سیاسی لٹریچر کا ’’توشہ خانہ ‘‘


چند سال سے میں یہ جاننے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں کہ آخر ایک ایسے ملک میں جہاں تعلیم انتہائی کم ہے وہاں پچھلے  74 برسوں میں اخبارات، رسائل، کتابیں ضبط کیوں کیجاتی رہی ہیں اور پھر آخر ان کا بنتا کیا ہے؟ وہ کسی ’’توشہ خانہ ‘‘ میں رکھی جاتی ہیں۔

پتا چلا اس کا نام ’’ریکارڈ برانچ‘‘ ہے جہاں ہر چند سال بعد پرانا ریکارڈ خاص طور پر پڑھنے لکھنے والا مواد ضائع کر دیا جاتا ہے۔ کیسے کیا جاتا ہے یہ بھی دلچسپ معلومات حاصل ہوئیں۔

ایک سابق افسر نے انکشاف کیا کہ کراچی میں سائٹ کے علاقے میں ایک فیکٹری ہے جو گتے بنانے کا کام کرتی ہے اس سے معاملات طے ہوئے۔اب آپ لوگ گھروں میں بیٹھ کر اپنے اپنے ڈبوں میں تلاش کریں، ہماری سیاسی تاریخ، لٹریچر اور سرد جنگ کے زمانے کی روسی کتابوں کو۔

ویسے آج کل اس ’توشہ خانہ ‘‘ میں دائیں بازو سے ضبط کیا ہوا مواد بھی مل جائے گا۔ کوئی دو تین سال پہلے تربت کے ایک بک اسٹال پر چھاپہ پڑا تو ساری کتابیں ضبط کر لی گئیں جن میں ڈاکٹر مبارک علی کی تصانیف بھی شامل تھیں اور کئی بلوچی کتابیں بھی۔

دکاندار کو تو چند دن بعد رہا کر دیا گیا مگر اس بیچارے کو کتابیں واپس نہ ملیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وہی کتابیں دوسرے شہروں میں دستیاب ہیں۔

آپ کو یقین نہیں آئے گا مگر اسپیشل برانچ کے ایک پرانے افسر نے بتایا کہ جس زمانے میں حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ ’’لیک‘‘ ہوئی تو اوپر سے حکم آیا تمام کاپیاں ضبط کر لی جائیں۔

’’ مظہر صاحب یقین کریں کوئی دو کمرے صرف اس رپورٹ سے بھرے پڑے تھے، بعد میں ان کو ضائع کرنے کا حکم ملا۔‘‘بائیں بازو کی جماعتوں سے زیادہ ان کے لٹریچر سے خوف انگریزوں کے زمانے سے چلا آرہا ہے، اس لئے جو قوانین 1857کی تحریکِ آزادی کو دبانے کیلئے بنائے گئے، وہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں پاکستان اور بھارت میں موجود ہیں مگر انگریز اس سے نکل گیا اور برطانیہ میں آج بھی آپ کو بہت سا پرانا لٹریچر مل جائے گا۔

اس زمانے میں ترقی پسند مصنفین اس کا خاص شکار ہوئے۔ ترقی پسند افسانہ نگار سجاد ظہیر کے مجموعے ’’انگارے ‘‘ سے لے کر منٹو اور عصمت چغتائی کے ڈراموں اور افسانوں تک ضبط ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

جوش، فیض، غالب، سبط حسن، سعادت حسن منٹو نہ صرف زیر عتاب رہے بلکہ ان کی شاعری اور ڈراموں، افسانوں پر پابندی رہی، کیا کہوں سوائے اس کے کہ ہر محب وطن ذلیل ہوا رات کا فاصلہ طویل ہے۔

بھٹو صاحب کے دور میں بھی جہاں دائیں بازو کے اخبارات اور رسائل جسارت، صداقت، زندگی اور اردو ڈائجسٹ زیر عتاب رہے، وہیں بائیں بازو کے صحافی حسین نقی کے اخبار پنجاب پنج پر بھی پابندی لگی۔

اب یہ ساری چیزیں سرکاری توشہ خانہ میں تو ہیں نہیں بدقسمتی سے ان میں سے بیشتر پبلشرز نے بھی ان کو محفوظ نہیں رکھا۔ البتہ میں نے 1978کے الفتح کے کچھ ایڈیشن کچھ سال پہلے ایک صاحب سے لے لئے۔میں نے جب صحافیوں کی تنظیم PFUJکی تاریخ پر کام شروع کیا تو جہاں بہت سے سینئر صحافیوں کی تحریروں کے علاوہ میری یہ کوشش رہی کہ اس زمانے میں ’’ایجنسیوں کی مرتب کردہ کچھ رپورٹس بھی شامل کی جائیں جو باقاعدہ فائلوں کی شکل میں تیار کی گئیں۔ پتا چلا سب ضائع کر دی گئیں۔

بد قسمتی سے ان سیاسی جماعتوں میں پی پی پی اور اے این پی نے بھی جن کی حکومتیں بھی بنیں،یہ کام نہیں کیا ورنہ کئی تحریکوں بشمول ایم آر ڈی کے حوالے سے بڑا مواد جمع جاتا۔ میں نے تو سابقہ مشرقی پاکستان کے لوگوں سے درخواست کی، ‘پرانے ریکارڈ حاصل کر نے کی مگر کچھ مسائل آڑے آ گئے۔

ایک بار معراج محمد خان نے اپنی وفات سے کچھ ماہ پہلے فون کیا اور بتایا کہ لاہور سے’’اسپیشل برانچ‘‘ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہےجس میں دریافت کیا گیا ہے کہ جناب منہاج برنا کا پتا بتایا جائے۔ ’’ میں نے ان کے افسر کو فون کر کے کہا بھائی ان کے تو انتقال کو بھی کئی سال ہوگئے ہیں۔ جواب آیا پھر بھی گھر کا پتا بتا دیں تاکہ فائل بند کر دی جائے۔‘‘

اسی دوران سندھ یونین آف جرنلسٹس کے بانی رکن میں سے ایک جناب مصطفیٰ حیدر مرحوم کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ جب وہ یونین کے رسالے کے لئے ڈکلیئریشن لینے ڈپٹی کمشنر کےدفتر گئے تو کوئی ایک ہفتے بعد معلوم کرنے پر یہ کہا گیا کہ ایجنسیوں نے اس کو کمیونسٹوں کی جماعت کہہ کر این او سی نہیں دیا۔ حیدر صاحب نے دلچسپ ریمارکس دیئے۔

’’ بھائی نہیں دینا تھا تو کہہ دیتے مگر یہ تو نہ کہتے کیونکہ میں تو ساری زندگی اینٹی کمیونسٹ رہا ہوں۔‘‘1979 میں تہران میں امریکی سفارت خانے پر طلبہ کے قبضے کے بعد وہاں سے سی آئی اے کا بہت سا خفیہ لٹریچر بھی ملا جس میں ’’پاکستان پیپرز ‘‘بھی شامل تھے۔

سرکاری طور پر تو یہ ضبط ہی رہے، ہماری حکومتوں کے پاس اس میں سی آئی اے اور ہمارے بھائی لوگوں کے روابط کے بارے میں بھی بہت کچھ تھا مگر دو صحافیوں علی حامد اور علی عابد نے وہ کتاب کی شکل میں شائع کر دی مگر بہت سی معلومات مسنگ رہیں۔

کاش آج عوام کو ماضی کی ان گنت تاریخی دستاویزات 1971سے لیکر ایبٹ آباد کمیشن، اور C-130سے لے کر کارگل تک کی کمیشن رپورٹ کے بارے میں حقائق بتائے جائیں۔ معلومات دینے سے راہیں کھلتی ہیں جبکہ پوشیدہ رکھنے سے افواہیں جنم لیتی ہیں، جس کو آج ’’فیک نیوز‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

اندازہ یہی ہوتا ہے کہ ریاست کو ہمیشہ سے ’’سوچ‘‘ سے خوف رہا۔ اسی لئے اس ملک میں قیام سے لیکر آج تک تحریر وتقریر زیر عتاب رہی۔

انگریز گیا تو اپنا’’توشہ خانہ ‘‘ بھی ساتھ لے گیا مگر وہ خاصی حد تک محفوظ ہے۔ ہم نے تقسیم کے وقت ہر چیز لے لی، یہاں تک کہ کالے قوانین بھی مگر نہیں لیا تو وہ ریکارڈ جو ہمیں بتاتا کہ جنگ آزادی کس نے کیسے لڑی، حسرت موہانی کو کیوں سزا ہوئی؟

ہمارے پاس تو وہ ریکارڈ بھی نہیں ہے کہ محمدعلی جناح نے اپنی اہلیہ کے ساتھ سنسرشپ کےخلاف جلوس نکالا، اگر 11 اگست 1947، کو جناح کی تقریر کی آڈیو ریکارڈنگ موجود نہیں تو باقی کیا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments