ترکی نے سعودی صحافی خاشقجی کے مبینہ اغواکاروں کی ویڈیو جاری کر دی


Still from Turkish TV of aircraft purported to be involved in the disappearance of Saudi journalist Jamal Khashoggi, 10 October 2018

سعودی وزیرِ خارجہ عبد الجبیر سے بات کرتے ہوئے جرمی ہنٹ کا کہنا تھا کہ ‘دوستیاں مشترکہ اقدار پر منحصر ہوتی ہیں۔’

ترک میڈیا نے سعودی عرب کے معروف صحافی جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے سی سی ٹی وی فوٹیج ریلیز کر دی ہے۔

اس ویڈیو میں مبینہ سعودی انٹیلیجنس افسران کو استنبول ہوائی اڈے کے ذریعے ترکی میں داخل ہوتے اور روانہ ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق جمال خاشقجی دو اکتوبر کو سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے اور اس کے بعد انھیں کہیں دیکھا نہیں گیا ہے۔

ترک حکام کا خیال ہے کہ انھیں قتل کر دیا گیا ہے جبکہ سعودی عرب اس الزام کی تردید کر چکا ہے۔

ترکی نے نشر کیا کیا ہے؟

ترکی کے نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ چینل پر نشر ہونے والی ویڈیو بظاہر سیکیورٹی کیمروں کی مدد سے بنائی گئی ہے۔ اس فوٹیج میں ان کالی وینز کو قونصل خانے کی جانب جاتے دیکھا جا سکتا ہے جو کہ اس تفتیش میں مرکزی اہمیت رکھتی ہیں۔

سعودی مردوں کا ایک گروہ ترکی میں داخل ہوتے، ہوٹل میں وقت گزارتے اور پھر ملک چھوڑتے دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ گروہ ایک خصوصی سعودی طیارے سے ترکی آیا۔

جمال خاشقجی قونصل خانے میں اپنی طلاق کے معاملات طے کرنے کے لیے گئے تھے تاکہ وہ اپنی ترک منگیتر ہیتیس سنگز سے شادی کر سکیں۔

ویڈیو میں انھیں قونصل خانے میں داخل ہوتے دیکھا گیا اور ان کی منگیتر باہر انتظار کر رہی ہیں۔

عالمی ردِعمل

برطانیہ کے وزیرِ خارجہ نے سعودی عرب سے کہا ہے کہ برطانیہ جمال خاشقجی کے حوالے سے جوابات کا منتظر ہے۔

سعودی وزیرِ خارجہ عبد الجبیر سے بات کرتے ہوئے جرمی ہنٹ کا کہنا تھا کہ ’دوستیاں مشترکہ اقدار پر منحصر ہوتی ہیں۔‘

اس سے قبل امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انھوں نے سعودی حکام سے صحافی کی گمشدگی کے بارے میں بات نہیں کی۔

انھوں نے کہا کہ ’ابھی تک بات نہیں کی مگر کروں گا۔‘

امریکی وزیرِ خارجہ مایئک پومپیو نے سعودی عرب کو تفتیش میں تعاون کرنے کے لیے کہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک ’فوری آزاد اور بین الاقوامی‘ تفتیس کا مطالبہ کیا ہے۔

گذشتہ ہفتے سعودی ولی عہد نے بلومبرگ نیوز کو بتایا تھا کہ ان کی حکومت یہ جاننے میں بہت دلچسپی رکھتی ہے کہ جمال خاشقجی کو ہوا کیا ہے۔

جمال خاشقجی کون ہیں؟

سنہ 2003 میں وہ 'الوطن' اخبار کے مدیر بنے لیکن عہدہ سنبھالنے کے دو ماہ کے اندر ہی انھیں ایک کہانی شائع کرنے کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔ اس میں سعودی عرب کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

سنہ 2003 میں وہ ‘الوطن’ اخبار کے مدیر بنے لیکن عہد سنبھالنے کے دو ماہ کے اندر ہی انھیں ایک کہانی شائع کرنے کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔ اس میں سعودی عرب کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

ایک زمانے میں خاشقجی سعودی عرب کے شاہی خاندان میں مشیر ہوا کرتے تھے لیکن پھر وہ تیزی سے سعودی حکومت کی نظرِ عنایت سے دور ہوتے گئے یہاں تک کہ گذشتہ سال سے وہ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگے۔

یہاں ہم ان کے کریئر اور ان واقعات پر روشنی ڈال رہے جو بالاخر پر ان کی گمشدگی کا باعث بنا۔

جمال خاشقجی سنہ 1958 میں مدینہ میں پیدا ہوئے اور انھوں نے امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی تھی۔

اس کے بعد وہ سعودی عرب لوٹ آئے اور ایک صحافی کے طور پر سنہ 1980 کی دہائی میں اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے ایک مقامی اخبار میں سوویت روس کے افغانستان پر حملے کی رپورٹنگ سے اپنی صحافت شروع کی۔

اس دوران انھوں نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پر قریب سے نظر رکھی اور سنہ 1980 اور 90 کی دہائیوں میں کئی بار ان سے انٹرویو کیا۔

اس کے بعد سے انھوں نے خطۂ عرب میں رونما ہونے والے دوسرے اہم واقعات کی رپورٹنگ بھی کی جن میں کویت کے معاملے پر ہونے والی خلیجی جنگ بھی شامل تھی۔

سنہ 1990 کی دہائی میں وہ پوری طرح سعودی عرب منتقل ہو گئے اور سنہ 1999 میں وہ انگریزی زبان کے اخبار ‘عرب نیوز’ کے نائب مدیر بن گئے۔

سنہ 2003 میں وہ ‘الوطن’ اخبار کے مدیر بنے لیکن عہد سنبھالنے کے دو ماہ کے اندر ہی انھیں ایک کہانی شائع کرنے کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔ اس میں سعودی عرب کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

برطرفی کے بعد پہلے لندن اور پھر واشنگٹن منتقل ہو گئے جہاں وہ سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس چیف شہزادہ ترکی کے میڈیا مشیر بن گئے۔

اس کے بعد وہ سنہ 2007 میں پھر الوطن میں واپس آئے لیکن تین سال بعد مزید تنازعات کے بعد انھوں نے اخبار کو چھوڑ دیا۔

سنہ 2011 میں پیدا ہونے والی عرب سپرنگ تحریک میں انھوں نے اسلام پسندوں کی حمایت کی جنھوں نے کئی ممالک میں اقتدار حاصل کیا۔

سنہ 2012 میں انھیں سعودی عرب کی پشت پناہی میں چلنے والے العرب نیوز چینل کی سربراہی کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس چینل کو قطری نیوز چینل الجزیرہ کا حریف کہا جاتا ہے۔

لیکن بحرین میں قائم کیا جانے والا نیوز چینل سنہ 2015 میں اپنے آغاز کے 24 گھنٹوں کے اندر ہی بحرین میں حزب اختلاف کے ایک معروف رہنما کو مدعو کرنے کے سبب بند کر دیا گیا۔

سعودی امور پر ماہرانہ رائے رکھنے کی حیثیت سے جمال خاشقجی بین الاقوامی سطح پر مختلف نیوز چینلز کو مستقل طور پر اپنی خدمات فراہم کرتے رہے۔

سنہ 2017 کے موسم گرما میں وہ سعودی عرب چھوڑ کر امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp