حکومت سے ایسے حساب مانگا جا رہا ہے جیسے اس نے پانچ سال پورے کر لیے ہیں


سابقہ مشہور گلوکار اور بعد میں مشہور تبلیغی جماعت کے خطیب مرحوم جُنید جمشید اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ ایک نعت پڑھی تھی کہ نہ تیرا خدا کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے یہ جو راستے ہیں جُدا جُدا یہ معاملہ کوئی اور ہے۔ ان کا اشارہ غالباً فرقہ واریت کی شدت کی جانب تھا۔ لیکن ہمارا مقصد آپ کو اس وقت فرقہ واریت یا اسلام کے بارے میں کوئی بات کرنا ہرگز نہیں کیونکہ ہماری نظر میں یہ بُہت ہی حساس معاملہ ہے اور اس کو علما کرام پر چھوڑ دینا چائیے۔ ہماری گُزارش کُچھ اور ہے۔

پہلی دفعہ پاکستان میں دو پارٹی نظام کو تحریک انصاف نے آکر توڑا اور وفاق کے ساتھ دو صوبوں میں اپنی اور بلوچستان میں اتحادی حکومت بنائی۔ حکومت کو بنے ابھی دو مہینے بھی نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن لگتا ایسے ہے کہ گویا حکومت نے اپنا پانچ سال کا عرصہ پورا کر لیا ہو اور اب ان سے اس پانچ سالہ حکومت کا حساب مانگا جارہا ہے۔ اتنے کم عرصے میں حکومت کے پیچھے اگر الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا سوشل میڈیا لٹھ لے کے پڑا ہوا ہے تو اس میں سب سے بڑی ذمہ دار (قطع نظر اس بات کے کہ وہ اچھی حکومت کر رہے ہیں یا بُری) تحریک انصاف اور خان صاحب خود ہیں۔ کیونکہ لوگوں کو خواب ہی ایسے دیکھائے گئے تھے۔

جب سے تحریک انصاف ایک بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ ہم کُچھ نیا کریں گے تبدیلی لے کے آئیں گے۔ لوگوں نے یہ سمجھ کے ووٹ دیا کہ بس خان صاحب کے وزیراعظم بننے کی دیر ہے ستے “خیراں کی “پوزیشن ہوگی۔ عام آدمی جس کو زرمبادلہ کے ذخائر بجٹ کے خسارے معاشی معاملات کا علم نہیں ہے۔ وہ اگر ان موشگافیاں کو نہیں سمجھے اور حکومت پر ابھی سے ہی تنقید کرنا شروع کررہے ہیں تو ان کی باتوں پر اعتراض اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ وہ حکومتی مسائل اور معاملات سے کما حقہ آگاہی نہیں رکھتے۔ لیکن کیا معاشی ماہرین صحافی حضرات میڈیا سے متعلق لوگ۔ سیاسی لیڈر بھی ملکی مسائل کو نہیں سمجھتے۔ بالکل سمجھتے ہیں چونکہ پہلے ہی گُزارش کی تھی کہ معاملہ کوئی اور ہے۔ لیکن جس طرح کی تنقید اور اتنی جلدی کہ ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے حکومت کے لتے لینا شروع کردیا گیا۔ جس طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ وزیراعظم کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ توکیا اس پہلے کے حکمران کوئی آئیڈیل اور ولی اللہ جیسے تھے۔ ہر گز ہر گز نہیں تھے۔

دور کیوں جائیں نواب اسلم رئیسانی جیسا وزیراعلی۔ پھر ایک ایزی لوڈ وزیراعلی بھی تھے پھر مُرشد قائم علی شاہ جیسا وزیراعلیٰ بھی تو صوبوں میں رہے۔ معذرت کے ساتھ سارے پاکستان میں میاں شہباز شریف صاحب کو سب سے اچھا وزیراعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔ اور تقریروں میں جیسے وہ مائک توڑا کرتے تھے اور بڑے بڑے دعوے کرتے تھے۔ سستی روٹی لیپ ٹاپ ماڈل ٹاون میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے حاملہ خواتین سمیت شہریوں کو بے دردی سے مارا جانا جیسے کئی “کارنامے” ان کے کھاتے میں ہیں۔ بجائے پولیس کی پرفارمنس اور اخلاقیات بہتر کرنے کے ان کی وردی تبدیل کردی۔ جیسے “نمونے” ہی تھے۔

سابقہ حکومت نے جس طرح موٹروے ائیرپورٹ گروی رکھ کر اور جس مہنگے ریٹ پر قرضہ لینے کے ریکارڈ توڑے۔ قطر سے جس طرح کے چُھپ چُھپا کے گیس کے معاہدےکیے اور جس طرح چین کی سی پیک پر بھاری شرائط پر سرمایہ کاری ہورہی ہےاور قرضے لئے گئے۔ جس طرح آتے ہی ن لیگ کے وزیر خزانہ نے بغیر کسی کو بتائے قانونی طریقہ اپنائے گردشی قرضہ چار سو اسی ارب توانائی والی کمپنیوں کو دے دیا۔ اور جاتے جاتے پھر گردشی قرضہ گیارہ سو ارب چھوڑ گئے۔ کیا جو گذارشات میں نے پیش کی ہیں یہ درُست نہیں۔

کیا جنوبی پنجاب کے فنڈ لاہور پر خرچ نہیں کیے گئے؟ کیا ہمارے سابقہ وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب اور وزرا کرام ہر وقت دورے پے جارہے ہیں اور دورے سے آرہے ہیں والی پوزیشن نہیں تھی۔ کیا میڈیا نے سول سوسائٹی نے پڑھے لکھے طبقے نے سابقہ حکومتوں پر اس طرح لٹھ لے کے بات کی تنقید کی طنز کیا ان سے پوچھا۔ یہ سب کس لئے ہورہا ہے۔ مُلک کو کیوں دلدل میں پھینکا جارہا ہے۔ اس وقت ایسی کوئی لمبی چوڑی تنقید کیوں نہیں کی گئی کہ جس طرح ہم سب موجودہ حکومت کے لتے لے رہے ہیں۔

کیا ہمیں یہ سب نہیں پتا کہ ہماری برآمدات کم ہیں درآمدات زیادہ ہیں۔ ہر بجٹ خسارے کا ہے۔ ہم میں اکثریت ٹیکس دیتی نہیں۔ اور ہمیں مُلک کو چلانے کے لئے قرضہ لینا لازمی ہے۔ روپے کی قدر کم ہوگی مہنگائی بڑھے گی۔ یہ ایسے معاملات ہیں کہ جس سے ہر حکومت نے گزرنا ہے۔ جہبوریت اور آزاد معاشرے میں تنقید کی بالکل اجازت ہونے چائیے۔ اگر حکومت کرپشن کرے۔ مُلکی سلامتی داؤ پے لگائے۔ ریاست کے مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دے۔ پھر ہم سب کو تنقید کرنی چائیے۔

کیا اس حکومت کا کوئی بڑا کرپشن سکینڈل آیا۔ کیا حکومت نے ریاست کے مفاد کا کوئی سودا کردیا۔ ذاتی مفاد کے لئے مُلک مفاد کو پس پشت ڈال دیا۔ ؟ نہیں نہ۔ لیکن اگر کسی کو وزیراعلیٰ کی شکل پسند نہیں۔ وزیراعظم کی لگی لپٹی کے بجائے سیدھی اور سادہ باتیں پسند نہیں۔ اگر میری یا آپ کی پسند کا لیڈر مُلک کا حکمران نہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کو حکمران دیکھنے کے چکر میں موجودہ حکومت کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردی۔ ان کو ناکام کرنا اور ہٹانا ہی مشن بنا لیں۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ آجکل یہی کُچھ ہورہا ہے اور جو جو کُچھ اس حکومت کو ناکام کرنے کے لئے ہورہا ہے اس سارے حرکتوں کے پیچھے نہ تو مُلک کے لئے کوئی درد ہے نہ جمہوریت کا دُکھ ہے۔ نہ ریاست کی خیر خواہی ہے۔ بلکہ یہ معاملہ کُچھ اور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).