اسلامی نظام کا ماڈل، جمہوریت اور ہم


دنیا میں اس وقت حکمرانی کے پانچ ماڈل ہیں۔ خالص جمہوریت، ناقص جمہوریت، ملاوٹ شدہ جمہوریت، آمریت اور بادشاہت۔ اسلامی ماڈل اس وقت کہیں رائج نہیں۔ آپ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا، ایران، عراق یا مصر کو اگر اسلامی ماڈل کہنا چاہیں تو کہہ لیں مگر اصل میں یہ مسلم ممالک ہیں، اسلامی ماڈل یہاں رائج نہیں۔ آمریت اور بادشاہت کو بھی آپ ایک ہی ماڈل کہہ سکتے ہیں مگر اس میں تھوڑا سا فرق یہ ہے کہ سعودی عرب میں بادشاہت جبکہ مصر میں آمریت قائم ہے۔

خالص جمہوریت میں جو ممالک شامل ہیں ان کی فہرست اگر کسی نے نہیں دیکھی تو اندازے سے بھی بتا سکتا ہے کہ اس میں ناروے، سویڈن، نیوزی لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک، آسٹریلیا، سویٹزرلینڈ اور برطانیہ وغیرہ شامل ہوں گے۔ ناقص جمہوریتوں میں امریکہ کا نام ہے جو ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے اطمینان کا باعث ہو گا، اس کے علاوہ اس فہرست میں اٹلی، سپین، فرانس، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسے ملک شامل ہیں۔ سب سے دلچسپ فہرست ملاوٹ شدہ جمہوریت والی ہے۔

اس میں ہم ہیں اور ہمارے ساتھ بنگلہ دیش، نیپال، ترکی اور نائجیریا جیسے ملک ہیں۔ آمریتوں میں چین، لیبیا، شام، شمالی کوریا اور افغانستان کا نام ہے۔ بادشاہت والے ماڈل کی مثال دی جا چکی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی ماڈل والی جمہوریت کسی ملک میں کیوں رائج نہیں؟ کیا ایسا کوئی ماڈل وجود بھی رکھتا ہے؟ اور اگر ہے تو اب تک لاگو کیوں نہیں کیا جا سکا؟

اسلامی جمہوریت یا اسلامی طرز حکمرانی پر گزشتہ کئی دہائیوں سے بحث جاری ہے۔ اس ضمن میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک میں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کر کے اللہ کے قانون کو رائج کیا جائے۔ مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’اسلام کا نظام حیات‘ میں یہی اصول بیان کیے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ایسی اسلامی ریاست میں بالغ رائے دہی کے تحت حکمران منتخب کیے جائیں گے۔ ڈاکٹر اسرار احمد خلافت کے نظام کے بہت بڑے داعی تھے مگر وہ بھی امریکہ کے صدارتی نظام کو اسلامی ماڈل کے قریب سمجھتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ آج کے جدید دور میں اگر خلافت کا کوئی ماڈل اپنایا جا سکتا ہے تو وہ کچھ رد و بدل کے ساتھ امریکی صدارتی نظام کا ماڈل ہے۔

جاوید غامدی صاحب پارلیمانی جمہوریت کے حامی ہیں، وہ آمریت کے خلاف ہیں اور ایسی فلاحی ریاست کے حق میں ہیں جہاں ہر شخص اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکے۔ ان کا ماڈل سکینڈینیوین ممالک سے ملتا جلتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مسلم مفکرین نے اسلامی ماڈل کے خدو خال پر روشنی ڈالی ہے مگر ظاہر ہے کہ ان سب کا بیان یہاں ممکن نہیں۔ کچھ بزرجمہر ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ ملک میں انقلاب برپا کر کے مثالی اسلامی مملکت قائم کر دی جائے۔

ان کے دماغ میں غالباً افغانستان کا ماڈل ہے۔ اسی طرح کچھ نیک نیت اصحاب کا خیال ہے کہ جب تک ملک میں صالح لوگ برسر اقتدار نہیں آئیں گے اس وقت تک آئیڈیل اسلامی مملکت کا تصور محال ہے۔ اب یہ نیک لوگ کیسے منتخب کیے جائیں گے، عوام انہیں منتخب کیوں نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو پھر یہ نیک لوگ ڈیلیور کیوں نہیں کرتے، یہ وہ سوالات ہیں جن کا تسلی بخش جواب اب تک نہیں دیا جا سکتا۔

اسلامی نظامی حکومت کا ماڈل خلیفہ یا امیر المومنین کے تصور کے گرد گھومتا ہے۔ اور جب ہم یہ کہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں لا محالہ خلفائے راشدین کا وہ سنہری دور ہوتا ہے جو نہ صرف یہ کہ مثالی تھا بلکہ جس کی وجہ سے مسلمانوں نے کئی سو سال تک دنیا کی امامت کی۔ لیکن خلیفہ کے انتخاب کے طریقہ کار میں اختلاف کے سبب اس ماڈل کی کوئی جدید شکل سامنے نہیں آ سکی۔ الماوردی وہ پہلا مسلمان مفکر تھا جس نے خلیفہ کی اہلیت اور اس کی ذمہ داریوں پر مربوط انداز میں تفصیلاً روشنی ڈالی اور ایک طرح سے اسلامی طرز حکمرانی کے خدو خال واضح کیے۔

