میڈیا سینسر شپ: پاکستان بھی سعودی اور چینی ماڈل پر عمل پیرا؟


گذشتہ ہفتے پاکستان میں صحافیوں کی سب سے پرانی قومی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (ایف پی یو جے) کی فیڈرل ایگزیکٹیو کونسل نے سخت الفاظ پر مبنی ایک بیان جاری کیا جس میں دوسری باتوں کے علاوہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی سینسرشپ کی مذمت کی گئی تھی۔

ایف پی یو جے نے پارلیمان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ‘آزادیِ اظہار’ کا تحفظ کرنے کے لیے مشترکہ آواز بلند کرے جسے اس کے مطابق ‘ریاستی اداروں’ کے ہاتھوں شدید خطرے کا سامنا ہے۔

اس بیان میں ایسے کئی واقعات کی فہرست دی گئی ہے جن میں صحافیوں پر جسمانی حملوں سے لے کر نئے ٹی وی چینلوں اور ریڈیو سٹیشنوں کی شکل میں میڈیا انڈسٹری کا جوڑ توڑ شامل ہے جہاں صحافت کی آڑ میں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔

بیان میں صحافت کی موت کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے کیوں کہ صحافیوں اور میڈیا اداروں کے مالکان کو خود پر سینسرشپ عائد کرنا پڑ رہی ہے۔

یہ ہر لحاظ سے پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے بارے میں کڑی فردِ جرم ہے۔ اس کے اندر گہرا دکھ پایا جاتا ہے کہ اتنی مشکلوں سے حاصل کردہ سماجی اور سیاسی آزادی اب ڈھلوان کے کنارے تک پہنچ گئی ہیں۔

لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟

یہ بیان صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔ اکثر ٹی وی چینلوں اور اخباروں نے اسے نظرانداز کر دیا۔ جنھوں نے اس کا ذکر کیا بھی تو اس انداز سے جیسے یہ کوئی غیر اہم سی خبر ہو۔ ہر رات نشر ہونے والے سینکڑوں ٹی وی ٹاک شوز میں سے صرف تین نے اس پر بات کرنے کی زحمت کی۔ لیکن ان کا انداز بھی سرسری اور معذرت خواہانہ تھا۔

پارلیمان نے یوں ظاہر کیا جیسے یہ بیان کبھی جاری ہی نہیں ہوا اور وہ اپنے روزمرہ کے دھندوں میں پڑی رہی۔ یہ بیان وائرل نہ ہو سکا، اور جس بہادری سے آیا تھا، اسی طرح سے ہوا میں تحلیل ہو گیا۔

اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں سینسرشپ کا نظام کس طرح کام کرتا ہے اور اس کی حرکیات کس قدر پیچیدہ ہیں۔ پی ایف یو جے نیشنل پریس کلب کے ساتھ مل کر احتجاجی مظاہرے منعقد کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور میڈیا مالکان اور سیاست دانوں سے ملاقاتیں کر رہی ہے، لیکن اسی دوران ملک میں جاری و ساری کڑی سینسرشپ کے بارے میں پی ایف یو جے کے بیان کا ذکر کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ قومی بحث کا حصہ نہیں بن سکا۔

بظاہر تو یہ بات بڑی حیرت انگیز نظر آتی ہے، لیکن اگر آپ اگر گہری نظر ڈال کر دیکھیں کہ اس ملک میں میڈیا کی آزادی کے پر کس منظم طریقے سے کترے جا رہے ہیں تو اسے سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا۔

یہ نظام بڑے شاطرانہ انداز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ اس میں آزادیِ رائے کی خاصی آزادی موجود ہے، بشرطیکہ وہ رائے عمومی رہے اور مخصوص تفصیلات میں نہ جائے۔ مثال کے طور پر اس پر بات کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ گذشتہ انتخابات آزاد تھے یا ان میں دھاندلی ہوئی۔ آپ ساری ساری رات تک انتخابی سیاست کے نظریات پر بحث و مباحثہ کر سکتے ہیں اور کوئی آپ کے منھ پر ہاتھ نہیں رکھے گا۔ کوئی لفظ نہیں کٹے گا، کوئی فقرہ حذف نہیں ہو گا۔

لیکن جس لمحے آپ حقائق، ڈیٹا، مثالوں، شواہد، ناموں وغیرہ پر آئیں گے، اسی لمحے کانٹ چھانٹ کا عمل شروع ہو جائے گا۔ آپ کو ان سے سے کسی چیز پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ کو حقائق کی روشنی میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ اپنے مشاہدات بیان نہیں کر سکتے۔ آپ کو یہ اخذ کرنے کی اجازت نہیں ہے کہ ایک خاص نتیجہ حاصل کرنے کے لیے کس طرح پورا نظام مل کر کام کر رہا تھا۔

آپ کی رائے اس وقت تک آزادانہ ہے جب تک آپ تفصیلات سے دور رہتے ہیں۔ آپ کے حقائق پر پابندی ہے۔ آپ کا عمومی تجزیہ جائز ہے۔ آپ کے اخذ کردہ نتیجے اور استدلال پر پہرہ ہے۔ حقائق کی یہ جابرانہ اور منظم پوشیدگی تمام حدوں کو عبور کر جاتی ہے، اور آن دا ریکارڈ واقعات، بیانات، دستاویزی حقائق تک نو گو ایریا بن جاتے ہیں۔

اس لیے ان لوگوں کی پریس کانفرنسیں چلانے کی اجازت نہیں ہے جنھیں سیاسی وفاداریاں بدلنے پر مجبور کیا گیا، نہ ہی ان لوگوں کے بیانات سنوانے کی اجازت ہے جنھیں معمولی سے معمولی بہانوں پر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان واقعات کی طرح زبانی اشارہ بھی کٹ جاتا ہے۔ حقائق پر مبنی رپورٹنگ کو خاموشی کا شٹل کاک برقع اوڑھا دیا جاتا ہے۔ سینسرشپ کا یہ نظام ایک آدھ نہیں، بلکہ درجنوں ممنوع موضوعات پر محیط ہے جن سب کا یہاں ذکر کرنا وقت کا زیاں ہو گا۔

حقائق اور اصل واقعات کے خلاف اس بڑھتی ہوئی یلغار کو وہ ٹرائے کے گھوڑے تقویت دیتے ہیں جنھیں میڈیا انڈسٹری میں پلانٹ کیا گیا ہے اور جن کا کام ہر اس شخص کے پیچھے پڑ جانا ہے جو رائج الوقت حکومتی اور ریاستی بیانیے سے حقائق کی بنیاد پر اختلاف کی جرات کرتا ہے۔ (دیکھا کہ میں کسی کا نام نہیں لے رہا؟ یہ کثیر جہتی سینسرشپ کے دور میں بطورِ صحافی ہماری نئی تربیت، بلکہ عادت بن چکی ہے)۔

میڈیا

اب حکومتی یا اداہ جاتی نمائندہ دھمکیاں اور گالم گلوچ پر نہیں اترتے۔ بلکہ ان کی بجائے پالتو کتے اور لگڑبگڑ اپنے جبڑے پھاڑے، پنجے پھیلائے ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو سچ بولنے کی کوشش کریں۔ میں اور میرا خاندان، بشمول چھوٹے بچے، بذاتِ خود میڈیا اداروں اور سٹوڈیو کے کرتب بازوں کا نشانہ بن چکے ہیں جن کا کام ہی لوگوں کی شہرت کو تارتار کرنا ہے۔ اس مہم کے خلاف میری کسی شکایت کی شنوائی نہیں ہوئی۔ جب ایف آئی اے سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کے خلاف اس غلاظت کے سیلاب کے منبع کا سراغ لگانے کی طاقت ہی نہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ نفرت بریگیڈ، یہ کرائے کے میڈیا گوریلے اپنے مالکان کی بھرپور مرضی و منشا سے سرگرم ہوتے ہیں۔ یہی مالکان انھیں نہ صرف بھرتی کرتے ہیں بلکہ ان سے ان مذموم مقاصد کی تکمیل بھی کرواتے ہیں۔

اب ہم بات کرتے ہیں میڈیا اداروں کے اندر نافذ سینسرشپ کی، جس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ لچک دار ہے۔ یہ بحران کے دنوں میں چوٹی پر پہنچ جاتی ہے (بحران جو ان کی اپنی حماقتوں کے پیدا کردہ ہوتے ہیں) اور اس وقت زائل ہو جاتی ہے جب کچھ نہیں ہو رہا ہوتا۔ تاہم اس سینسرشپ کا سب سے خطرناک حصہ اس کی پہنچ اور اثرانگیزی ہے۔ اس کا آغاز ادارتی مواد کو کاٹے جانے سے ہوتا ہے اور انتہا نوکری ختم ہونے کی دھمکیوں پر۔

بعض اوقات آپ کے اپنے رفقائے کار ہی اس کا نفاذ کرتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح نظام کے اندر بچ بچا کر رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہوتے ہیں اور جو اس سے ٹکر لینے کی کوشش کرتے ہیں انھیں خود اپنے دفتر میں قیدِ تنہائی کاٹنا پڑتی ہے۔ اس کے ڈانڈے سوشل میڈیا سے لے کر ذاتی تبصروں اور پروفیشنل کام تک پھیلے ہوئے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مالکان بھی اسے کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

سچ تو یہ ہے کہ مالکان (یا ان میں سے کچھ) اپنے اوپر پڑنے والے دباؤ کو صحافیوں تک منتقل کر دیتے ہیں۔ جب ان سے صاف صاف کہا جاتا ہے کہ ان کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا، ان کے خاندان والوں کا پیچھا کیا جائے گا، ان کی نسلوں سے کیا گیا کام منہدم کر کے اس پر فرماں بردار ٹھگوں کی میڈیا امپائرز کھڑی کر دی جائیں گی، تو ایسی چیزوں کے خلاف جنگ لڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔

سینسرشپ

چینلوں کی بندش، اخباروں کی ترسیل میں خلل، کیبل نیٹ ورک پر چینل کی نمبرنگ، وغیرہ کلائی مروڑنے کے عام ہتھکنڈے ہیں۔ لیکن ان سے بھی گہرے اور خطرناک وہ اندرونی مکینزم ہیں جن کے تحت میڈیا اداروں کی مالیاتی حیثیت کو زک پہنچائی جاتی ہے۔

ادارتی معاملات پر میں نے جو جنگیں لڑی ہیں ان کی اکثریت کا تعلق ادارے کی ادارتی پالیسی سے ہرگز نہیں تھا۔ بلکہ ان کا تعلق میڈیا مالکان پر عائد کردہ دباؤ سے تھا اور یہی دباؤ آگے چل کر رپورٹنگ اور تجزیہ تک پہنچ جاتا تھا۔

عام حالات میں ایسے جابرانہ ماحول میں فعال عدلیہ اور پارلیمانی جماعتیں انصاف اور سہارے کا قدرتی ذریعہ ہوتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان دروازوں کے کواڑ آزادیِ اظہار کی سمت میں نہیں کھلتے۔ یہ صرف ایک کنجی سے کھلتے ہیں: یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں، یا ہمارے مخالف ہیں۔ آپ کو انصاف کے حصول کے لیے ان کا پٹھو بننا پڑتا ہے۔

غیرجانبدار بن کر جائز تنقید کے لیے جگہ حاصل کرنا ایک ایسا گناہ ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔ اور ویسے بھی میڈیا کی آزادی کا نیا ماڈل ہلکے پھلکے موضوعات اور تفریح کو خبروں پر ترجیح دیتا ہے۔ ایک سطح پر اب سعودی عرب اور چین کی طرز کے میڈیا کنٹرول کی باتیں کھلم کھلا ہو رہی ہیں۔ جیسے وہ پہلے ہی سے اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ اس تیرہ و تاریک ماحول میں امید کی واحد کرن یہ ہے کہ جو کچھ سینسر کیا جا رہا ہے وہ لوگوں کو پہلے ہی سے پتہ ہے۔ چاہے اس کی تمام تر تفصیلات نہ بھی معلوم ہوں، لیکن لوگوں کو احساس ہے کہ پسِ پردہ ہو کیا رہا ہے۔

یہ خوف کا ماحول، یہ جبر کی فضا لوگوں پر پوری طرح سے آشکار ہو چکی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب یہ حقائق منظرِ عام پر آئیں گے اور پاکستان کا یہ ‘راز’پوری طرح سے بےنقاب ہو جائے گا جس کے تحت باخبر تجزیے اور حقائق کی پردہ پوشی جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).