طوائف اور آرٹسٹ میں فرق


مجھے یقین تھاکہ نوشابہ آج ضرور فون کرے گی۔ وہی ہوا، ابھی مجھے گھر پہنچے بمشکل 15منٹ ہی ہوئے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ میرے ہیلو کہنے پر کسی نے صرف اتنا کہا: ” آج قلعہ اس کی اسی جگہ پر پانچ بجے ضرور ملنا۔ “ اس پہلے کہ میں کوئی بات کرتا، فون ڈسکنیکٹ ہو چکا تھا۔ گھر والوں نے یہی سمجھا ہو گا کہ شاید ” خاموش فون“ تھا۔ خاموش فون ہم اسے کہتے ہیں جس کے اٹینڈ کرنے پر کوئی جواب نہ دے او ر ہماری آواز سن کر سلسلہ منقطع کر دے۔ میں دوپہر کے وقت گھر سے نکلا۔ پہلے دفتر گیا۔ وہاں پتہ چلا کہ وزیراعظم سہ پہر کے قریب بم دھماکہ میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کریں گے۔ چونکہ وزیراعظم اور صدر پاکستان کی مصروفیات کو کور کرنا میری ذمہ داری تھی اس لئے اخبار کی طرف سے میں پابند تھا کہ ہر قسم کی مصروفیت کو پس پشت ڈال کر ہسپتال پہنچوں۔

پیشہ ورانہ مصروفیت کی وجہ سے میرے ذہن سے یہ بات نکل گئی کہ میں نے آج صبح کسی کا فون ریسیو کیا تھا۔ ہسپتال سے 6 بجے فارغ ہو کر دفتر پہنچا تو احساس ہوا کہ ہسپتال میں سٹے کے دوران میں نے اپنا فون بند کر دیا تھا۔ اب جو موبائیل فون آن کیا تو وائس میل پر کئی پیغام موجود تھے اور فون کرنے والوں میں نوشابہ بھی شامل تھی۔ میں نے کچھ سوچا اور فو ن کو دوبارہ بند کر دیا۔ اخلاقاً یہ بری بات تھی کیونکہ اس طرح کرنے سے اہم فون بھی مس ہو سکتے تھے لیکن کام کرنا اس بھی ضروری تھا۔

مجھے کام کرتے ہوئے 8 بج گئے۔ کام مکمل کرنے کے بعد فون دوبار ہ آن کیا تو نوشابہ کا پیغام تھا :” جب تک نہیں آؤ گے انتظار کروں گی۔ “ یہ نوشابہ کی آواز تھی۔ میں تھوڑی دیر کے لئے دفتر سے باہر نکلا۔ میرا رخ قلعہ کی جانب تھا۔ میں نے ٹھیک اسی جگہ گاڑی کھڑی کی جہاں کئی ماہ پہلے نوشابہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے ہو ں گے کہ مجھے ایک گاڑی کی روشنی دکھائی دی۔ کوئی روشنی کے ذریعے مجھے بلا رہا تھا۔ میں نے کار آگے بڑھا دی۔ اگلے چند منٹوں کے بعد دو مینار پاکستان کے پارکنگ ایریا میں داخل ہوئیں۔

نوشابہ ایک قدر ے پر سکون گوشے میں بیٹھتے ہی بولی :” یہ کیا حرکت تھی؟ “
” کیا مطلب؟ “ میں نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن کر کہا۔
کل رات پیچھا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ “
” تو تم نے مجھے دیکھ لیا تھا! “

” یہ پہلا موقعہ تھا، میں کئی بار نظر بچا کر پہلے بھی تمھارے قریب سے گزری چکی تھی۔ “
” مجھے تو بتایا گیا تھا کہ آپ لندن تشریف لے گئی ہیں۔ “
” ہاں میرے ہی کہنے پر ایسا کیا گیا تھا۔ “

” کمال ہے، اس کی ضرورت کیوں محسوس ہو ئی؟ “
” میں آپ کو ایک بات بتاؤں؟ “ اس نے سنجید گی اختیار کرتے ہوئے کہا۔
” جی فرمائیں! “

” ہم کو اس شخص کو خصوصی طور پر لوٹنے کی تربیت دی جاتی ہے جو ہم پر عاشق ہو جائے لیکن جہاں بہک جانے کا ایک فیصد بھی امکان ہے ہمیں اس راستے سے گزرنا تو درکنار، اس طرف دیکھنے سے بھی منع کیا جاتا ہے۔ میں یہ بات اس لئے کر رہی ہوں کہ آپ ایک شریف انسان ہیں۔ میرے اور آپ کے درمیان تعلق کی ایک حد ہے۔ او ر ہم دونوں کو اس حد کا خیال رکھنا ہو گا۔ میں آپ کی احسان مند ہوں اور یاد رکھئے جس قسم کی انفارمیشن میں آپ کو دے چکی ہوں اس طرح کی معلومات آپ کو کہیں سے نہیں ملیں گی۔ یقین نہ آئے تو کوشش کر کے دیکھ لیں۔ اس طرح اگر دوبارہ آپ نے مجھے چیس کیا تو مجھے بہت اذیت ہو گی۔ میں نہیں چاہتی کہ میں بلاواسطہ یا بالواسطہ آپ کی زندگی یا آپ کی سوچوں کا محور بنوں۔ ہاں البتہ کبھی کوئی خدمت ہو تو ضرور یاد کیجیے گا۔ چونکہ میں آپ کی احسان مند ہوں اس لئے میں نے یہ ساری گفتگو کی ہے۔ مجھے آپ کی نیت پر کسی قسم کا شبہ نہیں۔ لیکن یاد رکھیں قدم ڈگمگاتے دیر نہیں لگتی۔ میرا تو کچھ بھی نہیں جائے گا، برباد آپ ہی ہوں گے۔ “

نوشابہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔ لیکن اس طرح ہار ماننے والا میں بھی نہیں تھا۔ نوشابہ کی ہر بات 100 فیصد ٹھیک تھی لیکن تعلق توڑنے کا یہ انداز اچھا نہ تھا۔ ہم بہتر طریقے سے بھی جدا ہو سکتے تھے۔ لیکن وہ بہتر طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں سوچا تو مجھے سوائے کنفیوژن کے کچھ نہ ملا۔ بہر حال ایک بوجھل خاموشی کو ختم کرنے کے لئے میں نے اسے کہا” تمہیں انتظار کرنا پڑا، مجھے افسوس ہے۔ میں مجبور تھا۔ “

” نہیں نہیں! میں جانتی ہوں کہ آپ مصروف تھے۔ لیکن مجھے تو انتظار کرنا تھا خواہ آپ ساری رات نہ آتے کیونکہ مجھ پر ایک ایک لمحہ صدیوں کی طرح گزر رہا تھا۔ “
” تمہارے ساتھ گاڑی میں جو آرٹسٹ تھی اسے کہیں دیکھا ہے، مجھے اس کا نام یاد نہیں آرہا“

” آرٹسٹ“ وہ آرٹسٹ کا لفظ چبا چبا کر بولی۔ میں ابھی اس کا مطلب نہ سمجھ پایا تھا کہ وہ زور سے ہنسی اور بولی ” وہ۔ ٹی وی پر کبھی کبھار گاتی ہے اس لئے آپ نے اسے آرٹسٹ کہہ دیا۔ ویسے آپ کی طلاع کے لئے عرض ہے کہ وہ مجھ سے ہر لحاظ سے جونیئر ہے۔ “ نوشابہ بات جاری رکھتے ہوئے بولی ہمارا معاشرہ بھی عجیب ہے۔ کوئی شاہی محلے میں ہو تو اسے طوائف کہہ کر پکارا جاتا ہے اور جب وہ کوٹھے سے نکل کر ٹیلی ویژن یا فلمی دنیا میں پہنچ جائے تو دنیا کی نظر میں آرٹسٹ بن جاتا ہے حالانکہ کام ہم دونوں کا ایک ہی ہے۔ “

پھر وہ بولی ” آپ کی کتاب کا کیا بنا؟ “
” تم اپنا لیکچر ختم کرو تو میں کوئی بات کروں! “
” اچھا بتائیں کہا ں تک کام مکمل ہوا۔ “
” ابھی تو شروع ہی نہیں ہوا۔ “ میں نے کہا۔

” کیوں؟ “ وہ حیرا ن ہو کر بولی۔
” اس لئے کہ کوئی لفٹ ہی نہیں کراتا۔ “
” میں آپ کو ایک مشورہ دوں؟ “
” کہو۔ “

” آپ صحافی کی بجائے، عام گاہک بن کر دو چار گھروں میں چکر لگائیں، باہر کھڑے افراد سے ملیں اور کسی پر اپنی شناخت ظاہر نہ کریں۔ تین دن میں کتاب تیار ہو جائے گی۔ “ اور آنے والے دونوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ نوشابہ کی بات غلط نہ تھی۔

کتاب “عورت اور بازار” سے اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).