دل کے خوش رکھنے کو غالب


اگر آپ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اور مہنگائی سے پریشان ہیں تو یونہی چند گھڑی دل کو بہلانے کی خاطر تحریک انصاف کے کسی فیس بک پیج پہ نوجوانان مملکت کے کمنٹس پڑھ لیا کیجیے، مہنگائی کی اِن گرم ہواوں میں یہی بادِصبا ہیں گویا۔ جی بہل جائے گا بلکہ کچھ احباب تو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مثلاً ایک جگہ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ’ خان صاحب ہم نے آپ کو ووٹ، پیاز، آلو، گوشت سستا کرنے کے لیے نہیں دیے، ہم پہ جتنا ٹیکس لگانا ہے، لگا دیجیے لیکن ان چوروں کو مت چھوڑنا۔ جیو خان‘
دیکھیں نوجوان نے یہاں کس قدر خوبصورتی سے ووٹ دینے کی ایک الگ رمز سے آشنا کرایا ہے، بھلا اِس بارے پہلے کسی نے اس طرح کب سوچا تھا۔ یہ جو ہم لوگوں کو اتنا اندھیرا نظر آتا ہے دراصل یہ ہماری نظر کا دھوکہ ہے، نوجوان پر امید ہیں اور انہیں روشنی کے ریلے اپنی جانب لپکتے نظر آتے ہیں سو آپ بھی پرامید رہیے۔

ایک اور منچلے نے کیا خوبصورت نعرہ بنایا ہے، پڑھیے اور سر دھنیے۔
‘ہوشیار خبردار! پاکستان کرپشن دشمن حکمران کے ہاتھ چڑھ گیا ہے، نام ہے خان، مشن ہے کرپشن سے پاک پاکستان ’
اِس نعرے میں کس قدر تازگی اور جدت ہے، اِس سے پہلے اِس طرح کے نعرے فقط زہر کی بوتلوں اور بجلی کے کھمبوں پر درج ہوا کرتے تھے۔

کچھ دوست صرف اپنی رائے دینے پہ ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ لگے ہاتھوں وزیرِاعظم صاحب کو مشورہ بھی دے دیتے ہیں، ایک صاحب کہتے ہیں ’ دنیا اتنی ترقی کرگئی ہے، جگہ جگہ ائیرپورٹ بن گئے ہیں تو وزیرِاعظم صاحب جلد از جلد ہمارے گاؤں میں بھی ایک ائیرپورٹ کا انتظام کیا جائے ’۔

پھر ایک نوجوان ہردلعزیز لیڈر کو مشورہ دے رہے ہیں کہ جناب میں فزکس کا طالب علم ہوں لیکن ہمارے علاقے میں کوئی فزکس پڑھانے کی اکیڈمی نہیں ہے، سو ایک عدد اکیڈمی کا اجرا کیا جائے اور یہ بھی ممکن بنایا جائے کہ کلاسز شام کی ہوں تاکہ جب ہم کھیل کر واپس آئیں تب اکیڈمی جائیں۔ آپ نے یقینا اِس سے پیشتر ملک عزیز کے کسی وزیرِاعظم کو ایسے عوامی مشورے ملتے نہ سنا ہوگا۔
ایک منچلے نے جذبات کی شدت میں یہ مشورہ بھی دے رکھا ہے کہ نیب انتظامیہ اپنی تفتیش کے دوران خان صاحب کی پشاوری چپل کا استعمال کیوں نہیں کرتی؟ ملاحظہ کیجیے ایک چپل بالکل عام چپل جسے لوگ اب سے پہلے فقط پیروں میں پہننے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے، اب اس سے ملکی مسائل بھی حل کیے جاسکتے ہیں۔ بہت سے مشورے وزرا اور مشیروں کو بھی ان کے فیس بک اور ٹوئیٹر اکاونٹس پر ملتے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امیر اور غریب طبقے کا جو فرق تھا اب وہ نہیں رہا تبھی تو نوجوان مشورے دے رہے ہیں اور جہاں تک بات رہی ان مشوروں پہ عمل درآمد کی تو عرض یہ ہے قول و فعل دو الگ الگ باتیں ہیں۔

اگر آپ کو اپنی دماغی صلاحیتوں کے بارے شک ہے اور آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کا دماغ ٹھیک کام کربھی رہا ہے کہ نہیں تو ضرورکسی جگہ اپنی رائے دیں، کوئی نا کوئی نوجوان آپ کو آپ کی دماغی صلاحیتوں کے بارے مفصل تجزیہ کرکے ضرور بتا دے گا۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ نوجوان اس قدر پڑھے لکھے اور سمجھ دار ہیں کہ آپ کا کمنٹ پڑھ کر فوراً بتا دیں گے کہ آپ کا دماغ پینتالیس فیصد کام کرتا ہے۔ تحقیق ہے کہ یہ نسخہ وزیرِ اعظم صاحب نے بقلم خود اپنی پہلی ہی تقریر میں بیان کردیا تھا سو نوجوانوں نے فوراً ہی یہ نسخہ ذہن میں بٹھا لیا اور آتے جاتے لوگوں کا دماغی ٹیسٹ کرتے رہتے ہیں۔ اس ٹیسٹ کا نتیجہ یا تو پینتالیس فیصد ہوتا ہے یا پھر سو فیصد۔ سو فیصد کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ اس کا استعمال قطعا نہ کرتے ہوں۔

آپ کمنٹ کرتے ہوئے ایک بات ذہن نشین کر لیجیے کہ اس کمنٹ کے بعد آپ کو پٹواری ہونے کا خطاب تو فوراً مل جائے گا چاہے آپ نے زندگی بھر ایک مرلہ زمین بھی ادھر سے ادھر نہ کی ہو سو کچھ بھی لکھنے سے قبل خوب سوچ سمجھ لیجیے۔

ابھی آج ہی سٹاک مارکیٹ میں گیارہ سو پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی ہے اور حکومت نے فوری طور پر پٹرول پمپس مالکان کو نوٹس جاری کیا ہے کہ وہ اپنے ٹوائلٹس صاف رکھیں۔
اس کے باوجود ایک صاحب کو مشورہ دینے کا شوق چرایا تھا سو وہ لکھتے ہیں کہ حکومت کی معاشی پالیسی درست نہیں، فوراً ہی ایک منچلا نوجوان آیا اور اُسے پینتالیس فیصد دماغی صلاحیتوں کا حامل قرار دے کر چُپ کرادیا۔

مہنگائی سے پریشان حال لوگوں کے لیے خوشی یہی ہے کہ خوشحال لوگوں کی باتیں سنی اور پڑھی جائیں اور اُن پر غور ہرگز نہ کیا جائے۔
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).