بالآخر آئی ایم ایف کے در دولت پر دستک


آپ کو اُکتا دینے کی حد تک اس کالم میں بارہا اعتراف کیا ہے کہ مجھے علم معاشیات کا ککھ پتہ نہیں۔ صحافیوں کو مگر زندگی کے ہر شعبے کے متعلق تھوڑا بہت جاننے کی کوشش میں لگے رہنا چاہیے۔

اس فریضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ریاستی بندوبست ِ معاشی اور مختلف کاروباری امور پر نگاہ رکھے لوگوں کو غور سے سننے کی عادت اپنارکھی ہے اور ان ہی کی بصیرت نے مجھے کئی ہفتے قبل یہ دعویٰ کرنے پر مجبور کیا کہ عمران خان حکومت کے پاس IMFکے پاس ایک بیل آئوٹ پیکج کے لئے جانے کے علاوہ کوئی راستہ ہی موجود نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے ہونہار بروا اسد عمر وزارتِ خزانہ کا منصب سنبھالنے کے فوری بعد کے دنوں میں لیکن اس امکان کو رعونت سے رد کرتے رہے۔ وہ ایسا کرنے پر اس لئے مجبور ہوئے کہ ان کے لیڈر کئی برسوں سے عوامی اجتماعات میں یہ وعدہ کرتے چلے آرہے تھے کہ وہ پاکستان کے معاشی معاملات چلانے کے لئے کسی غیر ملکی یا بین الاقوامی ادارے سے قرضے یا مدد کی ’’بھیک‘‘ مانگنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے۔

عمران خان صاحب نے پرزور انداز میں یہ بیانیہ تشکیل دیا تھا کہ غیر ملکی قرضوں اور امداد پر انحصار کے باعث پاکستان نے اپنی خودمختاری کھو دی۔ یہ کھو دینے کے بعد اسے افغانستان میں ’’دوسروں کی جنگ‘‘ لڑنا پڑی جس کے نتیجے میں ہزاروں پاکستانی دہشت گردوں کے اشتعال کا شکار ہوئے۔ ہماری سرحدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے امریکی ڈرون طیارے سرزمینِ پاکستان میں لوگوں کو ہلاک کرتے رہے۔

خان صاحب کو گلہ یہ بھی رہا کہ پاکستانیوں کی حمیت کو کمزور کرنے والے غیر ملکی قرضوں سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ پاکستان کے ’’نکمیّ، چور اور لٹیرے سیاستدانوں‘‘ نے ان قرضوں کو صرف اپنی ذات اور خاندان کو خوش حال بنانے کے لئے استعمال کیا۔ غیر ملکوں میں ان سب نے قیمتی جائیدادیں خریدیں۔

ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ قومی خزانے سے تقریباََ 200ارب ڈالر ’’لوٹ‘‘ کر غیر ملکی بینکوں میں جمع کروائے گئے ہیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی وہ کرپٹ اور بدعنوان سیاستدانوں کو یہ رقم قومی خزانے میں واپس لانے پر مجبور کردیں گے۔

اس رقم کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے بعد ملکی ترقی کے لئے خرچ کیا جائے گا۔ نئے ہسپتال بنیں گے۔ تعلیمی ادارے قائم ہوں گے۔ ترقیاتی کاموں کے لئے صرف خوش حال پاکستانیوں سے مناسب ٹیکس وصول کئے جائیں گے۔ غریبوں پراس ضمن میں کوئی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کے بجائے ارزاں کئے جائیں گے۔

روزمرہّ ضروریات کے بوجھ تلے دبے عام اور کم پڑھے لکھے لوگوں کو خاں صاحب کا بیانیہ بہت پسند آیا۔ آنا بھی چاہیے تھا کیونکہ ذلتوں کے مارے لوگوں کے لئے خواب ہی تو آخری سہارا ہوتے ہیں۔

دُکھ مگر ذاتی طورپر مجھے ہمیشہ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے رہا کہ خاں صاحب کے جہانگیر ترین اور رزاق دائود جیسے بااعتماد جیسے مشیروں نے کبھی انہیں سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ دنیا بھر میں جدید ترین معیشت بینکوں سے قرض لے کر ہی چلائی جاتی ہے۔

رزاق دائود صاحب ذاتی طورپر ان 30خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں ایوب خان کے آخری ایام میں اس ملک کے اجارہ دار سرمایہ دار تصور کیا جاتا تھا۔ پاکستان کے ہر کاروبار پر ان خاندانوں کا مکمل اجارہ تھا۔ ان خاندانوں کو قیام پاکستان کے بعد قائم ہوتے ایک ادارے جسے پکک (PICIC)کہا جاتا ہے کی جانب سے مختلف النوع کاروباری ادارے قائم کرنے کی جانب راغب کیا گیا تھا۔

سرد جنگ کے دوران پاکستان کو کمیونسٹ روس کے خلاف ایک اہم ترین اتحادی تصور کیا جاتا تھا۔ اس ملک کو لہذا سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت پھلتی پھولتی ’’خوش حالی‘‘ کا نمونہ بناکر ’’مسلم اُمہ‘‘ کے سامنے لانا ضروری تھا۔

ورلڈ بینک نے اس ’’ماڈل‘‘ کے قیام کیلئے آسان شرائط پر حکومتِ پاکستان کو رقوم فراہم کیں۔ ان رقوم کو سیٹھ دائود جیسے ’’ذہین خاندانوں‘‘ میں تقسیم کیا گیا۔ رونق لگ گئی۔ ایوب خان کے دس سال ’’خوش حالی‘‘ کے دس سال شمار ہوئے۔ اس ’’خوش حالی‘‘ نے مگر اس ملک کو غیر ملکی قرضوں کی لت لگا دی۔

کسی بھی لت میں مبتلا ہو جانے کے بعد اس سے نجات حاصل کرنا تقریباََ ناممکن ہو جاتا ہے۔ علاج یقینا میسر ہے۔ اس کی طرف راغب ہونے کے لئے مگر مصمم ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیت اور ارادے کی شدت کے باوجود کسی لت سے نجات پانے کے لئے برسوں تک انتظار کرنا ہوتا ہے۔

فوری علاج ممکن نہیں۔ جہانگیر ترین اور رزاق دائود جیسے بااعتماد مشیروں کا یہ اخلاقی فرض تھا کہ وہ خان صاحب کو احترام سے تنہائی میں یہ سمجھاتے کہ وہ اپنے سادہ سنائی دیتے بیانیے کو بہت شدت وتواتر کے ساتھ نہ پھیلائیں۔

اسد عمر بذاتِ خود ایک بہت بڑے کاروباری ادارے کے ساتھ ششدر کر دینے والی تنخواہ لینے والے ایگزیکٹو کے طور پر وابستہ رہے ہیں۔ اسی باعث ہر شخص کو کامل یقین تھا کہ عمران خان صاحب کو جب بھی اقتدار ملا تو وہ ان کے وزیر خزانہ ہوں گے۔

بالآخر اس منصب پر پہنچ جانے کے بعد اسد عمر صاحب کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ قوم کو انتہائی دیانت داری سے ملکی معیشت کے بارے میں حقائق سے آگاہ کرتے۔ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد مگر خاموشی اختیارکرنا مناسب سمجھا۔

ہمارے روبرو بلکہ مرزا شہزاد اکبر جیسے کشتہ فروش نمودار ہوتے رہے جو یہ معجون بیچتے رہے کہ ان کی ذہانت اور کاوشوں کے سبب غیر ممالک میں پاکستانیوں کی جائیدادوں اور بینک اکائونٹس کی نشان دہی ہوگئی ہے۔

جلد ہی ایسے قانونی معاہدے تشکیل پا جائیں گے جن کی بدولت ان کی جائیدادوں کی فروخت کے ذریعے حاصل ہوئی رقوم قومی خزانہ میں واپس آجائیں گی۔ غیر ملکی اکائونٹس سے رقوم کی وطنِ عزیز منتقلی ویسے بھی کمپیوٹر کا ایک بٹن دبانے کی منتظر ہوتی ہے۔

چند ہی روز قبل اسد عمر صاحب کی جانب سے مفتاح اسماعیل کے بنائے بجٹ میں ہوئی تبدیلیوں کو قومی اسمبلی سے پاس کروانے کا مرحلہ آیا تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس کی منظوری کے روز اپنی تقریر میں بہت اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ عمران حکومت نے IMF سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اسد عمر صاحب نے ان کی تقریر کے جواب میں ایک دھواں دھار تقریر کی۔ اس سوال کا مگر جواب فراہم کرنے سے گریز کیا کہ پاکستان IMFکے پاس جارہا ہے یا نہیں۔

شاید وہ مزید کئی روز تک ہمیں اس مخمصے میں الجھائے رکھتے۔ کراچی کا سٹاک ایکس چینج مگر پیر کے روز کریش ہوگیا۔ اسی شام بوکھلاہٹ میں وزیر خزانہ نے IMF سے رجوع کرنے کا اعلان کردیا اور اس ادارے کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے انڈونیشیا روانہ ہوگئے۔

ان کی روانگی کے بعد اب پاکستانی روپے کی قدر تیزی سے گرنا شروع ہوگئی ہے۔ IMFکا خیال ہے کہ ایک امریکی ڈالر کے بدلے 150پاکستانی روپے ملنا چاہیے۔ اسد عمر صاحب اسے شاید 135روپے تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔

قصہ مختصر پنجابی محاورے والی ’’گدھی‘‘ اسی ’’بوڑھ (IMF)‘‘ کے درخت تلے واپس چلی گئی ہے۔

فرق صرف یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے وزیر اعظم اب نواز شریف صاحب نہیں عمران خان صاحب ہیں اور وزارتِ خزانہ اسحاق ڈار کے بجائے اسد عمر کے پاس ہے۔ ’’تبدیل‘‘ صرف حکومت ہوئی ہے۔ غریب اور متوسط طبقات کا مقدر نہیں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).