ہرگزنہیں۔ جناب وزیر اعلیٰ صاحب جس طرح آپ جمہوری اصولوں کے بل بوتے پر وزیر اعظم سے ملاقات کرکے علاقے کے مسائل حل کروانے کا متمنی ہیں بلکل انہی اصولوں کی روشنی میں گلگت بلتستان کے صحافی اپنے علاقے کے مسائل آپ تک پہنچا کر اس کے حل کے متمنی ہوتے ہیں اس لئے اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ آپ نے ان پریس کانفرنسوں میں مقامی صحافیوں کے سوالات لینے سے گریز کر کے کوئی کارنامہ انجام دے رہے ہیں تو یہ آپ کی بڑی بھول ہوگی۔

جناب وزیر اعلی ٰصاحب ہمارا یہ ہرگز دعویٰ نہیں ہے کہ ہم آپ سے کوئی افلاطونی سوال پوچھ کرآپ کو لاجواب کریں گے مگر تلخ سوال ضرور کرتے ہیں جو کہ ہم اپنا جمہوری حق سمجھتے ہیں۔ جناب وزیر اعلیٰ صاحب آپ جن لوگوں کے ووٹوں سے وزیر اعلیٰ بننے کے دعویدار ہیں وہ ووٹ آپ کو پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ یا آزاد کشمیر کے لوگوں نے نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے عوام نے دیا ہے اور عوام میں وہا ں کے صحافی بھی شامل ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہاں پر موجود کسی صحافی نے آپ کو ووٹ نہیں دیا ہے تو یہ سوچنا چاہیے اس نے اپنا جمہوری حق استعمال کیا ہے اس لئے وزیر بننے کے بعد آپ صرف ان لوگوں کے وزیر اعلیٰ نہیں جنہوں نے آپ کو ووٹ دیاہے بلکہ ان کا بھی وزیر اعلیٰ ہے جنہوں نے آپ کی مخالفت کی تھی۔ اس لئے آپ کو یہ ضرور سمجھنا چاہیے جب تک آپ خود انہی جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں کریں گے اس وقت تک دوسروں کو جمہوری اصولوں کی پاسداری کرنے کا مطالبہ عبث ہو گا کیونکہ آ پ کے مطالبے میں جان آنے کے لئے لازمی ہے کہ آپ کے دعوے اور عمل میں تضاد نہ ہو۔

جناب وزیراعلیٰ صاحب گلگت بلتستان کے صحافیوں کے ساتھ آپ کا یہ رویہ پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ جب سے آپ اس منصب پر فائز ہوئے ہیں اس وقت سے اب تک آپ نے یہی رویہ اپنایا ہوا ہے آپ نے رواں سال رمضان المبارک میں صحافیوں اور نوجوانوں کو دی گئی بریفنگ کو پہلے تو آف دی ریکارڈ قرار دیا مگر اس کے بعد پہلے مرحلے میں میڈیا میں تصویر اس کے بعد پریس ریلیز جاری کی گئی جس سے یہ تاثر ابھرا کہ آپ اس میٹنگ کے بارے میں آزادنہ طور پر رپورٹنگ کے حق میں نہیں تھے۔ ورنہ آپ اس مٹینگ کی نہ ہی تصویر جاری کرواتے اور نہی پریس ریلیز، چی جائیکہ اپنے پریس ریلیز میں نوجوانوں کی طرف سے اپنے موقف کی تائید کرنے کادعویٰ کیا جاتا۔ تاہم راقم نے اس وقت آپ کے رویے میں مثبت تبدیلی کو محسوس ہونے پر خوشی کا اظہار کیا تھا مگر افسوس یہ محض گمان ثابت ہوا اور اپنے پرانے روش پر چلتے ہوئے مقامی صحافیوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر بدستور عمل پیرا نظر آئے اور صرف انہیں صحافیوں کے سوالات لئے جن سے آپ یا آپ کے سٹاف کے اچھے تعلقات تھے۔

یہ یاد رکھنا چاہے کہ جمہوریت محض ووٹ کے پرچی سے اقتدار حاصل کرنے کانام نہیں بلکہ پورے رویے کانام ہے اس لئے محض اپنے منظور نظر لوگوں سے سوالات لے کر باقیوں کو نظر انداز کرناکسی طور پر بھی جمہوری رویہ نہیں کہلایا جاتا۔ اگر منطقی طورپر دیکھا جائے تو صحافی حکومتوں کے لئے آنکھ اور کان کا درجہ رکھتے ہیں اسی فارمولے کے تحت ہم آپ کی توجہ گلگت بلتستان میں سپریم کورت حکم کی دھجیاں اڑاتے ہوئے موبائل کمپنیاں کی طرف سے ٹیکس لینے کی طرف دلانا چاہتے تھے اس لئے پریس کانفرنس کے بعد اس حوالے سے آپ سے بات کرنے کی کوشش کی تو آپ نے سوال کی طرف توجہ دینے کے بجاے بے دلی سے اس کی ذمہ داری پر سپریم کورٹ پر ڈالنے کی کوشش کی حالانکہ گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری آپ پر پہلے اور سپریم کورٹ پر بعد میں آتی ہے۔

مزید یہ کہ اگر عدالت کی طرف سے اس طرح کے معاملات پرنوٹس لیا جائے تو آپ( جیسے جمہوریت پسندوں ) کی طرف سے جوڈیشل ایکٹوازم کا طعنہ بھی دیا جاتاہے۔ لہذا صحافی ہی اپنے منتخب لوگوں اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے آپ لوگوں سے سوالاتکیے جاتے ہیں جس سے جوابدہی کا احساس ہوتا ہے ورنہ جوابدہی کے بغیر جمہوریت بے معنیٰ ہو کر رہ جائے گی۔ وما علینا الا لبلاغ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).