دنیا کو آب و ہوا میں تبدیلی سے آنے والی تباہی سے بچانے کا آخری موقع


اقوام متحدہ کے انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج یا آب ہوا میں تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ زمین کو تباہی سے بچانے کے لیے لوگوں کو اپنے رہن سہن میں بڑی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔

جنوبی کوریا میں ماہرین اور سرکاری حکام کے ایک ہفتے طویل اجلاس کے بعد جاری کردہ رپورٹ کے مطابق یہ تبدیلیاں زندگی کے تقریباً ہر شعبے پر محیط ہونی چاہئیں۔ مثلاً قابلِ تجدید توانائی پر زیادہ سے زیادہ انحصار، ایسی عمارتوں کی تعمیر جن میں توانائی کی ضرورت کم ہو، سفر کے ایسے ذرائع میں اضافہ جو ماحول کی آلودگی کا باعث کم سے کم بنیں، وغیرہ۔

رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر انسان زمین کی حدّت میں اضافے کو سنہ 2030 تک 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے میں کامیاب ہو جائے تو خشک سالی، سیلابوں اور وسیع پیمانے پر جانوروں اور پودوں کی انواع کو صفحۂ ہستی سے مٹانے سے بچایا جا سکے گا۔

بی بی سی ورلڈ سروس کے اینروائرمنٹ رپورٹر نوین کھڈکا کا کہنا ہے کہ اس وقت عالمی درجۂ حرارت کی سطح میں اضافے کا رحجان 3 سے 4 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔

ان کے بقول سطح سمندر میں اضافہ، مختلف خطوں میں گرمی کی شدّت، موسمی تغیرات، شدید خشک سالی کے بعد بے تحاشا بارشیں دراصل آب ہوا میں تبدیلی کے ہی اثرات ہیں جن میں وقت کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

یہ اثرات کم ترقی یافتہ اور غریب ملکوں میں زیادہ نمایاں ہیں۔

ٹھوس اقدامات کی ضرورت

نوین کھڈکا کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال اتنی خراب ہے کہ نہ صرف کاربن ڈائی آکسائڈ کی پیدوار میں فوری اور زبردست کمی ضروری بلکہ فضا میں پہلے سے موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کو کسی طرح جذب کرکے محفوظ طور پر کہیں ٹھکانے لگانے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایاکاری کی اشد ضرورت ہے۔

اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ رنیوایبل انرجی یا قابل تجدید توانائی، مثلاً پن بجلی، شمسی توانائی، پون بجلی اور دوسرے ذرائع، کے شعبے میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ تاہم یہ رفتار بہت سست ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر عالمی درجۂ حرارت محض دو درجہ سینٹی گریڈ بھی ہوا تو مونگے کی چٹانوں کا صفایا ہوجائے گا۔ ان چٹانوں پر بڑی تعداد میں سمندری مخلوقات کا انحصار ہے جو غذائی زنجیر یا فوڈ چین میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

کرے کوئی اور بھرے کوئی

کاربن ڈائی آکسائڈ میں زیادہ اضافہ صنعتی انقلاب کے بعد شروع ہوا جب بڑی بڑی صنعتوں، بجلی گھروں، جہازوں اور گاڑیوں میں زمین سے نکلنے والی تیل، گیس اور کوئلے کا بے تحاشا استعمال شروع ہوا۔

اس سے پہلے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی شرح 1.5 درجے سینٹی گریڈ تھی۔

آب و ہوا میں تبدیلی کے لیے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے مشیر ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ مسئلہ ترقی یافتہ صنعتی ملکوں نے پیدا کیا ہے جسے بھگتنا پاکستان جیسے ملکوں کو پڑ رہا ہے۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار ان دس ملکوں میں ہوتا ہے جو عالمی حدّت میں اضافے کے اثرات کی براہِ راست زد میں ہیں۔

ملک امین اسلم کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہو رہے ہیں اور سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ خیبرپختونخوا ہے۔

پاکستان کیا کر رہا ہے؟

وزیراعظم کے مشیر نے بتایا کہ پاکستان کو گرین کاربن فنڈ سے چالیس ملین ڈالر فنڈ ملا ہے جو اگلے پانچ برس میں گلیشیئرز کے مطالعے پر خرچ کیا جائے گا جس میں ارلی وارننگ سسٹم یا فوراً خبردار کرنے والے نظام کی تنصیب بھی شامل ہے، تاکہ گلیشیئر پگھلنے کی صورت میں آنے والے سیلاب سے جانی نقصان کو کم کیا جا سکے۔

ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ فوری اقدامات میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک ارب اور پورے پاکستان میں دس ارب درخت بھی لگانا شامل ہے۔

گرین ہاؤس ایفیکٹ

ماہرین کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی کی بنیادی وجہ زمین پر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ میں مسلسل اضافہ ہے۔

یہ کاربن ڈائی آکسائڈ کرۂ زمین کے گرد ایک موٹے غلاف کی شکل میں موجود ہے جو زمین پر تو حرارت کو آنے دیتی ہے مگر اُسے واپس خلا میں جانے سے روکتی ہے۔

سائنسی اصطلاح میں اس عمل کو گرین ہاؤس ایفیکٹ یا سبز خانوی اثر کہتے ہیں۔

آب و ہوا میں تبدیلی کے عالمی ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ درجۂ حرارت کو صنعتی انقلاب سے پہلے کی سطح پر لانا بہت مہنگا مگر ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp