HisChoice#: ’دل کے کسی گوشے میں مہندی لگانے کا شوق زندہ تھا‘


تھریڈنگ

انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے ایک چھوٹے شہر رڑکی میں شاید میں پہلا یا دوسرا شخص تھا جس نے لیڈیز پارلر کی ابتدا کی تھی۔

میرے فیصلے اور میری پسند پر میرے شناسا تو ناک بھوں چڑھاتے ہی تھے خواتین گاہک کو بھی ہچکچاہٹ تھی۔

پڑوسی مختلف اقسام کی باتیں بنایا کرتے اور کہتے کہ ‘لیڈیز پارلر تو خواتین اور لڑکیوں کا کام ہے۔’

#HisChoice#HisChoice#HisChoice#HisChoice سیریز کی دیگر کہانیاں

HisChoice#:’تیری مجبوری کو تیرا شوق بنا دوں گی’

#HisChoice: ‘میں ہاؤس ہزبینڈ ہوں تو لوگوں کو کیا مسئلہ ہے؟’

لڑکیوں کو قائل کرنا، ان کا اعتماد جیتنا اور یہ ثابت کرنا کہ میں بھی کسی خاتون سے کم اچھا کام نہیں کرتا، بہت مشکل تھا۔

اگر کوئی لڑکی میرے پارلر میں آتی بھی تھی تو ان کے شوہر، بھائی یا باپ مجھے دیکھ کر انھیں منع کر دیتے اور کہتے: ‘ارے یہاں تو لڑکا کام کرتا ہے!’

لڑکیاں مجھے سے ‘تھریڈنگ’ یعنی ابرو ترشوانے تک سے انکار کر دیتی تھیں۔ 8X10 فیٹ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک لڑکے کا ان کے قریب آنا انھیں غیر مطمئن کر دیتا تھا۔

اس قسم کے سوالات میرے ذہن میں بھی تھے کہ کیا لڑکیاں مجھ سے اس قدر بے تکلفی سے اپنی پسند و ناپسند بتانا پسند کریں گی جس طرح وہ کسی خاتون کے ساتھ بے تکلف ہوتی ہیں؟

گھر والوں کی چاہت

ایسا نہیں ہے کہ مجھے اپنے پیشے میں آنے والی پریشانیوں کا اندازہ نہیں تھا۔ لیکن جب مجھے اپنی پسند کا کام کرنے کا موقع ملا تھا تو میں اسے کیوں چھوڑتا؟

اس کی ابتدا در اصل کئی سال قبل میری بہن کی شادی کے دوران ہوئی۔ اس کے ہاتھوں میں مہندی لگائی جا رہی تھی اور مہندی لگانے والا ایک لڑکا ہی تھا۔

بس لڑکپن کی اسی شام میرے دل و دماغ میں مہندی کا وہ ڈیزائن رچ بس گيا۔

یہ بھی پڑھیے

‘بستر میں جبر کرنے والے شوہر کو میں نے چھوڑ دیا’

مہندی کا کون بنانا سیکھا، پھر کاغذ پر اپنا ہاتھ آزمایا اور پھر میں چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ہاتھوں پر مہندی لگانے لگا۔

مہندی

چند دنوں بعد جب گھر والوں کو میرے اس جنون پتہ چلا تو انھوں نے مجھے خوب ڈانٹ پھٹکار لگائی۔

پاپا نے انتہائی سخت لہجے میں کہا کہ میں لڑکیوں کے کام کیوں کر رہا ہوں۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کی طرح فوج میں جاؤں لیکن مجھے فوج کی نوکری یا کوئی دوسرا کام پسند ہی نہیں تھا۔

اس کے بعد میں ایک دوسری شادی میں شریک ہوا جہاں میں نے مختلف لڑکیوں کے ہاتھوں میں مہندی لگائی جو انھیں بہت پسند آئی۔ مجھے اجرت کے طور پر 21 روپے ملے۔

یہ میری زندگی کی پہلی کمائی تھی۔ میری والدہ اور بہن بھائی میرے اس شوق کو پہچان گئے تھے لیکن میرے والد کو اب بھی یہ ناگوار تھا اور انھیں کسی بھی طور یہ منظور نہیں تھا۔

تھک ہارکر میں ہریدوار میں ملازمت کرنے لگا۔ صبح نو سے شام پانچ بجے تک نوکری کرتا۔ سب خوش تھے کیونکہ میں مردوں والا کام کر رہا تھا۔

لیکن میرے دل کے کسی گوشے میں میرا مہندی لگانے کا شوق اب بھی زندہ تھا۔

رہ رہ کر دل میں ہوک سی اٹھتی تھی۔ سوچتا تھا کہ مجھے اس نوکری سے کیا مل رہا ہے۔ نہ تو زیادہ پیسے اور نہ ہی دل کی تسکین۔

نئی شروعات

دریں اثنا ایک طویل بیماری کے بعد پاپا چل بسے۔ گھر کی ساری ذمہ داری اچانک میرے کندھوں پر آ گئی۔

لیکن اس ذمہ داری نے میرے لیے نئی راہیں بھی کھولیں۔ جب میں چھٹیوں میں گھر آتا تو شادیوں میں مہندی لگانے چلا جاتا۔

میری تنخواہ صرف 1500 روپے ماہانہ تھی جبکہ ایک ہی وقت کسی شادی میں مہندی لگانے کے مجھے 500 روپے تک مل جاتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

‘میں غیر مردوں کے ساتھ انٹرنیٹ پر فلرٹ کرتی ہوں’

’جب جنسی طور پر کمزور مرد سے میری شادی ہوئی‘

شاید آمدنی کا ہی اثر تھا کہ اب میرے گھر کے لوگوں کو میرا مہندی لگانا درست لگنے لگا تھا۔

دوست

اسی دوران مجھے یہ پتہ چلا کہ میرے دفتر کا ایک ساتھی اپنی بیوی کے بیوٹی پارلر میں ان کی مدد کرتا ہے اور دونوں اچھے پیسہ کما لیتے ہیں۔

اس تازہ معلومات کے بعد دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کیوں نہ میں بھی اپنا ایک بیوٹی پارلر کھول لوں!

لیکن جب گھر والوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی تو یکایک سب لوگوں کے ذہن میں پھر سے وہی سوالات اٹھنے لگے کہ یہ لڑکوں کا نہیں لڑکیوں کا کام ہے۔

لیکن آپ آگر ایک بار فیصلہ کر لیں تو راستے کھل ہی جاتے ہیں۔

اعتماد حاصل کرنے کی لڑائی

میرے ماموں کی لڑکی بیوٹی پارلر کا کام سیکھ رہی تھی۔ اس نے وہی سب تعلیم مجھے بھی دینی شروع کر دی۔

اور پھر ہم نے مل کر ایک لیڈیز پارلر کی ابتدا کی۔ شروع شروع میں آنے والی پریشانیاں اسی بہن کی وجہ سے حل ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیے

‘میں نے بغیر شادی کے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟’

’میں معذور ہوں، وہ نہیں، پھر بھی ہم لو ان ریلیشن میں رہے‘

پارلر میں میرے علاوہ میری بہن یعنی ایک خاتون کا ہونا خواتین گاہکوں کا اعتماد حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوا۔

اعتماد

ہم نے اپنے چھوٹے سے کمرے میں ہی پردے کی دیوار بنا دی۔ میری بہن لڑکیوں کی ‘ویکسنگ’ کرتی اور میں ان کی ‘تھریڈنگ’ اور ‘میک اپ’ کرتا۔

عمر اور تجربے کے ساتھ اپنی پسند کے انتخاب اور کام کے بارے میں میرا اعتماد مزید بڑھا۔

جب اپنی شادی کے لیے میں لڑکی دیکھنے گیا تو وہاں انھوں نے بھی مجھ سے یہی سوال پوچھا: ‘آپ نے یہی کام کیوں منتخب کیا؟’ میرا جواب تھا: ‘یہ میری پسند اور میری چوائس ہے۔’

اس وقت سے آج تک میری بیوی نے کبھی میرے کام کے متعلق سوال نہیں کیا۔ ویسے بھی وہ مجھ سے 10 سال چھوٹی ہے، زیادہ سوالات کیسے پوچھ سکتی ہے؟

شادی کے بعد میں نے اپنی بیوی کو اپنا بیوٹی پارلر دکھایا، اپنے سٹاف اور گاہکوں سے بھی ملوایا۔ میں چاہتا تھا کہ اسے کوئی شک و شبہ نہ رہے۔

گذشتہ 13 سالوں میں، 8×10 کا چھوٹا سا پارلر تین کمروں میں پھیل گیا ہے۔

اب رشتہ دار بھی میری عزت کرتے ہیں اور مجھے طعنہ دینے والے مرد اب اپنے گھر کی خواتین کو میرے پارلر میں خود آ کر چھوڑ جاتے ہیں۔

(یہ کہانی ایک مرد کی زندگی پر مبنی ہے جن سے بی بی سی کے نوین نیگی نے بات کی ہے۔ ان کی شناخت پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ اس سیریز کی پروڈیوسر سوشیلا سنگھ ہیں۔ السٹریشن پنیت برنالا کا ہے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp