بھارت کو روسی میزائل ٹیکنالوجی کی فروخت اور پاکستان


امریکہ کی مخالفت اور پابندیوں کے امکانات کو بالاطاق رکھتے ہوئے بھارت نے روس سے پانچ ارب ڈالر مالیت کی ایس 400 میزائل ٹیکنالوجی خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔ ایس 400 میزائل ٹیکنالوجی کو دنیا کا بہترین اور مؤثر ترین دفاعی نظام تصور کیا جاتاہے۔

روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر کیے جانے والے اس معاہدے کے خطے پر ہی نہیں بلکہ عالمی نظام پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ علاوہ ازیں یہ سودا امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں بھی دراڑیں ڈالنے کا باعث بن سکتاہے۔

امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات مسلسل تناؤ کا شکا رہیں۔ امریکی الیکشن میں مداخلت کے الزام کے بعد روس کے کئی ایک تجارتی اداروں کے ساتھ لین دین پر گزشتہ برس اگست میںامریکہ نے پابندی لگادی تھی‘ جن میں دفاعی میزائل شیلڈ بنانے والی کمپنی بھی شامل ہے جس کے ساتھ بھارت نے معاہدہ کیا ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف امریکی ادارے ان روسی کمپنیوں کے ساتھ تجارت نہیں کرسکتے بلکہ جو بھی دوسر املک ان روسی اداروں کے ساتھ تجارت کرے گا اس پر بھی پابندیاں لگ جائیں گی۔ گزشتہ ماہ چین کے ایک فوجی ادارے پر بھی ایسی ہی پابندیاں لگ چکی ہیں کیونکہ امریکی پابندیوں کی پروا کیے بغیر اس نے روسی اداروں سے لڑاکا طیارے اور ائیر ڈیفنس سسٹم خریدنے کے سودے طے کیے۔

امریکی پابندیوں کے باوجود روس کا چین اور بھارت کو دفاعی سازوسامان کی فروخت روس کی بڑی سفارتی کامیابی ہے جو امریکہ کے عالمی طاقت کے امیج کو کمزور کرتی ہے۔ چین کے فوجی ادارے پر تو امریکہ نے پابندیاں عائد کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا کیونکہ وہ اسے ایک ابھرتی ہوئی حریف معاشی اور عالمی طاقت کے طور پر دیکھتاہے۔ اس کے پر کاٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

اس کے برعکس بھارت نہ صرف امریکہ کا علاقائی بلکہ عالمی اتحادی ہے۔چین کے علاقائی اثر ورسوخ کو روکنے کے لیے بھی اسے استعمال کیا جاتاہے۔ افغانستان میں بھارت کی موجودگی کو بھی امریکہ ایک اثاثہ تصور کرتاہے۔ مشکل یہ ہے کہ بھارت امریکہ سے تمام تر قربت اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول کے باوجود اس کی عالمی سوچ سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ۔

روس اور ایران کے ساتھ تعلقات میں امریکی پابندیوں کی پیروی نہیں کرتابلکہ خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا تعین اپنے قومی مفادات کے تناظر میں کرتاہے۔ حالیہ روس بھارت معاہدے کے بعد امریکی خارجہ پالیسی ایک زبردست مخمصے سے دوچار ہوئی۔ بھارت پر پابندیاں عائد نہیں کرتا تو ترکی کے لیے راستہ کھل جائے گا کہ وہ بھی روس سے لڑاکا طیارے خریدے اور دیگر فوجی سازوسامان بھی۔

ترکی اور امریکہ کے درمیان تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں ۔ امریکہ نے ترک مصنوعات پر غیر معمولی ٹیکس عائد کرکے اس کی معیشت کو زبردست جھٹکادیا ہے۔ اگربھارت پر بھی پابندی عائد کرتاہے تو دونوں ممالک کے درمیان پایاجانے والا اسٹرٹیجک اتحاد بری طرح متاثرہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر دو صورتوں میں امریکہ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی۔ دوسری جانب روسی میزائل سسٹم اس خطے میں طاقت کا توازن متاثر کرنے کا سبب بھی بنے گا۔ پاکستان کو بھارت سے مقابلے کے لیے نہ صرف اپنے میزائل سسٹم کو مزید ترقی دینا ہوگی بلکہ جدید ترین ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا۔

علاوہ ازیں روس سے حاصل کردہ میزائلوں سے بھارت چارہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔چین کی سلامتی کو بھی اس میزائل سسٹم سے سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اس طرح پاکستان اور چین دونوں ایک کشتی کے سوار ہوجائیں گے۔

امریکہ نہیں چاہتاہے کہ روس کی دفاعی صنعت کو نئے خریدار ملیں کیونکہ اس طرح دنیاکے چھوٹے ممالک میں بھی روس کو منڈی ملنا شروع ہوسکتی ہے۔ امریکی ہتھیار نہ صرف مہنگے ہیں بلکہ وہ ہتھیاروں کی فروخت کے بعد سروس فراہم کرنے کے بجائے سیاسی مطالبات شروع کردیتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ ایف سولہ طیاروں کے معاملے میں ایسا ہوچکا ہے۔ ترکی بھی امریکی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہونے کے باوجود زبردست مشکلات کا شکار ہوا ۔اسے من مانے امریکی مطالبات کا سامنا کرنا پڑا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدارآنے کے بعد امریکہ کے عالمی نظریات میں جو تبدیلی آئی۔ حالیہ مہینوں میں دنیا میں برپا ہونے والی کشمکش اس کا محض ایک مظہر ہے۔رواں سال جنوری میں امریکہ نے اعلان کیا کہ دہشت گردی یا ’’غنڈا ریاستوں‘‘ کے بجائے اب وہ عالمی طاقتوں بالخصوص روس اور چین سے مقابلے کے لیے کمر بستہ ہوچکا ہے۔

یہ بھی کہاگیا کہ امریکہ اگلے برسوں میں عسکری صلاحیتوں میں اضافے پرتوجہ مرکوز کرے گا۔ وزیردفاع جیمز میٹس نے اعلان کیا :اگر آپ ہمیں للکاریں گے تو وہ آپ کا بد ترین دن ہوگا۔ یہ اشارہ روس اور چین کی طرف تھا۔ امریکی حکام کے بیانات اور چھپنے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتاہے کہ امریکہ کو ایک عظیم طاقت کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

خاص طور پر روس کے امریکی الیکشن میں مداخلت کے انکشاف نے اس کے نظام اور ناقابل تسخیر ہونے کے امیج کو گہرے صدمے سے دوچار کیا ۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ چین امریکہ کے اسٹرٹیجک اداروں کو خرید رہا ہے یا پھر سائبر حملوں کے ذریعے خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح امریکہ کی سلامتی اور معیشت کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

چین کی مسلسل فروغ پذیرمعیشت اور ترقی پذیرممالک کی انفراسٹرکچر میں معاونت فراہم کرنے کے منصوبوں سے بھی امریکہ خائف ہے کیونکہ اس طرح وہ امریکی اثر ورسو خ سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ ساؤتھ چائنا سمندر میں بھی چین کی بالادستی واشنگٹن کو منظور نہیں۔ تجارتی راہداری پر اسے کسی اور کی اجارہ داری قبول نہیں۔

پرویز مشرف کے نعرے سب سے پہلے پاکستان کی ماندصدر ٹرمپ بھی سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگارہے ہیں۔ وہ امریکہ کو ایک ناقابل تسخیر طاقت کے طور پر دنیا میں منوانا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ اپنی شان وشوکت کھوچکاہے۔

شام میں روس اور ایرانی مداخلت نے اس کی ایک نہ چلنی دی ۔صدر بشارالاسد کی حکومت نہ صرف قائم ودائم ہے بلکہ اس کی گرفت مسلسل مضبوط ہورہی ہے۔ ان چیلنجز سے مقابلے کے نام پر امریکہ فوج اور دیگر اداروں کو مضبوط او رجدید بنانے کی خاطر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔

قرائن سے عیاں ہوتاہے کہ اگلے تیس چالیس سال تک دنیا پر ایک بار پھر سردجنگ کی سی کیفیت طاری رہے گی۔البتہ اس مرتبہ روس اکیلا نہیں بلکہ چین اور اس کے حلیف بھی اس کے ہمرکاب ہونگے۔

یہ فیصلہ امریکہ کو کرنا ہے کہ وہ بھارت کو اپنے تابع فرمان بنا کر رکھنا چاہتاہے یا پھر اسے اپنے عالمی نظام کی ترجیحات کے برعکس فیصلے کرنے کی اجازت دیتاہے۔ یہ مرحلہ خود بھارت کے لیے بھی بڑا سفارتی چیلنج ہے۔

بشکریہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood