سید محمد عظیم المعروف قلندر بابا اولیاؒ کی صوفیانہ شاعری


باری تعالیٰ نے آدم و حو ّا کو پیدا کیا۔پھر نسل آدم پھیلانے کے لئے زمین پر بھیج دیا۔ اس ربّ ذوالجلال کی مرضی اور منشاء کے مطابق آدمی کی تخلیق کا سلسلہ برابر جاری ہے۔

جیسے جیسے آبادیاں اور گروہ بڑھتے گئے، آدمی کی ضرورتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ دن، مہینے اور سال گزرتے گزرتے صدیاں اور قرن بننے لگے۔ لوگوں کی ہدایت کے لئے نبیوں پر صحیفے آنے لگے۔ جب یہ قبیلے اور قافلے زیادہ پھیل گئے تو توریت ،زبور، انجیل اور سب سے آخر میں قرآن مجیدفرقان حمید کا نزول ہوا اور خدا وندی ہدایت کا سلسلہ مکمل ہوگیا۔
دنیامیں اب تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آچکے ہیں جن میں سے پچیس تیس کی آمد اور خدمات کی تائید اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے کی ہے اور ان کی مثالیں دی ہیں۔سب سے آخری نبی دونوں جہان کے سردار، ہادیِ دین مبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد، بعثت، خدمت، رہبری اور تکمیل انسانیت کے عمل پر دفتر کے دفتر لکھے جاچکے ہیں۔ لیکن وجد اور کیفیت اور معرفت اور روحانیت کی گلیوں کے باسی اپنی زبان سے یہی کہہ رہے ہیں
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی ست
قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی سنّت میں نہ تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتاہے۔ اس قانون کے تحت ازل سے ابد تک اللہ کی سنّت کا جاری رہنا ضروری ہے۔ چوں کہ حضور خاتم النبیینﷺ پر پیغمبری ختم ہوچکی ہے، اس لئے فیضان نبوت کو جاری و ساری رکھنے کیلئے سیّدنا حضور علیہ لصلوٰةوالسّلام کے وارث اولیاءاللہ کا ایک سلسلہ قائم ہوا جن کے بارے میں قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے :
ترجمہ :اللہ کے دوستوں کو خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنا زندگی سے مانوس ہوتے ہیں۔
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم توحید اس کے وجود سے جدا ہے اور اس کا وجود علم سے الگ۔ یعنی ربّ ِ ذوالجلال علم کی حد سے باہر ہے یعنی اتنا وسیع ہے کہ کوئی علم اس کا احاطہ یا اندازہ نہیں کرسکتا۔
اس آیت مبارکہ اور بزرگان کرام کے اقوال سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ توحید کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا لوگ اسے سہل سمجھتے ہیں۔ جس طرح ایک پیالی میں گلاس نہیں سما سکتا ، ایک گلاس میں مٹکا نہیں سما سکتا، ایک مٹکے میں ایک تالاب نہیں سما سکتا، ایک تالاب میں ایک سمندر نہیں سما سکتا، ایک سمندر میں سارے سمندر نہیں سما سکتے اسی طرح ایک بندہ کی ننھی سی عقل، سمجھ، سوچ، فکر، فہم ، ادراک ، احساس ، ایقان اور وجدان میں وہ ذات واحد کیسے سماسکتی ہے جس کو ہم اللہ کے نام سے یاد کرتے ہیں جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔
ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدصحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور پھر اولیائے کرام ایک اچھا انسان بننے کے لئے ہدایت اور رہبری کا ذریعہ رہے ہیں۔ حضرت اویس قرنی کے بعد سیّدنا شیخ محی الدّین عبدالقادر جیلانی ؒ، حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ،، حضرت نظام الدّین،اولیائؒ،محبوب الہی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ، حضرت بابا تاج الدین ناگپوری ؒاور دوسرے بزرگان کرام عوام کے لئے فیض عام اور مرجع انام رہے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں ان اولیائے کرام کی جسمانی ، دینی ، ملکی ، ملّی اور روحانی خدمات وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ روشن تر ہوتی چلی جارہی ہیں۔ ان بزرگوں کا روحانی مشن مذہب اور ملّت اور عقیدہ کی حد بندیوں سے بلند ہے۔ ہر مذہب اور ملّت کے لوگ اپنی اپنی ضرورتیں لے کر حاضری دیتے ہیں اور جب تک انہیں کامیابی کا اشارہ نہ مل جائے وہ جانے کا نام نہیں لیتے۔ ان بزرگوں کو اس دنیا سے جدا ہوئے اگرچہ کئی صدیاں گزرگئی ہیں لیکن آج بھی ان کے مزارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ!
بلھے شاہ اساں مرنا نہ ہی گور پیا کوئی ہور
ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءرحم اللہ علیہ بھی سیّدنا حضور علیہ الصلوٰة والسّلام کے آسمانِ علم و آگہی میں ایک ایسا درخشندہ ستارہ ہیں جن کے بارے میں حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ ” میں اپنے بعد اللہ کی کتاب اور اپنی اولاد چھوڑ کر جارہا ہوں“۔
ختمی مرتبت ، سرورکائنات ، فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے نور نظر، حامل علم لدنی ، پیشوائے سلسلہ عظیمیہ ، ابدال حق حضورقلندر بابا اولیائؒ رحمتہ اللہ علیہ کی ذات بابرکات نوع انسان کے لئے علوم و عرفان کا ایک ایسا خزانہ ہے کہ جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ کو تخلیقی فارمولوں اور اسرار ورموز کے علوم سے منور کیا ہے وہا ں علوم ادب اور شعر و سخن سے بھی بہرہ در کیا ہے۔حضور قلندر بابا اولیاؒ کی صوفیانہ شاعری کا مجموعہ رباعیات کے نام سے شائع ہو اہے ۔ بابا صاحب نے اپنی رباعیات میں کہیں بنی نوع انسانی کی فطرت اور حقیقی طرز فکر کو اجاگر کیا ہے، کہیں مٹی کے ذرّے کی حقیقت اور فنا و بقا پر روشنی ڈالی ہے۔ کہیں پروردگار کی شان و عظمت کا ذکر ہے۔ کہیں فطرت آدم کی شراب و حدت میں مست و بے خودی کا ذکر ہے۔ کہیں عالم ملکوت و جبروت کا تذکرہ ہے۔ کہیں کہکشانی نظام اور سیاروں کا ذکر ہے ، کہیں فطرت آدم کی مستی و قلندری اور گمراہی پر روشنی ڈالی ہے۔ کہیں اس فانی دنیا کی فانی زندگی کو عبرت کا مرقع ٹھہرایا ہے۔ کہیں فرمان الٰہی اور فرمان رسول ﷺ پیش کرکے تصوف کے پہلوو¿ں کو اجاگرکیا ہے۔ کہیں عارف کے بارے میں فرمایا ہے کہ عارف و ہ ہے جو شراب معرفت کی لذتوں سے بہرہ ور ہو اور اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی برضا ہو۔ غرضیکہ رباعیات عظیم ؒ علم و عرفان کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔
’ہم سب‘ اپنے قارئین کی خدمت کے لئے حضور قلندر بابا اولیا ؒکی رباعیات اور ان کی تشریح کا سلسلہ شروع کررہا ہے اور اس سلسلے میں پہلی رباعی پیش خدمت ہے ۔ ’ ہم سب ‘ کے دیرینہ رفیق خواجہ محمد کلیم نے اس فرض کی ادائی کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ اس سلسلے میں ہمیں آپ کی آراء کا بھی انتظار رہے گا۔
کل عمر گزر گئی زمیں پر ناشاد
افلاک نے ہرسانس کیا ہے برباد
شاید کہ وہاں خوشی میسر ہو عظیم
ہے زیر زمیں بھی ایک دنیا آباد
ہماری اس رنگ و بو کی دنیا کی طرح ایک اور دنیا بھی ہے جو مرنے کے بعد ہمارے اوپر روشن ہوتی ہے۔ ہم کتنے بد نصیب ہیں کہ ہم نے کبھی اس نادیدہ دنیا کی طرف سفر نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ” مرجاؤ مرنے سے پہلے“ پر عمل کرکے اگر ہم اس دنیا سے روشناسی حاصل کرلیں تو اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ ہمیں ناشاد و نامراد زندگی کی جگہ مسرت و شادمانی سے بھرپورزندگی میسر آجائے۔
اک جرعہ مئے ناب ہے ہر دم میرا
اک جرعہ مئے ناب ہے عالم میرا
مستی و قلندری و گمراہی کیا
اک جرعہ مئے ناب ہے محرم میرا
بندہ کہتا ہے کہ میرا ہر سانس خالص شراب(معرفت) کے ایک گھونٹ کی مانند ہے اور زیادہ گہرائی میں سوچوں تو میری ساری دنیا ہی خالص شراب کا ایک گھونٹ نظر آنے لگتی ہے۔ جب میری حد او ر حدود ایسی ہوں تو میری مستی و قلندری یا گمراہی کا وجود نا وجود بن جاتا ہے۔ شراب کا یہی ایک گھونٹ میری زندگی میں پنہاں اسرار کو میرے اوپر منکشف کرتا ہے چاہے اسے مستی و قلندری میں گزار لوں اور چاہے تو اسے گمراہی میں ضائع کردوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).