یہ کام خلفائے راشدین کے دور کے قریباً تین سو سال بعد جا کر ہوا۔ اپنی کتاب ’الاحکام السلطانیہ‘ میں الماوردی نے اپنی سیاسی نظریات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ الماوردی کا کہنا ہے کہ اسلامی مملکت میں امامت کا ادارہ شرعاً ضروری ہے، امام کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہو گا جس کے ارکان صالح اور اہل مسلمان ہوں گے، اس کے علاوہ incumbent امام بھی نئے امام کو نامزد کر سکتا ہے، اگر امامت کے لیے ایک ہی موزوں امیدوار ہو تو وہ امام بن جاتا ہے مگر اس کے لیے بھی انتخاب ضروری ہے، یعنی الیکٹورل کالج کی حمایت یا بیعت حاصل کرنا امام کے لیے ضروری ہے۔

اس امر میں البتہ علما کا اختلاف ہے کہ کتنے افراد کی بیعت سے امام منتخب ہوجاتا ہے اور کیا صرف دارالحکومت میں موجود سرکردہ افراد کی بیعت کافی ہے یا تمام بڑے شہروں میں سے حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح امام اپنے بعد ایک یا ایک سے زائد امیدواروں کو امامت کے لیے نامزد کر سکتا ہے اور یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اسلامی ریاست میں امام صرف مرد ہی ہو گا۔ اس کے علاوہ الماوردی نے امام کی ذمہ داریوں اور اختیارات پر بھی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔

وہ کہتا ہے کہ امام اسلامی اصولوں کے مطابق ریاست کا نظم و نسق چلائے گا اور چونکہ امام قرآن و حدیث اور فقہ کا ماہر ہو گا لہذا اس سے بہتر اسلامی اصولوں کی تشریح کوئی نہیں کر سکے گا، امام انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرے گا، ملک میں امن و امان قائم کرنے کا ذمہ دار ہو گا، معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی داد رسی کرے گا، طاقتور افراد کو نکیل ڈالے گا، قرآن کے ضابطوں کے مطابق معاشرے میں قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائے گا، سرحدوں کی حفاظت کرے گا، زکوٰة اور ٹیکس وصولی کا نظام وضع کرے گا، غربا اور مساکین کو بیت المال سے وظائف جاری کرے گا، ریاستی امور کو چلانے کے لیے پیشہ ور اور دیانت دار افسران کا تقرر کرے گا، ریاست کے مالی امور کی حفاظت کرے گا اور خود کو عیش و عشرت یا مذہبی رسومات میں مشغول رکھنے کی بجائے رعایا کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کرے گا اور جب وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دے گا تو پھر عوام کا بھی فرض ہے کہ نہ صرف اس کی اطاعت کریں بلکہ اسلامی ریاست کے قیام میں اس کی مدد کریں۔ امام کو ہٹانے کے طریقے پر الماوردی کا کہنا ہے کہ امام اگر اخلاقی طور پر حواس باختہ ہو جائے اور شریعت کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرے تو وہ امام نہیں رہتا اور اگر وہ جسمانی طور پر معذور ہو جائے تو بھی وہ امامت کے لیے نا اہل ہو جاتا ہے۔

بنیادی طور پر اس ماڈل کے تین پہلو ہیں۔ ایک، امام کا انتخاب، دوسرا، امام کی ذمہ داریاں اور تیسرا، امام کی مواخذہ۔ دوسرے پہلو پر کوئی زیادہ اختلاف نہیں، اصل اختلاف انتخاب کے طریقہ کار اور مواخذے پر ہے۔ مثلاً امام کو کیا ضرورت ہے کہ وہ رعایا کو کفر کا حکم دے اور اپنی حکمرانی کو خطرے میں ڈالے، اسی طرح جسمانی فٹنس کو جواز بنا کر جس طرح مسلمان حکمرانوں نے اپنے بھائیوں اور اقتدار کے ممکنہ امیدواروں کی آنکھیں نکلوائیں اور انہیں بد ترین ایذا رسانی کے ذریعے معذور کیا وہ ہماری تاریخ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ الماوردی اور دیگر مسلم علما نے امام اور اسلامی مملکت کے کام کرنے کے طریقہ کار پر بہت گراں قدر کام کیا مگر عملاً مسلمان حکمرانوں نے اس ماڈل کو ملوکیت اور پاپائیت میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ جدید دنیا میں مسلمانوں کے لیے یہ چیلنج اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ وہ کوئی ایسا ماڈل بنا کر دکھائیں جہاں اسلامی فلاحی مملکت جمہوری اصولوں پر قائم ہو۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ ہم پہیہ دوبارہ سے ایجاد کریں، یہ ماڈل دنیا میں رائج ہے، ہمیں صرف اسے اپنانا ہے اور نہلا دھلا کر اسلامی بنانا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم نے پارلیمانی جمہوریت کا ماڈل اپنایا تو ہوا ہے مگر دن رات ہم اس ماڈل پر تبرا کر کے اسے ناکام بنانے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے کوئی ماڈل نہیں چل سکتا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments